• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم کے پاکستان اورموجودہ پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان بنا تو ڈالر اور روپے کی قدر برابر تھی۔اب ڈالر 180 کی حد پار کر رہا ہے، 75سال میں ملک میں مختلف حکومتی نظاموں کو آزمایا گیا۔ نظام تھک گئے لیکن عوام کی تقدیر نہ بدلی۔ایوب خان دور میں 22خاندان سرمایہ دار تھے جبکہ اب 22000خاندان ایسے ہیں جو ایوب خان دور کے کروڑ پتیوں سے زیادہ سرمایہ دار ہیں،سینکڑوں کے اپنے جہاز ہیں اور سارے سرمایہ دار پاکستان کے مختلف نظاموں کی پیداوار ہیں اور اگر کوئی ایمان دار حکمران غلطی سے اقتدار میں آ جائے تو سب مل کر اسکے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں جس سے اسکی توجہ ملک کو آگے لیجانے کی بجائے مخالفین سے نمٹنے میںاور کرپٹ نظام کی درستی میں صرف ہوجا تی ہے۔ جس طرح عمران خان کو نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فصل الرحمان نے گھیرا ہے اور عمران خان کو چکرا کر رکھ دیا ہے اور ملک میں تمام تر خرابیوں کا پلندہ عمران خان کے سر پر رکھ دیا ہے، اس کیوجہ نظام کی خرابی ہے۔ 25سال سے عمران خان ان خاندانوں کے پیچھے لگاہواہے لیکن اس کاریگر کرپٹ ٹولے کی کرپشن کو پکڑ نہ سکا اور لگتا ہے کہ عمران خان 25 سال اور لگا دینگے مگر کامیاب نہیں ہوسکیں گے کیونکہ سارا جمہوری نظام ان خاندانوں کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ ملک اسوقت جس سیاسی بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے کا واحد حل آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے ملک میں صدارتی نظامِ حکومت قائم کرنا ہے۔عمران خان بھی صدارتی نظام کے حامی ہیں، ان کی کابینہ کے چند وزرا بھی صدارتی نظام کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ فوجی صدور نے صرف اپنی حکومت کا وقت بڑھانے کیلئے صدارتی نظام حکومت اپنا یا و اگر نہ وہ دل سے خدمت کرتے توکالا باغ ڈیم بن گیا ہوتااور ملک تاریکی کے بجائے ترقی کے سفر پر گامزن ہوتا۔ ڈالر 180 کا نہ ہوتا اور ملک کے تین ٹاپ لیڈرز نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فصل الرحمن ملک کا سارا سرمایہ منی لانڈرنگ کر کے لندن، دبئی اور دیگر ممالک میں نہ لے گے ہوتے تو بھی ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ اسلئے ان چور، ڈاکو، لٹیروں سے ملک کو بچانے کیلئے ایمان دار صدر کا ہونا ضروری ہے۔ صدارتی نظام کیلئے ریفرنڈم کروایا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں جس طرح کا ریفرنڈم مرحوم صدرضیا الحق نے کروایا تھا کہ میں پھر پانچ سال کیلئے صدر ہوں۔نامزدگی کیساتھ ساتھ الیکشن بھی امریکہ کی طرز پر کروایا جا سکتا ہے۔ مقابلہ ہوتو عوام پارٹی کے بجائے صدارتی ا میدوار کو ووٹ دیں۔صدارتی نظام کی کامیابی کے بعد حقیقی بلدیاتی نظام لایا جائے تاکہ چیئرمین ضلع کونسل، تحصیل کونسل اور یونین کونسل کی سطح کے انتخابات میں بھی صدر کی طرح ڈائرکٹ ووٹنگ سسٹم ہواور اختیارت نچلی سطح تک ہوں اور مسائل کا حل عوام کی دہلیز پر ہو۔ ہرضلع کا گورنر ہو تو دیکھتے ہیں مسائل حل کیوں نہ ہوں اور کوئی کرپشن کرے اس کی سزا موت سے کم نہ ہو۔ چین نے اپنے رشوت خور وزیروں کو سزاے موت دی اور گھر والوں کو لاش دیتے وقت جس گولی سے مارا ہوتا، اسکی قیمت بھی و صول کرتے اس طرح چین جو کہ ہم سے بعد میں آزاد ہوا دنیا کا طاقتور ملک بن گیا، جبکہ ہمارے حکمران امریکہ کی غلامی میں رہے۔ انڈیا سے جنگ کے وقت امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔ چین اور امریکہ کی ترقی صدارتی نظام کے مرہون منت ہے۔ اگر پاکستان میں بھی حقیقی صدارتی نظام آگیاتوملک دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعت بھی فوجی حکمرانوں کی پیدا وار ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایوب خان کابینہ سے نکل کر لاہورمیں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور نواز شریف بھی ضیاءالحق کے دور میں پروان چڑھے اور پھر نظریاتی ہو گئے تین دفعہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سایہ تلے پروان چڑھ کر وزیر اعظم بنے۔اس طرح پیپلز پارٹی بھی بار با ر فوج کی رضا مندی سے اقتدار میں آئی۔ صرف واحد جماعت مسلم لیگ ق ہے جو دل سے افواج پاکستان کی عزت و احترام کرتی ہے۔ باقی تیل کی دھار دیکھتے ہیں اگر پاکستان میں ایک دفعہ امریکہ اور چین کی طرح کا نظام آ جائے تو ملک ترقی کرسکتا ہے۔

صدارتی نظا م میں لانگ ٹرم منصوبے بنائے جاتے ہیں جو مقررہ وقت پر پورے ہوتے ہیں،جس سے ملک اسلئے ترقی کرتا ہے کہ پارلیمانی حکومت کی طرح اس حکومت کے چلے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا جس طرح ماضی میں میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے وزرائےاعظم اپنی اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور جو ترقیاتی منصوبے انکے ادوار میں شروع ہوئے وہ کسی جگہ بجلی کی تاروں کے بغیر کھمبے رہ گئے اور نامکمل سڑکیںان کی داستان سنارہی ہیں۔اس طرح ترقیاتی منصوبوں کی لاگت دس گناہ بڑھ گئی اور یہ سب کچھ غریب عوام سے لئے ہوئے ٹیکسوں کے ذریعے تعمیر کئے جاتے ہیں۔آپ اگر دیہاتی علاقوں میں جائیں تو جگہ جگہ اسکی تصویر نظر آتی ہے۔صدارتی نظام میں طویل المدتی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح کالا باغ ڈیم، پاکستان ڈیم اور شاہین ڈیم بنا کرملک سے بجلی کا بحران ختم کیاجا سکتا ہے۔صدارتی نظام میں اگرصوبوں کو مکمل خودمختاری دے دی جائے تو جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر ملک کو تاریکی سے نکالا جاسکتا ہے۔ صدارتی نظام آنے کے بعد ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جو جی او آر، ڈی سی ہائوس اور ڈی پی او ہائوس جوکہ کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل ہیں وہاں کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا کر عوام کی رہائشی مشکلات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔اس طرح پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام میں فرق صاف نظر آتا ہے۔مہنگائی کے خاتمے کیلئے جوپرائس کنٹرول کمیٹیاں ہیں ان کو فعال بنا کر دکان داروں اور گاہکوں کے مسائل حل کئے جا سکے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین