پاکستان کی 75سالہ سیاسی تاریخ دھوپ، چھائوں کی ایسی داستان ہے جس میں اہم جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے عالمی اور علاقائی قوتوں نے گریٹ گیم کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ سیاسی اور سماجی مسائل ،فوج ، حکومت اور عوام، مشرقی پاکستان سے بنگلا دیش تک ، پاک بھارت تعلقات ،پاک امریکا تعلقات، افغانستان اور اب پاک چین تعلقات کے ساتھ امت مسلمہ کو متحدہ رکھنے کے بھاری ایجنڈے پر پھیلا ہوا ہے۔
استحصالی نظام کو انقلابی جدوجہد میں تبدیل کر کے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا بانیان پاکستان کا خواب 75 برس گزرنے کے باوجود ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ افسوسناک پہلویہ ہے کہ75میں سے31برس تک طالع آزمائوں کی حکم رانی رہی ، جس میں بنیادی حقوق معطل ،سیاسی جماعتیں کالعدم اور حقوق انسانی کی پامالی آرڈر آف دا ڈے قرار پائی۔1947سے 1973 تک 26 سالہ سیاسی سفر کے بعد قوم کو آئین دیا گیا ، مگر اسے بھی محض 4 سال بعد کا غذ کا ٹکڑا قرار دے کر طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا ۔
عقوبت خانوں میں سیاسی مخالفین کے لیے دن رات کا فرق نہ رہا۔ پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ غالب کے اس شعر سے واضح ہے:’’ کس روز تہمتیں نہ تراشاکیے عدو ۔۔۔۔۔۔کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو آگ لگائی گئی اس کی وجہ سے پچھلے تین عشروں سے یہ خطہ لہو لہوہے۔ یوں اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ہر وہ کام ہوتا رہا جس کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے۔ مسجدیں ، امام بارگاہیں، دیگر عبادت گاہیں، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔
آزادی وطن کے75سال پورے ہوئےتو پاکستان کی پارلیمنٹ بھی اپنے قیام کے 75سال مکمل کر چکی ۔پارلیمانی پریس گیلری کے جھروکے سے درحقیقت پاکستان کی مکمل سیاسی تاریخ رقم ہوتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی 75 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کا مرثیہ کبھی لکھا گیا نہ نوحہ پڑھا گیا۔ نصاب میں بھی پاکستانی معاشرے اور جمہوریت پر پے درپے شب خون مارے جانےاور طالع آزمائی کے باعث عوام پرمرتب ہونے والے سنگین اثرات کا کبھی تجزیہ نہیں کیا گیا۔ وفاقی ڈھانچے کو ایک مطلق العنان مرکز نے کیسے کم زور کیا،اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کو کیسے بہ زور روکا گیا، وسائل کی عدم دسست یابی غربت کی گلی سے گزرتے ہوئے محرومی کی شکل اختیار کر کے نفرت میں کب تبدیل ہوئی؟
سیاسی اقتصادیات کے اس پہلو کو ’’جنگ‘‘ نے کبھی نظر انداز نہیں کیا۔75برسوں کی سیاسی دھوپ چھائوں ، دنیاکے لیے صنعتی و اقتصادی ترقی کی مثال بننے والے پاکستان کی معیشت کیسے خستہ حالی کا شکار ہوئی ،دفاع وطن میں محاذِ جنگ سے شہری سائبان تک ، خواتین کے آنچل پر چموں میں بدلنے کی ایمان افروز کہانیاں ، ایٹمی منصوبوں سےعلم و ادب اور کھیل کے میدانوں میں وطن عزیز کی کام رانیوں سمیت دیگر شعبوں میں اتار چڑھائو کی تاریخ ’’جنگ‘‘ کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ خوش کن پہلو تھا قومی تاریخ اور دنیا کی بدلتی جہتوں میں بانی پاکستان قائد اعظم کے اس فرمان کو روزنامہ جنگ کا نصب العین بنایا گیا:’’ ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے‘‘۔
