اخبار سے اپنے تعلق پر مشتمل قارئین کی بیان کردہ کہانیاں اور یادداشتیں جہاں ایک طرف کسی اخبار کی اہمیت اور افادیت کو متعین کرنے کا وسیلہ بن سکتی ہیں وہیں دوسری طرف ان انفرادی کہانیوں سے خود اس چیز پر بھی روشنی پڑ سکتی ہے کہ کسی ایک یا دوسرے قاری کی زندگی پر اخبار کے مطالعے نے کس طرح کے اثرات مرتب کیے؟یہ موضوع ایک عرصے سے میرے ذہن میں موجود رہا۔
میں اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ کاش میں اپنے طالبعلموں سے اس نوع کی تحقیق کروائوں کہ قارئین کی زندگیوں پر ان کے مطالعہ ٔ اخبار نے کیا اثر ڈالا،مگر قبل اس کے کہ اس طرح کے کسی تحقیقی مطالعے کی کوئی صورت بنتی ، ’ادارہ ٔ جنگ‘ نے اپنے پچھتر سالہ خصوصی ایڈیشن کی تیاری کے موقع پر خود مجھ ہی کواس آزمائش میں ڈال دیا کہ میں’ جنگ ‘کے ساتھ اپنے تعلق کا کھوج لگائوں اور اپنی یادوں کو تحریر کی شکل دوں۔
میرے لیے اس حکم کی تعمیل کے ضمن میں جو چیز سب سے زیادہ مانع تھی وہ خود میری ذات تھی جس کے بارے میں مَیں کبھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہا،من آنم کہ من دانم ۔مجھے یہ بھی پریشانی لاحق تھی کہ اس طرح کی کوئی تحریر سپرد قلم کرتے وقت تعلّی اور خود نمائی کا کوئی پہلو اجاگر ہوا تو یہ پڑھنے والوں کے لیے گراں اور خود میرے لیے باعثِ ندامت بن جائے گا۔چنانچہ زیرِ نظر تحریر میں میری یہ کوشش رہے گی کہ میں ایک عام قاری ہی رہوں ،نیز’ جنگ‘ کے صفحات میں ماضی میں مجھے اگر مختلف اوقات میں مضمون نگار کی حیثیت سے کوئی جگہ ملتی بھی رہی ہے تو اس کا ذکر’ جنگ ‘سے میرے دیرینہ تعلق کا محض ایک پہلو ہی نظر آئے اور اس کو پاکستانی قوم کے اُس مکالمے کا محض ایک ادنیٰ سا حصہ سمجھا جائے ، جس مکالمے کے عکاس ’جنگ‘ کے صفحات رہے ہیں۔
ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھوں تو اخبار بینی کے حوالے سے بہت سی دلچسپ یادیں ذہن کے پردے پر نمایاں ہونے لگتی ہیں۔یہ 1960ء کے عشرے کا وسط ہوگا جب اسکول کے زمانے میں پہلے پہل اخبار کی سرخیوں کی طرف توجہ جانا شروع ہوئی۔’جنگ‘ ہمارے گھر آتا تھا جس میں بچوں کے صفحات ہر ہفتے ’نونہال لیگ‘ کے نام سے شایع ہوتے تھے۔ آج کل جس سائز پر بڑے رسائل مثلاً ’اخبارِ جہاں‘ وغیرہ چھپتے ہیں،’نونہال لیگ‘ اس سائز کے چاریا آٹھ صفحوں پر مشتمل شمارہ ہوتا تھا۔
اس کا مزاج قدرے سنجیدہ تھا کیونکہ اس میں وہ چیزیں نہیں ہوتی تھیں جو اخبارات میں بچوں کے صفحوں پر عام طور سے چھپتی ہیں۔تخلیقی تحریروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں کہانیاں اور مضامین بھی ہوتے تھے۔’نونہال لیگ‘کے کتنے ہی لکھنے والے بعد میں مشہور ادیب بنے۔1950ء کے عشرے میں ان صفحات میں لکھنے والے بعد میں ملک کے نامور قلمکار بنے ۔ماضی کے ان نونہال اہل قلم میں مسرت جبیں،حسینہ معین، غازی صلاح الدین ، رشیدہ رضویہ ،نسیم درانی، اطہر شاہ خان اور رضا علی عابدی شامل تھے۔ زیرِ نظر مضمون لکھتے وقت میں نے غازی صلاح الدین صاحب سے رابطہ کرکے ’نونہال لیگ ‘ میںان کی شمولیت کے بارے میں پوچھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس زمانے میں کئی چیزیں ان صفحوں میں لکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ رضا علی عابدی اسکول میں ان کے کلاس فیلو تھے اور وہ دونوں ’جنگ‘ میں لکھا کرتے تھے۔ جس زمانے کے ’نونہال لیگ‘ میں نے پڑھے ان میں بھی کئی لوگ بعد میں معروف ادیب بنے ،سر دست مجھے صرف عفت گل اعزاز کا نام یاد آتا ہے جن سے ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی لیکن ان کی تحریریں مختلف ڈائجسٹوں میں شایع ہوتی رہیں اور ایک آدھ کتاب بھی ان کی میری نظر سے گزری ۔ ’نونہال لیگ ‘ کے کئی سال کے شمارے میں نے کافی عرصہ سنبھال کر رکھے لیکن پھر بعد میں پڑھنے کے شوقین کچھ بچوں میں تقسیم کردیے ۔
’جنگ ‘ میں طلبہ کے لیے چھپنے والے صفحے کا نام ’طالب علموں کے لیے‘ تھا۔یہ صفحے ہفتے میں دو مرتبہ بدھ اور ہفتہ کے روز شایع ہوتے تھے۔ایک دن ان کی اشاعت دو صفحوں پر اور دوسرے دن ایک صفحے پر مشتمل ہوتی تھی۔’طالب علموں کے لیے‘اپنے مندرجات کی وجہ سے طالب علموں میں بے حد مقبول تھا۔جس زمانے کے شمارے میں نے پڑھے وہ 1968 ء سے 1970ء اور ان کے آس پاس کے برس تھے۔ ان صفحات پر دو بہت مقبول کالم شایع ہوتے تھے ۔’شہر سے بارہ میل پرے‘، جامعہ کراچی کی ڈائری تھی۔ اُس وقت کراچی یونیورسٹی واقعی شہر سے بارہ میل دور تھی۔
اب شہر جامعہ کراچی سے بارہ تیر ہ میل آگے جاچکا ہے۔ یہ کالم سلیم جہانگیر جو اب امریکہ یا کینیڈا میں آباد ہوچکے ہیں، لکھتے تھے۔پھر یہ کالم اور دو لوگوں نے لکھا۔ایک اور کالم ’فریاد کچھ تو ہو ‘ تھا۔اس کو راشدہ افضال ، اسد اشرف ملک اور ثریا جبیں نے لکھا۔یہ کالم بعد ازاں کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔ ایک کالم ’طالبات کے لیے‘ کے عنوان سے شایع ہوتا تھا جس کو مختلف اوقات میں انیس خاتون، رئیس فاطمہ اور پروین شاکر نے لکھا۔’طالب علموں کے لیے‘ کا ایک بہت مقبول سلسلہ ’ذہنی آزمائش‘ تھا جسے طاہر جمیل نقوی اور دو ایک اور نوجوانوں نے مرتب کیا۔بعد میں ملک میں کوئز کے پروگرام جب بڑھے تو اکثر ان کا نام ’ذہنی آزمائش‘ ہی رکھا گیا۔
’طالب علموں کے لیے‘ میں ایک تجربہ یہ بھی کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایک ناول کا آغاز کیا گیا جس کی پہلی قسط غازی صلاح الدین نے لکھی اور پھر دوسرے طالبعلموں کو دعوت دی گئی کہ وہ اگلی قسطیں لکھیں۔ اس سلسلے میں ایک قسط پروین شاکر نے لکھی مگر پھر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ انہی صفحات پر سنجیدہ مضامین بھی شایع ہوتے تھے۔ پروفیسر حفیظ الرحمن صدیقی درس و تدریس کے مسائل اور تعلیمی اداروں کے تلخ حقائق پر اپنے مضامین میں روشنی ڈالتے تھے۔’طالب علموں کے لیے‘ مقبول بنانے میں بہت بڑا کردار ان صفحات کے مرتب نثار احمد زبیری کا تھا جنہوں نے ان صفحات کی ادارت بڑی دلجمعی اور ایک واضح ذہن کے ساتھ کی۔
انہوں نے ان صفحات کو اپنے زمانے کی تعلیمی دنیا کا عکاس بھی بنایا اوران کو نوجوان لکھنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کاذریعہ بھی بنایا۔ایک عرصہ صحافت میں گزار کر وہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہوگئے۔ جامعہ میں وہ ہمارے سینیئر اساتذہ میں شمار ہوئے ، انہوں نے ڈاکٹریٹ کیا اور تحقیق کے موضوع پر ایک مستند کتاب تحریر کی جو آج بھی طالبعلموں کے کام آرہی ہے۔
پچھلے دنوں میں نے فون پر ان سے رابطہ کیا اور ’طالبعلموں ‘ کے حوالے سے اپنی یادوں کی توثیق چاہی۔ انہوں نے کئی تحریروں کا پس منظر اور لکھنے والوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ میرا تاثر یہی ہے کہ ’نونہال لیگ‘ اور ’طالبعلموں کے لیے ‘ اتنے گہرے نقوش چھوڑنے والے شعبے تھے کہ ان کو بلاشبہ اپنی نوع کے منفرد اداروں کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔
اسی زمانے میں اخبار کے سنڈے ایڈیشن توجہ کا مرکز بننا شروع ہوئے۔’جنگ ‘کے سنڈے ایڈیشن کا پہلا صفحہ تصاویر پر مشتمل ہوتا تھا جس میں عالمی حالات اور سرگرمیوں کی تصاویر شامل کی جاتی تھیں۔ مجھے 1968ء میں کسی دن کا وہ اخبار یاد ہے جس میں نئے امریکی صدر رچرڈ نکسن کی کامیابی کے بعد کی تصاویر شایع ہوئی تھیں۔ سنڈے ایڈیشن کے اندر کے صفحات میں مضامین ہوتے تھے۔ پچھلے صفحے پرکبھی پیر علی محمد راشدی، کبھی جمیل الدین عالی یا کسی اور مشہور لکھنے والے کے پورے پورے صفحے کے مضامین چھپا کرتے تھے۔1970ء میں برٹرینڈرسل کے انتقال کی خبر میں نے’ جنگ‘ کے صفحہ اول پر پڑھی۔
اس سے پہلے میں نے رسل کا نام نہیں سنا تھا۔چند ایک روز بعد ’جنگ ‘ میں جمیل الدین عالی کا برٹرینڈ رسل پر مضمون شایع ہوا۔ میں اُن دنوں نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ میرا برٹرینڈ رسل سے یہ پہلا تعارف تھا جو بعد میں ان کی تحریروں کو پڑھنے کے مستقل شوق میں بدل گیا۔’جنگ‘ ہی میں ملک کی سیاست کی خبروں سے اُس سیاسی فہم اورشعور کی نشوونما شروع ہوئی جس کی جِلا زندگی بھر کی جستجو بن کر رہ گئی۔
میرا خیال ہے کہ بالکل ابتدائی زمانۂ طالبعلمی میں مجھے سیاسی ادب سے جو شغف پیدا ہوا اور جس نے بعد کی زندگی میں مجھے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ اور تدریس کی منزل تک پہنچایا ،اس سیاسی ادب کے شغف کی آبیاری بڑی حد تک ’جنگ ‘کے مطالعے سے ہی ہوتی رہی۔ سوچتا ہوں کہ اور بھی کتنے لاکھوں بچے ہوں گے جنہوں نے اپنی کم عمری میں اور بعد ازاں جواں سالی میں’ جنگ‘ سے اپنی سیاسی ذہنی تربیت حاصل کی ہوگی۔
میری عمر کے بچے جو 1965ء کی جنگ کے وقت پرائمری کلاسوں میں پڑھ رہے تھے، وہ سب بڑی جذباتی فضا میں پروان چڑھ رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میری کلاس کے زیادہ تر بچے پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ ہمیں کہانیاں اور ناول بھی وہی زیادہ پسند تھے جن میں بہادری کے قصے درج ہوتے۔
’جنگ‘ کے خبروں کے صفحات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے لیے ناگزیر مطالعے کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے ۔ بچپن کی یادیں کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ ذہن پر ثبت ہوجاتی ہیں ،شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ مجھے جنگ کے بعض شمارے اور ان میں سرخیوں اور تصویروں کی جگہ تک یاد ہے۔مثلاً ایوب خان اور حزب اختلاف کی جمہوری مجلسِ عمل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں میز پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے عمائدین کی تصویر اور کانفرنس سے پہلے چند رہنماؤں کی آپس میں بات چیت کی تصاویر اور پھر بعض خبروں کی تفصیل جس میں اصغر خان کا کانفرنس سے بائیکاٹ کرجانا اور پھر ان کو مناکر واپس لایا جانا، یہ سب تصاویر اور تفصیلات پردہ ٔذہن پر آج تک محفوظ ہیں۔’جنگ‘ کے ادارتی صفحے پر مختلف نقطہ ہائے نظر پر مشتمل تحریروں نے اسے ایک ارمغان کی حیثیت دے دی تھی۔ اس کا یہ تشخص بعدکے ادوار میں بھی برقرار رہا اور آج بھی ہے۔
