پاکستان نے 75سالہ تاریخ کھیل کے میدان میں بے شمار کامیا بیوں، کئی اہم ناکامیوں، اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈل، کھلاڑیوں کے اختلافات، اعزات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں، یہ سب پاکستان کے سب سے بڑے کشیر الاشاعت اخبار جنگ نے عوام کے لئے تاریخ کاحصہ بنایا، جیت ہو یا ہار ہر خبر اپنے قارئین تک پہنچانے میں جنگ کا کردار نا قابل فراموش رہا، جنگ نے ہر دور میں تمام کھیلوں کو اپنے صفحات پر نمایاں جگہ دی، کھلاڑیوں کی کار کردگی ہو، یاکسی کھلاڑی کے ساتھ ناانصافی، مستحق کھلاڑیوں کی مالی معاونت میں بھی اس کا کرادار قابل ستائش دکھائی دیا،کر کٹ کے نامور کھلاڑی ظہیر عباس، جاوید میاں داد، صادق محمد، اسکواش کے جہانگیر خان، ہاکی میں سابق قومی کپتان اصلاح الدین، حنیف خان خاتون ایتھلیٹ نسیم حمید، ٹیبل ٹینس میں شکور سسٹرز سمیت مختلف کھیلوں سے وابستہ نامور کھلاڑی بر ملا آج بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ میں شائع ہونے والی ان کے بچپن کی کار کردگی آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے، بھو لو برداران کے مقابلے ہو، یا جہانگیر خان اور جان شیر کی فتوحات ہو۔
ہاکی کے میدان میں اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئینز ٹرافی، ایشیا کپ میں پاکستان کے گولڈ میڈلز، کر کٹ کے میدان میں ورلڈ کپ کی تاریخی فتح، ایتھلیٹ نسیم حمید کی سائوتھ ایشین گیمز میں تیز ترین خاتون کا اعزاز اسنوکر کے شعبے میں محمد یوسف کا پاکستان کے لئے پہلی بار عالمی ٹائٹل جیتنایہ سب کچھ جنگ کی مدد سے عوام تک پہنچے اور آج بھی ان خبروں کے تراشے قارئین نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہیں، پاکستان نے اپنی کھیلوں کی تاریخ میں جو غیرمعمولی فتوحات حاصل کی ہیں ان کی فہرست نہ صرف طویل ہے بلکہ چند الفاظ میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔
یہ فیصلہ کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کس فتح یا کس یادگار لمحے کو نمایاں جگہ دی جائے اور کس کو نہیں کیونکہ ہر فتح اپنے طور پر اہم ہے۔پاکستان نے یوں تو متعدد کھیلوں میں عالمی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور اسنوکر وہ چار کھیل ہیں جن میں فتوحات کا سلسلہ طویل ہے۔ یہ وہ کھیل بھی ہیں جن میں پاکستان بیک وقت عالمی چیمپئن رہ چکا ہے۔
جنگ نے اکھاڑے کا بادشاہ منظور احمد المعروف بھولو پہلوان اور ان کے بھائیوں کے مقابلوں کو بھی عوام تک پہنچانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا، 12 دسمبر 1976 کو مشہور بھولو خاندان سے تعلق رکھنے والے اکرم پہلوان جب نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جاپانی پہلوان انتونیو انوکی سے مقابلے کے لیے رنگ میں اترے تو اس مقابلے کی یادگار کوریج نے اسے بام عروج پر پہنچادیا تھا، بھولو پہلوان کو دسمبر 1963 میں جب گاما کا جانشین مقرر کیا گیا۔ ان کو گاماں کا گرز، سونے کی پیٹی اور زری پگڑی دی گئی۔
گرز 1922ء میں گاماں کو ایڈورڈ ہشتم نے پیش کیا گیا تو یہ خبر بھی صفحہ اول کی زینت بنی۔8 فروری 2010ء کو پاکستان کی ایتھلیٹ نسیم حمید نے ڈھاکا میں منعقد ہونے والے سائوتھ ایشین گیمز میں 100 میٹر کی دوڑ 11.81 سیکنڈز میں جیت کر خطے کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل کیا ، ڈھاکا میں اپنی جیت کے بعد راقم الحروف سے بات چیت میں نسیم حمید نے کہا کہ مجھے ٹیم میں شامل نہ کرنے پر جنگ کی خبروں نے اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے میں ٹیم کا حصہ بنی، وطن واپسی پر بھی جنگ نے ان کے مسائل کو اجاگر کیا جس پر حکومت نے ان کے لئے نقد ایوراڈ کا بھی اعلان کیا،تین دن بعد جب نسیم حمید وطن واپس لوٹیں تو ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ انہیں ایئر پورٹ سے سیدھا گورنر ہائوس لے جایا گیا جہاں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ان کا خیر مقدم کیا اور فوری طور پر انہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ اسی دن صدر آصف علی زرداری نے بھی انہیں دس لاکھ روپے اور متحدہ قومی موومنٹ کےبانی نے ایک لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا۔
ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا استحقاق ملنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم نے پہلا دورہ بھارت کا کیا جس میں کھیلی گئی پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز بھارت نے دو ایک سے جیتی۔ بھارت نے دلی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ اننگز اور 70 رنز سے جیتا لیکن پاکستان نے لکھنؤ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں اننگز اور 43 رنز کی جیت سے حساب بے باق کردیا۔ یہ میچ نذر محمد کی ناقابل شکست سنچری اور فضل محمود کی شاندار بولنگ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔
پاکستان نے 1948 سے اولمپک مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ لندن اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر آئی۔ 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے بریگیڈئر عبدالحمید (حمیدی) کی قیادت میں نہ صرف گولڈمیڈل جیت کر بھارت کے چھ لگاتار اولمپک گولڈ میڈل جیتنے کا سلسلہ بھی ختم کر دیا۔ اولمپکس میں آخری گولڈ میڈل 1984میں جیتا، 1981 میں ٹورنٹو میں کھیلی گئی ورلڈ اوپن جیف ہنٹ سے شروع ہوئی لیکن جب ختم ہوئی تو جہانگیر خان کی شکل میں ایک نئے فاتح عالم کی بالادستی کا آغاز ہوچکا تھا جنھوں نے چار بار کے ورلڈ چیمپئن جیف ہنٹ کو فائنل میں شکست دے کر 17 سال کی عمر میں دنیا کے سب سے کم عمرا سکواش ورلڈ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
جہانگیرخان بلاشبہ ا سکواش کے عظیم ترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں جو تقریباً ساڑھے پانچ سال تک ناقابل شکست رہے اور اس عرصے میں انہوں نے پانچ سو سے زائد میچز جیتے۔ محمد یوسف پاکستان کے سب سے تجربہ کار اسنوکر کھلاڑی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، 1994 ء میں جوہانسبرگ میں منعقدہ ورلڈ ایمچراسنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں آئس لینڈ کے جوہانسن کو نو کو شکست دے کر پہلی بار پاکستان کو ا سنوکر کی دنیا میں ورلڈ چیمپئن بنوایا۔
محمد یوسف 1998 میں ایشین سنوکر چیمپئن شپ جیتنے والے پہلے پاکستانی بھی بنے۔ جان شیر خان اپنی فتوحات اور کارکردگی کے اعتبار سے جہانگیرخان سے کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ وہ جہانگیرخان کا دس برٹش اوپن ٹائٹل جیتنے کا ریکارڈ نہ توڑ سکے اور جب ان کا کریئر اختتام کو پہنچا تو وہ برٹش اوپن چھ مرتبہ جیت چکے تھے لیکن انھوں نے سب سے زیادہ آٹھ مرتبہ ورلڈ چیمپئن ہونے کا منفرد اعزاز ضرور حاصل کیا ہے۔