اہل فکر ونظرکے لیے باعث انبساط ہے کہ 11 اگست 1947 کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظم کے خطاب کو پاکستان کے پہلے ریاستی بیانیے کا نام دیا گیا تھا، جس میں انہوں نے ریاست کے خدو خال اجاگرکیےاور ایک فلاحی معاشرتی ریاست کا تصور دیا۔ اس حوالے سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ بانی پاکستان کے بیانیے کے برعکس یہ ریاست سیکورٹی ریاست میں کیسے تبدیل ہوئی؟
آج سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بہت سے خبر دینے والوں کے نزدیک مارشل لا کی شبِ ظلمت ،طالع آزمائوں کی تاریک کال کو ٹھڑی ،حقوقِ انسانی کی پامال شدہ لاش سب کچھ دیو مالائی قصے تھے۔پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکم راںاشرافیہ نے آغاز ہی سے فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان میں ایسی سوچ کی، جس میں عام لوگوں کی معاشی خوش حالی، محنت کشوں کے استحصال کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کے نکات ہوں،کوئی جگہ نہیں۔
اس سوچ کو سو ویت یونین کو محدود کرنےکے لیے ہماری امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شمولیت نے مزید تقویت دی۔ بہ حیثیت طالب علم ہم نے 1960کی دہائی کی وہ صحافت اور سیاست دیکھی جب پہلی بار جبر نے قلم اور علَم کو یہ کہہ کر زنجیر پہنانے کی کوشش کی کہ اس کے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ ریاست نہیں حکومت دے گی۔ ضیا الحق کے ٹکٹکی والوں سے دو تہائی اکثریت کی جمہوریت تک کے ادوار ایسی سیاسی تاریخ پیش کرتے ہیں جس میں ماضی کی کلفتیں اور ہتھکڑیاں فراموش نہیں کی جا سکتیں۔
قصہ یہ ہے کہ سیاست ہو یا صحافت، پاکستان میں ان دونوں شعبوں کے باب میں ہر حکومت کا مزاج جارحانہ ،متعصبانہ اورمحکمانہ رہا، اس لیے آج حکومت کے طرز فکر سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ غالب نے کہا تھا: رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ۔پاکستان کی سیاسی و جمہوری کہانی بڑی عجیب اور تضادات پر مبنی ہے۔ سول اور فوجی ادوار میں ہم نئے نئے تجربات کے ساتھ نظام کی اصلا ح کم اور اس میں بگاڑ زیادہ پیدا کرتے رہے ۔نئے قوانین یا پالیسیاں بنانے کے پیچھے اصل مقصد اپنے حکم رانی کے نظام کو توسیع دینا ہوتا۔
عمومی طور پر جب بھی کوئی پالیسی یا قانون سازی کی جاتی ہے تو اس میں سب سے اہم فریق لوگ ہوتے ہیں ، کیونکہ جو بھی پالیسی یا قانون سازی عام اور بالخصوص محروم طبقات کے مفادات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے وہی اپنی ساکھ بھی بناتی ہے۔ لیکن قصہ یہ ہے کہ یہاں عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر ہم نئے تجربات کر کے ایک مخصوص گروپ کے مفادات کو تقویت دیتے رہے۔ تاہم اتفاق رائے کی شاندار مثالیں بھی سامنے آئیں۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں2010 میں ملک میں تمام سیاسی فریقین کے اتفاق رائے سےاٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اٹھارہویں ترمیم کے تناظر میں جو اعتماد سازی ہوئی یا اتفاق رائے سامنے آیا وہ سیاسی تاریخ میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔اٹھارہویں ترمیم میں پہلی بار وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد سازی کو فوقیت دے کر آگے بڑھنے کی بات کی گئی۔ اس سے قبل ملک کی سیاسی جماعتوں ،بالخصوص چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں میں صوبائی خود مختاری کی بحث کو اہمیت حاصل تھی ۔خیال تھا کہ اس ترمیم کی منظوری کے بعد جس طرح سے وفاق نے صوبوں کو سیاسی ،انتظامی اور مالی اختیارات تفویض کئے ہیں، یہ ہی عمل صوبوں میں بھی اضلاع کی سطح پر دیکھنے کوملے گا۔ کیونکہ صوبائی خود مختاری بھی کسی بھی طو ر پر مقامی خود مختاری کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم نے اٹھارہویں ترمیم منظورتو کر لی ، لیکن اس پرعمل درآمد کے لیے جو ایک مستحکم سیاسی کمٹمنٹ ہمارے سیاسی نظام ، سیاسی جماعتوں اور قیادتوں سمیت معاشرے کے دیگر طبقات میں ہونی چاہیے تھی اس کا فقدان نظر آیا۔
اس کی ایک مثال مقامی حکومتوں کا نظام ہے۔اس نظام میں صوبوں نے تمام ترسیاسی ،انتظامی اور مالی اختیارات خود رکھ کر مقامی حکومتوں کے نظام کوکم زور لاچار اور بے بس بنا کر حکم رانی کا نظام مزید بگاڑ دیا ۔ ہماری سیاسی قیادت سمیت تمام فریقین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دنیا نے اپنی حکم رانی کانظام موثر ، با معنی اور شفاف بنانے کے لیے مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے نظام کو مستحکم کیا ہے۔ خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جو چودہ نکات پیش کیے اس میں بھی صوبائی خود مختاری کو اہمیت دی گئی تھی۔
اٹھارہویں ترمیم آئینی پیکج تھا ،جو آئین کی مختلف شقوں میں پائے جانے والے ابہام اور مختلف اوقات میں کی جانے والی غیر جمہوری ترامیم کا جائزہ لینے کے بعد ان میں مناسب اضافے اور ترامیم کے علاوہ بعض شقوں کی تنسیخ پر مبنی تھا۔ اس طرح 25 آئینی شقوں میں رد و بدل کیا گیااور 10 مختلف نوعیت کے پارلیمانی فیصلوں کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ جو اقدامات اٹھائے گئے ان میں سابق صدر جنرل ضیا کا نام آئین سے خارج ہوا، صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے غیر پارلیمانی صوابدیدی اختیار کا خاتمہ ہوا، (صدر کو یہ اختیار 1986 میں غیر جماعتی بنیادوں پر قائم ہونے والی پارلیمان نےآٹھویں آئینی ترمیم کی شق 58ٹو بی کے ذریعے دیا تھا ، جسے پہلی بار 1998 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ختم کیا گیا تھا ، مگر 2002 میں وجود میں آنے والی پارلیمان نے ستر ہویں ترمیم کے ذریعے اسے دوبارہ بحال کر دیا تھا)، صوبہ سرحد کے نام،خیبر پختون خوا کو آئینی تحفظ دیا گیا، پرویز مشرف کی زیر نگرانی 2002 میں وجود میں آنے والی پارلیمان کی جانب سےسترہویں آئینی ترمیم اور متعارف کر دہ لیگل فریم ورک آرڈر کی تنسیخ ،مشترکہ مفادات کونسل (CCI)کی تشکیلِ نو اور صدر کی جگہ وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین مقرر کرنے کی شقوں کی شمولیت ،اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار پر نظر ثانی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی منظوری ،چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں قائدِ حزب اقتدار اور قائدِ حزب اختلاف کی باہمی مشاورت اور رضا مندی اورمشترکہ فہرست (concurrent list)کا کسی حد تک خاتمہ شامل تھا۔