ایوب خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان کا اقتدار میں آنا، ان کے ابتدائی اقدامات ،1970ء کے انتخابات جن کے موقع پر’ جنگ‘ نے ایک مفصّل ایڈیشن شایع کیا تھا، انتخابات کے بعد کا سیاسی بحران، ہندوستانی طیارے کا دو کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں اغوا، ان کا لاہور جہاز کو لانا، بھٹوصاحب کی لاہور ایرپورٹ پر ہائی جیکروں سے بات چیت کی تصویر ، یہ اور ساری تفصیلات ایک قاری کی حیثیت سے ’جنگ ‘کے صفحات میں پڑھیں اور دیکھیں تو یہ حافظے کا حصہ بنتی چلی گئیں۔
3دسمبر1971ء کو جب ہندوستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا تو سب اخبارات کی طرح ’جنگ‘میں بھی صرف اتنی اطلاعات شایع ہوسکیں جو سرکاری طور سے فراہم کی جارہی تھیں۔ اخبارات میں خوش فہمیوں پر مشتمل بیانات شایع ہورہے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ’جنگ‘ کے ادارتی صفحے پر ظہورالحسن بھوپالی کا اسی مفہوم کا مضمون شایع ہوا تھا ۔ 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹوکے سپرد کردیا۔ یہاں سے ایک سویلین دور کا آغاز ہوا ۔بھٹو صاحب نے قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے ایک روشن مستقبل کی تصویر دکھائی ، ایک نئے پاکستان کی تعمیر کی نوید دی۔
انہوں نے ایسے ابتدائی اقدامات کیے جن سے واقعی یہ تاثر ملتا تھا کہ ماضی کی روش سے ہٹ کر ایک نیا نظام پاکستان میں متعارف ہونے جارہا ہے ، لیکن بھٹو صاحب کا ساڑھے پانچ سالہ دورِ حکومت بحران در بحران اور غیر معمولی تضادات کا حامل دور ثابت ہوا۔ ہر چند کہ 1973ء کے دستورکی منظوری ایک بڑی کامیابی تھی لیکن یہ کامیابی ملک میں کسی جمہوری کلچر کی بنیاد نہیں رکھ سکی۔ حکومت اور حزب اختلاف کے تعلقات دشمنی اور انتقام کی حدوں تک پہنچ گئے اور یوں فوج کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا۔
اس پورے عرصے میں ’جنگ‘ کے صفحات سیاسی بحران کی عکاسی بھی کرتے رہے اور اخبار کے مضمون نگار اس پر اپنے تبصرے بھی لکھتے رہے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں زیڈ اے سلہری کے مضامین ’جنگ‘ کے ادارتی صفحے پر تواتر سے شایع ہوتے رہے ۔وہ حکومت کے ناقدین میں شامل تھے ۔ان کے مضامین روز بروز کے سیاسی حالات پر کم اور بنیادی نظریاتی موضوعات پر زیادہ ہوتے تھے۔
یہی وہ زمانہ تھا جب میں نے اپنے کالج کی زندگی میں اخبارات کے طالبعلموں کے صفحے پر اور پھر دوسرے صفحات پر بھی لکھنا شروع کیا۔اسی شوق میں 1977ء میں اقوام متحدہ کے ادارے ’انکٹاڈ‘ (UNCTAD) کی ایک کانفرنس کے تجزیے پر مشتمل ایک مضمون لکھ کر میں ’جنگ‘ کے ایڈیٹر یوسف صدیقی صاحب کے دفتر میں پہنچ گیا۔ یہ مضمون ان کے ہاتھ میں دے کر میں بغیر کسی بات چیت کے واپس آگیا۔ چند دنوں بعد ’جنگ‘ کے ادارتی صفحے پر اس مضمون کو چھپا دیکھ کر مجھ میں ڈھیروں خون بڑھ چکا تھا۔
جولائی1977ء میں ملک میں تیسرا مارشل لاء لگا۔جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں لگنے والا یہ مارشل لاء 1985ء تک جاری رہا۔یہ گیارہ سال صحافت پر شدید پابندیوں کے سال تھے۔ ان برسوں میں صحافیوں نے ابتلاء اور آزمائش کی وہ صورتیں بھی دیکھیں جو اس سے پہلے نہ تو پاکستان کی تاریخ میں اور نہ ہی انگریزی استعمار کے زمانے میں دیکھنے میں آئی تھیں۔البتہ 1985ء میں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کے بعد صحافت پر عائد پابندیوں میں کسی قدر کمی واقع ہوئی تو اخبارت میں سیاسی موضوعات پر تحریروں کا ایک طرح کا طوفان سا آگیا ۔’جنگ‘ میں چند سال پہلے سے کچھ نئے تجربات شروع ہوچکے تھے۔
