’’ جنگ‘‘ محض ایک اخبار نہیں ، شعر وادب کا عہد نامہ ہے۔ اگر اُردو ادب کو پاکستانی ادب کا نام دیا جائے اوراس کی ترویج و ترقی میں کسی ایک شخصیت یا کسی ایک ادارے کے کردار کی بات کی جائے تو میرخلیل الرحمٰن کی ادب نوازی و ادب پروری اور ان کی ادارت میں ’’جنگ‘‘ سے وابستہ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا ذکر کیے بغیر یہ تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ کون سا ایسا صحافی ہوگا جس نے ’’جنگ‘‘ میں کام کرنے کی خواہش نہ کی ہو۔کون سا ایسا ادیب ہے جسے ’’جنگ‘‘ میں لکھنے کی تمنا نہ ہو۔کون سا ایسا شاعر ہو گاجس نے ’’جنگ‘‘میں شائع ہونے کی آرزو نہ کی ہو۔
تمام صحافیوں کی خواہش تو پوری نہیں ہوئی البتہ ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی اکثریت نے ’’جنگ‘‘ کے پلیٹ فارم سے ہی اپنے ہونے کا اعلان کیا اورپھر دُنیائے ادب میں نیک نام و خوش مقام ہوئے۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شفیع عقیل ’’جنگ‘‘ سے نئے نئے وابستہ ہوئے تھے۔ سید محمد تقی اور رئیس امروہوی پہلے ہی میرخلیل الرحمٰن کی ادارتی ٹیم میں شامل تھے۔
شفیع عقیل کے ادبی میلان کو دیکھتے ہوئے میرصاحب نے انہیں نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بچوں کے صفحے ’’نونہال لیگ‘‘ کی ذمہ داری سونپ دی۔ آنے والے وقتوں میں آسمانِ ادب پر جگمگانے والے ستاروں انورشعور، عبیداللہ علیم، محسن بھوپالی،غازی صلاح الدین، نعیم آروی، رضا علی عابدی، افسر آذر، نسیم درانی، قمر علی عباسی، حسینہ معین، محمد عمر میمن، انوراحسن صدیقی، اطہر شاہ خان اور سمیع انورکے ساتھ ساتھ جسٹس سجاد علی شاہ، رانا بھگوان داس ، شائق الخیری اور رشیدہ رضوی نے بھی لکھنے کا آغاز ’’نونہال لیگ‘‘ سے کیا تھا۔
شفیع عقیل نے نوجوان ادیبوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میرصاحب کی سرپرستی میں ’’جنگ ‘‘ ہی کے پلیٹ فارم سے ’’بزمِ نوآموز مصنفین‘‘ کی بنیاد رکھی تھی جس کے پہلے صدر افسر آذر اور سیکرٹری نسیم درانی مقرر ہوئے تھے۔ شفیع عقیل سب کے بھائی جان تھے۔ ان کی اور ’’نونہال لیگ‘‘ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 1951ء میں میرصاحب نے ماہنامہ ’’بھائی جان‘‘ کا اجراء کیا۔ اس رسالے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے نامی گرامی ادیب عبدالمجید سالک، مولانا ماہر القادری، عشرت رحمانی، محشر بدایونی اور سید محمد تقی اپنی تحریریں باقاعدگی کے ساتھ ’’بھائی جان‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجا کرتے تھے۔
جبکہ نوآموز مصنفین کے بھائی جان شفیع عقیل نونہال لیگ اور بھائی جان میں شائع ہونے والی تحریروں پر تنقیدی گفتگو کے لیے انجمن ترقی اردو لائبریری (پاکستان چوک) میں ہونے والے ہفتہ واری اجلاسوں میں لے جاتے تھے جہاں حفیظ جالندھری، زید اے بخاری، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ماہرالقادری، سراج الدین ظفر، ابن ِانشاء ،محشر بدایونی، ادیب سہارنپوری، اطہر نفیس، کرارنوری، صہبا اختراور اختر انصاری الہٰ آبادی نوجوان ادیبوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے تھے۔
یہ انہی نابغہ ء روزگار ادبیوں اور شاعروں کی تربیت کا حاصل تھا کہ انور شعور غزل میں کراچی کا لہجہ بن کراُبھرے، عبیداللہ علیم چاند چہرہ ، ستارہ آنکھیں بن کر چمکے، محسن بھوپالی ’’منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘جیسا ضرب المثل مصرع کہہ گئے،نعیم آروی افسانوں کی دُنیا میں ’’بستی کا آخری آدمی‘‘قرار پائے،غازی صلاح الدین اور رضا علی عابدی نے صحافت اور ادب میں نیک نامی کی اشرفیاں سمیٹیں، اطہر شاہ خاں نے جیدی کے کردار میں ڈھل کر طنزومزاح کے میدان میں نام کمایا،حسینہ معین کو ٹی وی ڈراموں سے شہرت ملی اور نسیم درانی نے سہ ماہی ’’سیپ‘‘ کی صورت میں ادب کی ایسی شمع جلائی کہ آج تک روشن چلی آرہی ہے۔ ’’سیپ ‘‘ کا بنیادی محرک بھی میر صاحب کی سرپرستی میں روزنامہ جنگ کے پلیٹ فارم سے تشکیل پانے والی ’’بزمِ نوآموز مصنفین‘‘ ہی تھی۔ انجمن کے ممبران اپنی تخلیقات دیگر رسالوں اور جرائد میں اشاعت کے لیے بھیجا کرتے تھے لیکن انہیں وہاں جگہ نہیں ملتی تھی ۔نسیم درانی نے اپنے ممبران کی تشنگی کو مٹانے کے لیے ’’سیپ ‘‘ نکالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ جریدہ پاکستان کے صف ِ اول کے ادبی رسالوں میں شمار ہونے لگا۔
جنگ کی نرسری میں پھوٹنے والی خوش رنگ کونپلوں کے علاوہ بہت سے ایسے شجر ِ سایہ دار بھی ہیں جنہوں نے اپنی گھنی چھائوں بانٹنے کے لیے ’’جنگ ‘‘ کا انتخاب کیا۔ابنِ انشاء برس ہا برس جنگ کے لیے فکاہیہ کالم لکھتے رہے۔سید محمد تقی کوئی پچیس برس تک جنگ سے وابستہ رہے ۔اس دوران ان کے فلسفیانہ مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی کالم نگاری کے ساتھ ساتھ آخر دم تک جنگ میں قطعہ لکھتے رہے۔
’’وہ عشق جو ہم سے رُوٹھ گیا ‘‘ کے شاعراطہر نفیس اگرچہ جنگ کے انتظامی شعبے سے وابستہ تھے لیکن کالم اور حالاتِ حاضرہ پر مضامین بھی لکھتے تھے۔ معروف ادیب ابراہیم جلیس بھی شروع ہی سے جنگ کے ادارہ ء تحریر میں شامل تھے اور کئی برسوں تک کالم نویسی کرتے رہے۔ایک ادیب کے طور پر ان کے پانچ افسانوی مجموعے چالیس کروڑ بھکاری، آزاد غلام، دوملک ایک کہانی، جیل کے دن جیل کی راتیں اور زمین جاگ رہی ہے کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ کراچی پریس کلب کا مرکزی ہال ابراہیم جلیس کے نام سے منسوب ہے۔
اس کے علاوہ کامریڈ انیس ہاشمی، احمد ندیم قاسمی، انعام درانی اور جمال احسانی بھی ادب کو وقارو اعتبار بخشنے کے ساتھ ساتھ’’جنگ ‘‘ میں کالم نگاری کے ذریعے صحافت کو بھی اپنے حصے کی روشن خیالی سے بہرہ مند کرتے رہے۔اصغر ندیم سید بھی کبھی لکھا کرتے تھے۔کشور ناہید اور عطاء الحق قاسمی تو آج بھی جنگ کے ادارتی صفحات پر رونق افروز ہوتے ہیں اور جو عمر سے ہم بھر پایا کے مصداق سب سامنے لائے دیتے ہیں۔ منصور آفاق جیسے خوش فکر شاعر بھی ان دنوں جنگ کے کالم نویس ہیں۔ وجاہت مسعود کی فکری جولانیاں بھی اشاعت پذیر ہوتی ہیں اور امرجلیل جیسے بڑے افسانہ نگار کے طرزِ نگارش کی جھلکیاں بھی جنگ کے قارئین کے دل و دماغ میں صبح کی پہلی کرنوں کی طرح جھلملاتی رہتی ہیں۔