اس کے علاہ آئین کی شق 6 کے متن میں ترمیم کی گئی اور آئین شکنی میں تعاون کو بھی قابل دست انداز ی آئین تصور کیا گیا۔ شق 10 میں 10Aکا اضافہ کیا گیا ( جو شہریوں کے شفاف ٹرائیل کے بارے میں ہے )، شق 19 میں ذیلی شق 19Aکا اضافہ ہواجو عام شہریوں کی ریاستی امور کے بارے میں معلومات کے حق سے متعلق ہے ۔اسی طرح شق 25 میں ذیلی شق 25Aکا اضافہ، جو صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ 5 سے 16 برس کے تمام بچوں کو مفت لازمی تعلیم مہیا کریں ، شق 63 میں ذیلی شق 63Aکا اضافہ ، جس میں اپنی جماعت چھوڑنے (Defection)کی صورت میں اسمبلیوں کےاراکین کی رکنیت کا خاتمہ جیسے اقدامات اٹھائےگئے۔
پاکستان کو وحدانی ریاست بنانے کے تمام اقدامات غیر منطقی ہونے کے باعث غلط تھے۔اسی طرح حال یا مستقبل میں اس نوعیت کی کوئی کوشش بھی غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہو گی۔ اب جہاں تک صوبوں کی انتقامی استعدا د کا تعلق ہے ،تو اس میں اضافہ تربیت، تجربےاور مشاہدے سے ممکن ہوتا ہے۔ ابتدا سے ہی پاکستان اور کشمیر ہماری سیاست کا لازمی جزو بنے ہیں جس کی خاطربھارت سے تین جنگیں لڑیں اور آج بھی کشمیر کے بغیر ہماری تاریخ نا مکمل ہے۔
گزرے ہوئے سات عشروں پر پھیلی کشمیر کی تحریک آزادی، انتفادہ میں 70 ہزار شہدا کا لہو اپنے دامن میں سمیٹے مظفر وانی کی شہادت کے بعد ڈیجیٹل دور میں داخل ہوئی تو عملاً اس کی قیادت بھی نوجوان نسل کے ہاتھ آگئی۔بھارت کی پیلٹ گنوں اورکیمیائی ہتھیاروں نے سیکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں کشمیریوں کو شہید اوربصارت سے محروم کردیا اس ظلم و بربریت کےباوجود ان کے عزم و حوصلے کو شکست نہ دی جاسکی۔
’’جنگ‘‘ کے صفحات شاہد ہیں کہ75برس گزرنے کے باوجود آزادی کی تڑپ سے سرشار کشمیریوں کے جذبہ حریت کو خاموش نہ کیا جا سکا۔’’جنگ‘‘ کے ادارتی اورخبروں کے صفحات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی داستانیں پیش کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں حالات کی بہتری کے لیے سیاسی قیدیوں کی رہائی ،اظہار رائے کی آزادی ،جابرانہ قوانین کی واپسی ،حریت قیادت کو غیر ملکی سفر اور عالمی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کا جامع لائحہ عمل بھی پیش کیا گیا۔