خاص طور سے 1981ء میں جب لاہور سے ’جنگ‘ کی اشاعت شروع ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نوری نستعلیق پر کمپوزنگ کا آغاز ہوا۔ بہت سے نئے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ کئی پرانے اور سکہ بند ادیب اور کالم نگار جنگ کی ٹیم میں شامل ہوئے ۔یوں ’جنگ‘ کا سیاسی و سماجی محیط کہیں زیادہ پھیل گیا۔ 1980ء اور اس کے بعد کے عشروں میں ’جنگ‘ کا ادارتی صفحہ جس کی حیثیت ایک ارمغان یا ہائیڈ پارک کی تھی ، بے شمار قلم کاروں کے کالموں سے مزین ہوتا رہا۔ نذیر ناجی،عبدالقادر حسن، محمود شام، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، ہارون رشید،زاہدہ حنا، اور بیسیوں دیگر۔پاکستان کا شاید ہی کوئی بڑا کالم نگار ہو جس کی تحریریں کبھی نہ کبھی ’جنگ‘ کے ادارتی صفحے پر شایع نہ ہوئی ہوں۔
’جنگ ‘نے 1980ء کے عشرے میں ’جنگ فورم‘ کے نام سے ایسے طویل انٹرویوز بھی کیے جن میں کسی ایک بڑی سیاسی شخصیت سے ’جنگ ‘کے ادارتی عملے کا ایک منتخب پینل انٹرویو کیا کرتا تھا۔ یہ انٹرویو پورے پورے صفحے اور بعض اوقات ایک سے زیادہ صفحوں پر پھیلے ہوتے تھے ۔اسی زمانے میں ’جنگ‘ میں بہت سے موضوعات پر بحث و مباحثے بھی ہوئے ۔جنرل ضیاء الحق آئین میں جس طرح کی من مانی ترامیم کررہے تھے ، اور جس طرح کے عبوری آئینی حکم نامے جاری کیے جارہے تھے ان پر بڑی زبردست بحث ’جنگ‘ کے صفحوں پر آئینی و سیاسی ماہرین کی طرف سے کی جاتی تھی ۔بعض تاریخی موضوعات پر بھی مباحثے ہوئے۔
اسی طرح 1985-86ء میں جب لندن میں پاکستان کے جلا وطن سیاست دانوں ، ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ ، عطاء اللہ مینگل اور افضل بنگش نے سندھی بلوچ پختون فرنٹ قائم کرکے پاکستان کو ایک کنفیڈریشن بنانے کی تجویز پیش کی تو ’جنگ‘ کے صفحات میں اس پر کئی مہینے تک مختلف لوگوں کے اس موضوع کے حق یا مخالفت میں مضامین شایع ہوتے رہے۔اس موقع پر ارشاداحمد حقانی نے لندن کا دورہ کرکے متعلقہ سیاستدانوں سے انٹرویو کیے جو کئی ماہ تک ’جنگ‘ میں قسط وار شایع ہوتے رہے۔
یہ سب تحریریں بحیثیت مجموعی ایک بڑا سیاسی ادب تھا جس پر مشتمل بعد کے دنوں میں بہت سی کتابیں بھی شایع ہوئیں۔1979ء میں دو بڑے واقعات دنیا میں ایسے ہوئے جنہوں نے بعد میں کئی عشروں تک عالمی حالات کو متاثر کیا۔ان میں ایک تو ایران کا اسلامی انقلاب تھا اور دوسرا افغانستان میں سوویت یونین کے داخل ہونے کے بعدشروع ہونے والا بحران جس نے پاکستان کو بھی اپنے گرداب میں پھانس لیا۔ اگلے برسوں میں ’جنگ‘ کے صفحات ان دونوں بڑے عالمی واقعات کے ذکر سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’جنگ‘ کے رپورٹروں اور مضمون نگاروں نے براہ راست ان ممالک میں جاکر حالات کو دیکھا اور اپنے تبصرے اور رپورٹیں قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیں۔ مجھ جیسے سیاست کے طالبعلموں کے لیے یہ سب تحریریں ناگزیر مطالعے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ بیسیوں بلکہ سیکڑوں ایسے مضامین تھے جن کو میں نے کاٹ کر ان کی کلپنگز کے فائل بنائے اور پھر یہ برسوں میرے کام بھی آئے ۔