جنگ کا یہ بھی طرہ ء امتیاز رہا ہے کہ قومی ترانے ’’پاک سرزمین شاد باد‘‘ کے خالق ابولاثر حفیظ جالندھری سےلے کرشاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی تک باقاعدگی کے ساتھ اس میں لکھتے رہے ہیں۔ جوش صاحب کا کالم ’’علم وفکر‘‘ کے عنوان سے ادارتی صفحے پر شائع ہوتا تھا۔ جس میں وہ حالاتِ حاضرہ کے ساتھ کبھی بچھڑے ہوئے لکھنئوکی یادیں تازہ کیا کرتے تھے اور کبھی اپنے کالم کو کسی تازہ نظم سے آراستہ کرتے تھے۔ایک کالم انہوں نے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے عنوان سے بھی تحریر کیا تھا۔جوش صاحب نے لکھا تھا۔
’’ازل سے لے کر آج تک اس دنیا میں ایک فرد بھی ایسا پیدا نہیں ہوا اور ایک شئے ایسی خلق نہیں ہوئی ہے کہ اس عالمِ کون و فساد کے تمام افراد نے اُس کو سراہا، اور بلااستثناء، اُس کو پسند کیا ہو۔ہرچند اس دنیا میں بڑے بڑے مغنی، بڑے بڑے مدبر، بڑے بڑے فلسفی، بڑے بڑے فنکار، بڑے بڑے سائنسدان، بڑے بڑے اولیاء اور بڑے بڑے انبیاء پیدا ہو چکے ہیں۔ لیکن ان تمام بے شمار وعظیم ہستیوں سے کسی ایک فردکے بارے میں انسانی تاریخ اس امر کی شہادت نہیں دے رہی ہے کہ معاشرے کے ہر عقیدے ، ہر مزاج اور مکتب ِخیال کے تمام افراد نے یک زبان ہو کر ان کی مدح سرائی کی ہو۔ یہ بات صرف نوعِ انسانی تک محدود نہیں ہے۔ شاید آپ نے بھی تجربہ کیا ہوکہ بعض افراد بوئے گل سے بھی سرگراں ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ شبِ ماہ و روزِ ابر سے نفرت کرتے ہیں۔آم کو دیکھ کر منہ بناتے ہیں۔ گانا سُننے سے جی چراتے ہیں۔اور ایسے چہروں کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں جن کا حُسن لاکھوں کے دلوں کو موہ چکا ہوتا ہے۔
کیا آپ اپنے کو بُرا کہنے اور بُرا سمجھنے والے سے نفرت کرتے ہیں؟ اپنے شاتم کو دیکھ کر تیوریاں چڑھا لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو میں آپ کی خدمت ِعالی میں یہ عرض کروں گاکہ آپ کی یہ روش اس حیرت ناک واہمے پر مبنی ہے کہ میں آدم کا چہیتا بیٹااور اللہ کا وہ لاڈلا بندہ ہوں کہ تمام انسانی آبادی کا یہ فرض ِ اولیں ہے کہ مجھ کو سر آنکھوں پر بٹھائے اور میری قصیدہ خوانی کرتی رہے۔اور جو شخص بھی مجھ کو بُرا سمجھنے کا گناہ ِ کبیرہ کرتا ہے وہ آدم واللہ دونوں سے بغاوت کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
بھائیو،جیو اور جینے دو، ان احمقانہ باتوں سے ہات اُٹھا لواور ان رکیک باتوں سے بالا تر ہو جائوکہ کون تم کو پسند یا ناپسند کرتا ہے۔اور اگر طبع نازک پر گراں نہ ہو تو میں یہاں تک عرض کروں گاکہ اپنے مجبور ناپسند کرنے والوں سے بھی ویسی ہی محبت کرو جیسی تم اپنے محبوب پسند کرنے والوں سے کرتے ہو‘‘۔