کم و بیش یہی زمانہ تھا جب میں نے جامعہ کراچی میں ایم اے کرنے کے بعد پاکستان اسٹڈی سینٹر میں اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز کیا۔ ایم اے کی سطح کے طالبعلموں کے لیے تاریخ اور سیاسیات کے موضوعات پرلیکچروں کی تیاری کے دوران جہاں کتابوں اور تحقیقی جریدوں میں شایع شدہ مقالات پیش نظر رہتے تھے وہیں ہم عصر سیاسی تاریخ کا احاطہ اخبارات میں چھپنے والے مضامین اور انٹرویوز کے ذریعے ہوتا تھا ۔’جنگ‘ ان میں سب سے آگے تھا اس لیے کہ ا س کا سیاسی موضوعات کا احاطہ بھی دوسرے اخباروں سے کہیں زیادہ بڑا اور متنوع ہوتا تھا ۔
1987ء میںمیری تعلیمی اور تدریسی زندگی ایک اور دور میں داخل ہوئی ۔میں ایک اسکالر شپ پر ڈاکٹریٹ کی غرض سے برطانیہ کی معروف درسگاہ کیمبرج یونیورسٹی پہنچاتو جہاں اور بہت سی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا __ایک بالکل مختلف تعلیمی دنیا ،تعلیم اور تحقیق کے حقیقی مفہوم سے واقفیت، مختلف شعبوں ، اساتذہ اور طالبعلموں کاحصولِ علم میں غیر معمولی انہماک ، یہ سب تو اپنی جگہ تھا اور اس سے ہم آہنگ ہونے میں چند ماہ لگے بھی لیکن ایک بہت بڑا خلاء خود اپنے ملک اور وہاں کی سیاسی فضا سے دوری تھا۔ بچپن سے اخبار بینی کا جو شوق پال رکھا تھا وہ برطانوی اخبارات کی طرف منتقل تو ہوا، لیکن اردو اخباروں سے دوری بہت شاق گزر رہی تھی لیکن ابتدائی چند روز کے بعد ہی میں معلوم کرچکا تھا کہ کیمبرج میں ایک دکان پرلندن کا ’جنگ‘آتا ہے۔
وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ’جنگ‘ کے صرف چند ہی پرچے صبح آتے ہیں اور صبح ہی ختم ہوجاتے ہیں، سو روزانہ صبح سخت سردی میں ڈیڑھ دو میل کا سفر طے کرکے ’جنگ‘ کا حاصل کرنا اُس شوقِ اخبار بینی کی تشفی کے لیے کوئی بُرا سودا نہیں تھا جس کی بنیاد اپنے ملک میں پڑچکی تھی۔ لیکن پھر لندن میں ایک دوست نے یہ مہربانی کی کہ وہ ہر دو تین دن کے بعد ’جنگ‘ کے پچھلے دو تین دن کے شمارے مجھے ڈاک سے کیمبرج بھیج دیتے تھے۔’جنگ ‘ایک مرتبہ پھر میری زندگی میں شامل ہوچکا تھا۔
ماضی کی طرح پھر اس کی کٹنگ اور کلپنگ اور فائلوں میں اس کا محفوظ ہونا شروع ہوچکا تھا۔ ’جنگ‘(لندن)کا مواد زیادہ تر اس کے پاکستانی ایڈیشنوں، خاص طور سے کراچی کے ایڈیشن سے لیا جاتا تھا مگر مقامی خبروں کے لیے بھی خاصی جگہ رکھی جاتی تھی ۔چنانچہ اس میں سکھر، خیرپور ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ،پشاور اور کوئٹہ کے ساتھ ساتھ لُوٹن، پریسٹن، بریڈفورڈاور برمنگھم کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتیں اور اپنے آبائی وطن اور عارضی وطن دونوں سے تعلق کا احساس قائم رہتا۔
لندن کے ’جنگ ‘ کی دو اشاعتیں خاص طور سے ذہن کے کینوس پر محفوظ ہیں۔17اگست1988ء کو جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوئے۔یہ خبر تو شام تک دنیا کے سارے نیوز چینلز پر چھا چکی تھی۔ میں اس روز لندن ہی میں تھا ۔بہت بے چینی سے اگلے دن کے اردو اخبار کا انتظار تھا۔ ’جنگ‘ آیا تو حادثے کی ساری تفصیلات سامنے آئیں اور ذہن بہت سے بنیادی سوالات کی طرف مڑ گیا۔ حادثے کے اسباب کیا تھے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ تھا کہ کیا اب پاکستان میں فوجی آمریت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا یا یہ صرف ایک آمر ہی کی موت ثابت ہوگا؟آنے والے دنوں میں کچھ امید افزا اشارے بھی ملے لیکن پھر یہ بات رفتہ رفتہ پختہ ہوتی چلی گئی کہ جمہوریت کے آدرشوں کا حصول ہنوز بہت جدوجہد طلب ہے۔
’جنگ‘ کی ایک اور نئی اشاعت جس نے نظروں میں جگہ بنائی وہ نومبر1988 ء میں بینظیر بھٹو کی کامیابی کی خبریں تھیں۔ غلام مصطفی جتوئی اور پیر پگارا سندھ میں اپنے مضبوط حلقوں میں ناکام رہے تھے۔ لندن میں ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے پاکستان میں انقلاب آگیا ہے۔’جنگ‘ میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پروردہ سیاستدانوں کے بیانات یہی باور کرارہے تھے کہ جمہوریت کو ابھی اور بہت سے سنگلاخ راستوں سے گزرنا ہوگا۔ بعد کے برسوں میں یہ بھی ہم نے ’جنگ‘ ہی میں دیکھا کہ کس طرح سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی، کس طرح پکا قلعہ کا واقعہ ہوا اور پھر کس طرح 6 اگست 1990ء کو جبکہ ساری دنیا کی نظر یں کویت پر عراق کے قبضے اور امریکہ و برطانیہ کے سخت ردعمل کی طرف لگی ہوئی تھیں، پاکستان میں منتخب حکومت کو صدارتی حکم کے تحت گرادیا گیا۔’جنگ‘ کے صفحات تسبیحِ روز و شب کے دانے دانے کو گِن رہے تھے۔ دل کیسے ڈوبتا ہے اور ڈوبتا چلا جاتا ہے، وطن سے دور بیٹھے ایک پڑھنے والے کی کیفیت بھی اسی اخباری رپورٹنگ سے مرتب ہورہی تھی۔
1993ء کے وسط میں جب ملک واپسی ہوئی تو نہ صرف بینظیر کی پہلی حکومت ختم ہو چکی تھی بلکہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت بھی چل چلائو میں تھی۔اور حالات یہی پیغام دے رہے تھے کہ ’چراغ سب کے بجھیں گے،ہوا کسی کی نہیں‘۔ ’جنگ‘ قومی بحرانوں کی تہہ در تہہ تفصیلات قارئین تک پہنچا رہا تھا۔سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اخبار سے خود کو جدا نہیں کرسکتے تھے۔ ہمیشہ کی طرح’جنگ‘ پڑھنے والوں کی زندگی کا حصہ بنا ہوا تھا۔
1993ء کے بعد مجھے وقتاً فوقتاً ’جنگ‘ میں لکھنے کا موقع ملا۔مختلف قومی امور پر ’جنگ فورم‘میں شرکت بھی رہی۔ایک موقع پر’جنگ فورم‘ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔1996ء میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد جب 1997ء کے اوائل میں انتخابات ہوئے تو انتخابات سے قبل محمو د شام صاحب نے جو اس وقت کراچی کے ’جنگ ‘ کے ایڈیٹر تھے، انتخابات کے حوالے سے نکلنے والے روزانہ کے ایڈیشنوں کے لیے مجھے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر قسط وار مضمون لکھنے کو کہا۔یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔
ایک آدھ دن کے وقفوں سے لکھی جانے والی اٹھائیس قسطوں میں ہر قسط اتنی طویل ہوتی رہی کہ انتخابات کا وقت آپہنچا مگر یہ کہانی ایوب خان کے مارشل لاء تک ہی پہنچ پائی۔ یہ قسطیں تو پھر جاری نہ رہ سکیں کیونکہ انتخابات ہی منعقد ہوگئے اور ان کے حوالے سے شایع ہونے والے روزانہ کے ایڈیشن بھی پایۂ تکمیل کو پہنچے لیکن ’جنگ‘ میں شایع شدہ یہ قسطیں طالب علموں کے بہت کام آئیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ لاڑکانہ کے ایک طالبعلم نے بتایا کہ اس نے ان سب قسطوں کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔طلبہ ہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قسطیں جو’سیاسی بحرانوں کی آغوش میں نصف صدی کا سفر‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی، کچھ سال بعد ’شب گزیدہ سحر‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شایع ہوئیں۔