جوش صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر لگتا ہے انہوں نے یہ باتیں اگست 1963ء میں نہیں لکھی تھیں بلکہ 2022 میں لکھی ہیں۔ ہم جہاں تھے وہاں سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھے۔ لیکن جنگ کا کاروانِ ادب بلاشبہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے۔1959ء میں جنرل ایوب خان نے بابائے اُردو کے لیے دس ہزار روپے عطیے کا اعلان کیا اور بابائے اُردو نے اپنی تنگ دستی کے باوجوداس رقم کو اُردو یونیورسٹی فنڈ میں دے دیا تو ’’جنگ‘‘ نے اس خبر کو کچھ اس انداز میں شائع کیا۔’’ایں کار ازتوآید۔۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اعلان کیا ہے کہ صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب نے ان کی اُردو خدمات کے صلہ میں جودس ہزار روپے کا عطیہ ان کو مرحمت فرمایا تھاوہ انہوں نے اُردو یونیورسٹی فنڈ میں دے دیا ہے اور اس طرح اپنی ضروریات پرقوم کی ضروریات کو ترجیج دے کرایک اور قابلِ تقلید مثال پیش کی ہے۔پچھلے دنوں جن پے درپے مالی مشکلات کا ڈاکٹر عبدالحق کو سامنا رہا ہے اور ضعیفی کی نازبرداری کے لیے آج بھی ان کو جس شدت سے روپے کی ضرورت ہے اس کے باوجود ان کا یہ ایثار اردوکی تاریخ میں ہمیشہ ایک مثالی ایثار کی حیثیت رکھے گا۔اُردو خوش نصیب ہے کہ اس کو ڈاکٹر عبدالحق ایسا خدمت گذار نصیب ہو سکا‘‘۔
جنگ کی ایک اور سنہری روایت یہ بھی رہی ہے کہ جب بھی کوئی اہم لکھاری اس سے وابستہ ہوا تو جنگ فیملی میں اس کی آمد کا اعلان پہلے صفحے پر شائع کیا گیا۔ اگست 1957 ء میں جب شوکت تھانوی نے جنگ کے ساتھ شمولیت اختیار کی تو ’’شوکت تھانوی جنگ میں‘‘ کے عنوان سے یہ اعلان چھاپا گیا۔’’برصغیر کے مشہور ادیب، صحافی اور شاعر شوکت تھانوی کی خدمات ادارہ ’’جنگ‘‘ نے حاصل کر لی ہیں اور آپ 16اگست 57ء سے دیگر ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ ’’جنگ‘‘ کے لیے ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کے عنوان سے فکاہی کالم بھی لکھیں گے‘‘۔
بعدازاں اسی عنوان سے ابراہیم جلیس بھی روزانہ کی بنیاد پر کالم لکھتے رہے۔اس کے علاوہ ’’صورتِ حال ‘‘ کے سرنامے کے ساتھ زیڈ اے بخاری بھی کالم تحریر کیا کرتے تھے۔ ادارتی صفحے پر ایک طرف جوش صاحب کا کالم ’’علم وفکر‘‘۔ دوسری جانب جمیل الدین عالی کا کالم ’’دُنیا مرے آگے‘‘ اور درمیان میں دلوں کو گرماتا ہوا رئیس امروہوی کا قطعہ۔بقولِ غالب۔اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے ،والی صورتِ حال تھی۔پاکستان کے لیے پہلی ٹرپل سینچری بنانے والے لٹل ماسٹر حنیف محمد کی شادی ہوئی تو شوکت تھانوی نے ’’جنگ ‘‘ میں جو سہرا لکھا تھا ، دُور دُور تک اُس کی دھوم مچی تھی۔ آج بھی یہ سہرا پڑھا جائے تو سر دُھننے کو دل کرتا ہے۔
بائونڈری مار کے بندھواتے تھے سر پر سہرا
اب چلے گا یہ پتہ بندھتا ہے کیونکر سہرا
رَن بنانے کے لیے دوڑ نہ جائے یہ کہیں
باندھئے اس شخص کے سرپر ذرا کس کر سہرا
اب بندھے بیٹھے ہیں سسرال میں سہرے سے حنیف
اور اسکور میں ہے آپ کے گزبھر سہرا
اپنی ہر ایک سہیلی سے یہ کہتی ہے عروس
کیچ کر لائو کہ باندھیں مرے شوہر سہرا
سینکڑوں رَن ہیں وہی مہر میں لکھوا دیں گے
اور خود اپنا بنا لیں گے مقدر سہرا
انہی دنوں فیض احمد فیض کی ایک تحریر’’ایشیا کی قدیم جنگاہ داغستان کی ایک جھلک‘‘ جنگ میں شائع ہوئی تھی۔فیض صاحب نے لکھا تھا ’’خواب و خیال کی اَن دیکھی دُنیا، جہاں پریوں اور جنوں کے بجائے انسان بستے ہیں‘‘۔فیض صاحب کی یہ غزل بھی سب سے پہلے 5نومبر 1962ء کو جنگ ہی میں جلوہ گر ہوئی تھی۔
نہ گنواء ناوک ِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لٹا دیا
میرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دُشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
فیض صاحب کی مشہور نظم’’میرے قاتل میرے دلدار مرے پاس رہو‘‘ بھی پہلی بار جنگ ہی کی زینت بنی تھی۔ اس کے علاوہ ادا جعفری کی نظم ’’شہرِ قائد کے نام‘‘، جون ایلیا کی نظم ’’شہرآشوب‘‘ اور پروین شاکر کی نظم ’’دستِ دُعا‘‘ بھی کہیں اور چھپنے سے پہلے جنگ میں شائع ہوئی تھیں۔ جون ایلیا کی اس غزل نے توجنگ میں اشاعت پذیر ہونے کے بعد ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتاہوں تری حمایت میں
یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اُس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں
زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
علامہ سیماب اکبر آبادی کی مشہور غزل ’’لحد میں مجھ سے سوال و جواب کیا معنی ‘‘ بھی جنگ ہی کے ذریعے منظرِ عام پر آئی تھی۔جون ایلیا کی تازہ غزلوں کی طرح انور شعور کی تازہ غزلیات بھی جنگ ہی کی وساطت سے اپنے قارئین تک پہنچتی اور قبول ِ عام کی سند پاتی رہیں۔ بعدازاں جنگ نے جب باقاعدہ ادبی صفحات شائع کرنا شروع کیے تو شعر و ادب کے بڑے ناموںکے ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی جنگ جیسے بڑے اخبار کا ایسا پلیٹ فارم ملا کہ ملک کے طول و عرض میں ان کی تخلیقات بھی موضوعِ بحث بنتی چلی گئیں۔
جنگ نے اپنے ادبی صفحات کے ذریعے نہ صرف شاعروں ، ادیبوں اور افسانہ نگاروں کی تازہ تخلیقات کو اپنے قارئین تک پہنچایا بلکہ ادب اور ادیب کی معاشرتی و سیاسی ذمہ داریوں اور ان کے کردارکے موضوع پر کئی ایک مذاکرے منعقد کیے اور ان مذاکروں میں ہونے والی گفتگو کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ان مذاکروں میں پروفیسر عتیق احمد، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، شوکت صدیقی، جمیل الدین عالی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جون ایلیا، محسن بھوپالی، اسد محمد خان اور سحر انصاری شریک ہوتے رہے ہیں۔
جنگ معروف ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کے انٹرویو بھی شائع کرتا رہا ہے تاکہ اس کے قارئین معاشرے کے ان چنیدہ افراد کے خیالات و افکار کی رہنمائی میں اپنے لیے علم و آگہی کے چراغ روشن کر سکیں۔ شوکت صدیقی سے لے کر نعیم آروی تک بہت سے ادیبوں ، افسانہ نگاروں نے اپنے انٹرویوز میں جنگ کے قارئین کےلیے ایسی دلنشین اور سبق آموز باتیں کی ہیں کہ جنگ کے یہ صفحات علم ودانش کے صحیفے دکھائی دیتے ہیں۔
نعیم آروی ترقی پسند تحریک سے وابستہ پکے نظریاتی ادیب تھے۔ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی تخلیقی فنکارسیاسی معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ جنگ نے جب ہفت روزہ ’’اخبارِ جہاں‘‘ کا اجراء کیا تو نعیم آروی اس کی ابتدائی ٹیم کے رُکن تھے۔ انہوں نے سی ایس ایس کر رکھا تھا لیکن پارٹی کے کہنے پر سول سروس میں جانے کے بجائے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
جنگ کے ادبی صفحات پر جہاں اردو ادیبوں کی تخلیقات اور انٹرویوز کی چمک دمک ملتی ہے وہیں سندھی زبان کے مشہور ادیب شیخ ایاز کے انٹرویو پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں شیخ ایاز کا کہنا تھا کہ فکری بنیاد پر نقطہ ء نظر کی تبدیلی کوئی جُرم نہیں ہے۔ آخری عمر میں شیخ ایاز کے نظریات میں کچھ تبدیلیاں آنے لگی تھیں اور وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے قطع نظر اس کا اظہار بھی کرنے لگے تھے۔
انہی صفحات میں ایک اہم مضمون نثری نظم کے پرزور وکیل قمر جمیل کا بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے غزل کے شاعر انور شعور کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور انہیں روایتی شاعری کو نیا انداز دینے والا غزل گو قرار دیا ہے۔ ادبی صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو ایک نظم ’’نذرِ فیض ‘‘ کے عنوان سے افتخار عارف کی بھی موجود ہے۔ جبکہ پروین شاکر کی ایک تازہ غزل کے نام سے یہ اشعار بھی شائع ہوئے ہیں۔
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں رکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
اک حجاب ِ تہہ ِ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا ترا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتا ہے
میر صاحب کی زیرِ ادارت جنگ کراچی کے ساتھ ساتھ جب راولپنڈی اور لاہور سے بھی اخبار شائع ہونے لگا تو وہاں کے رنگین ادبی صفحات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ باالخصوص جنگ پنڈی کے ادبی صفحے کو’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘ کے مصنف مظہر الاسلام نے باقاعدہ ایک ادبی مجلے کی شکل دے رکھی تھی۔ وہ یہ دیکھے بغیر کہ لکھنے والا کوئی بڑا نام ہے یا بالکل گمنام۔ تحریر کو خالصتاؐ تخلیق کے پیمانے پر پرکھتے تھے اور اسی اعتبار سے اسے شائع کرتے تھے۔
دُور دراز علاقوں میں ہونے والی شعری نشستوں کی رپورٹیں انہیں ڈاک کے ذریعے ملتی تھیں۔ وہ بھیجنے والوں کو جانتے بھی نہیں تھے لیکن نہ صرف ان ادبی سرگرمیوں کی خبریں چھاپتے تھے بلکہ ان رپورٹوں میں موجود اچھوتے شعروں کو شہ سرخی میں شائع کر کے گمنام شاعروں کو منظر عام پر لے آتے تھے۔حسن رضوی اور منظر امکانی بھی اسی قافلے میں شامل تھے۔ اب ہمارے دیگر ساتھی میرصاحب کے نصب العین پر چلتے ہوئے پاکستانی ادب کی آبیاری میں ’’جنگ ‘‘ کے تاریخی کردار کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بقول رضی اختر شوق
ہم رُوحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