’جنگ‘ میں لکھنے کا ایک اور تاریخی اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب ’جنگ‘ اور ’دی نیوز‘نے ہندوستان کے اخبار’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ساتھ مل کرجنوری 2010ء سے ’امن کی آشا‘ کے نام سے ہر ہفتے ایک صفحہ اور مختلف دنوں میں مختلف مضامین شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس موقع پر ابتدائی مقالہ جویکم جنوری 2010ء کو ’جنگ‘ میں اردو اور ’دی نیوز‘ میں انگریزی میں شایع ہوا، مجھے لکھنے کا موقع ملا، سو یہ بھی ایک اعزاز تھا جو ’جنگ‘ نے اپنے ایک مستقل قاری کو بخشا۔ گذشتہ چند برسوں میں ’جنگ‘ کے قومی دنوں کے ایڈیشنوں میں، اسی طرح اخبار کے مستقل سلسلوں اور ادبی صفحے پر لکھنے کے بہت سے موقعے ملے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان تحریروں سے کسی کو فائدہ بھی پہنچا یا نہیں لیکن میرا ’جنگ‘ سے استفادے کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
گذشتہ پچاس پچپن برسوں میں زندگی کا کارواں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔اسکول اور کالج کے زمانے کے اخباری مطالعے جواں سالی میں پھیل کر کتابوں اور جراید تک پہنچے۔ اب جبکہ پختگی کی عمر میں داخلہ ہوچکا ہے ،کتب بینی اور اخبار بینی، کتابت اور طباعت کی دنیا سے نکل کر انٹرنیٹ کی دنیا تک پہنچ چکی ہے۔ اب بارہا اخبار کا انتظار کرنے کے بجائے نیٹ پر ہی ان کو پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن نیٹ پر اخبار پڑھنے سے وہ تشفی نہیں ہوتی جو اخبار کو ہاتھ میں لے کر اور اس کے لمس کو محسوس کرکے حاصل ہوتی ہے۔
’جنگ‘ نے اپنی پچھتر سالہ زندگی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی ،حالاتِ حاضرہ، ادب، مذہبیات، اقتصادیات،خواتین، سائنس اورٹیکنالوجی، کھیل ، فنونِ لطیفہ، طالبعلموں اور بچوں کے ادب ، غرض مختلف شعبوں میں اتنا کچھ شایع کیا ہے کہ اس کو حاشیہ خیال میں لانا بھی ناممکن ہے۔ میں صرف اپنے زیادہ قریب کے شعبے یعنی سیاسیات اور تاریخ کے حوالے سے بات کرنا چاہوں تو مجھے یہ کہنے میں بالکل کوئی شک نہیں ہوگا کہ ’جنگ‘ نے اتنا بڑا سیاسی ادب، اپنے مضامین ، تجزیوں ، کالموں ،انٹرویوزاور اداریوں کی صورت میں مستقبل کے تاریخ نویس کے سپرد کیا ہے کہ اگر ان سب چیزوں کو یکجا کیا جائے تو بلا مبالغہ سینکڑوں کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ اخبارات کو ’عجلت میں لکھی ہوئی تاریخ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ عجلت میں لکھی ہوئی یہی تاریخ بعد میں مستقل اور مستند تاریخ کی ایک بڑی اساس بنتی ہے۔’جنگ‘ تاریخ نویسی کا یہ فرض بخوبی انجام دیتا رہا ہے ۔
ایک آخری بات یہ کہ قاری تو ایک فرد ہوتا ہے اور افراد آتے، جاتے رہتے ہیں جبکہ اچھے اخبارات ادارے کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں ۔سو ایک قاری کی حیثیت سے ’جنگ‘ سے ہمارا تعلق تو ہمارے عرصہ حیات تک ہے لیکن اور بھی لاکھوں کروڑوں قارئین ہیں جو ’جنگ‘ کی عالمی بزم کا حصہ ہیں۔سو یہ بزم بھی ہمیشہ قائم رہے گی اور خدا کرے کہ ’جنگ‘ ہمیشہ اپنی ترو تازگی، وسیع المشربی اور پیشہ ورانہ خوبیوں کے ساتھ پروان چڑھتا رہے ۔ آمین