پاکستان ،عوام اور’’ جنگ‘‘ نے بڑھ چڑھ کر تحریک آزادیِ کشمیر کی یوں حمایت کی کہ بچے بچے کی زباں پر یہ پر جوش پیغام ہے: ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اِک دن۔ میرے وطن تری جنت میں آئیں گے اِک دن‘‘ ۔ آج جب ہم اہل وطن کے ساتھ جنگ کی پلاٹینم جوبلی منارہے ہیں، تو یہ وقت ہے کہ ہم یا دکریں اپنے بزرگوں کو جنہوں نے 49 برس قبل (10 اپریل 1973)کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریاست پاکستان کو دستور کی صورت میں ایک ایسی روشنی عطا کی جس نے ملک میں اتفاق رائے ، وسیع النظری ، دانش مندی اور حب الوطنی کے چراغ روشن کیے۔ یہ بانیانِ دستورکے ساتھ ’’جنگ‘‘ کے بزرگوں کے فیضان کا وسیلہ ہے کہ خطرات کے باوجود ملک جمہوری سفر کی طرف گام زن ہے اورغیر جمہوری ادوار کی وقتی رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قوم کا جمہوریت اور جمہوری اداروں کے لیے عزم کم زور نہیں ہوا۔
وطن عزیز کی سیاسی اور صحافتی تاریخ ایک جیسی ہے ۔ جب طالع آزمائوں کی جانب سے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تو صحافت پابند کر دی گئی ، لیکن ’’جنگ‘‘ نے ہر دور میں عوام کی آواز اپنے صفحات پر منتقل کی ۔جنرل ضیا کے دور میں سیاست بند ہوئی تو نوابزادہ نصر اللہ خان کا ایک دل چسپ واقعہ نت نئے سیاسی رنگ بکھیر گیا۔ نوابزادہ ایک اصول پر ست سیاست داں تھے۔ جنرل ضیا الحق نے انہیں سگار کا تحفہ بھیجاجو انہوں نے واپس کر دیا۔
ان ہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو جیل کی کال کوٹھڑی میں تھے۔ بھٹو مرحوم نے نوابزادہ صاحب کو سگار بھیجے تو انہوں نے یہ تحفہ قبول کر لیا۔ جنرل ضیا کو پتا چلا تو انہوں نے دوبارہ سگار بھیجے اور تحفہ لے کر جانے والے سے کہا کہ نوابزادہ صاحب سے کہیں کہ آپ نے جب بھٹو کے سگار قبول کر لئے تو اسے بھی اپنے پاس رکھیں ۔ تحفہ لانے والے نے من و عن جنرل صاحب کا پیغام پہنچا یا تو نوابزادہ نصر اللہ نے جواب دیا کہ وہ جنرل کے سگار قبول نہیں کریں گے، بھٹو عوامی لیڈر ہیں ، جنرل کو یہ اعزاز حاصل نہیں۔
پے در پے آئینی و سیاسی بحرانوں اور طالع آزمائوں کی ریشہ دوانیوں نے پاکستان کو نڈھال کیا تو سقوط ڈھاکا کا سانحہ ظہور پذیر ہوا۔ مشرقی پاکستان، بنگلا دیش بنا اور مغربی پاکستان میں بھٹو اقتدار میں آئے۔1973کا آئین در حقیقت پاکستان کا پہلا عمرانی معاہدہ تھا جسے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔ امریکا اور مغرب کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا آغاز کیا گیا جسے جنرل ضیا الحق نے کام یابی کی منزل پر پہنچایا۔ پھر نواز شریف نے مئی1988میں ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ تاریخ کا سفر جمہوریت اورآمریت،ہر دور میں آگے بڑھتا رہا۔ آج ہمارے ملک میں ذرائع ابلاغ کی جو فراوانی ہے ،قیام پاکستان کے وقت ایسا کچھ نہیں تھا۔ اظہار رائے صرف تحریرتک محدود تھااور تحریر بھی وہ جس کی ریاست نے اجازت دی ہو۔
پریس پر ریاست کا کنٹرول بہت زیادہ تھا۔ اس وقت مین اسٹریم کے اخبارات گنے چنے تھے ، ان میں ’’جنگ‘‘ کا معیار سب سے بلند تھا۔اس وقت بعض دوسرے معاصر مخصوص سیاسی نظریات کے ترجمان ہی نہیں بلکہ ان کے نظریات کا پر چار بھی کرتے تھےاور تنقید میں ہرا ول دستے میں شامل ر ہے۔ 1951میں فیض احمد فیض اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ ہو یا حسین شہید سہروردی کے خلاف کارروائی ،مولانا مودودی کو سزا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی ہو، ’’ جنگ ‘‘ کا طرز صحافت ہی عوام میں مقبول اور ریاست کےلیے قابل قبول بنا، کیونکہ اس نے متوازن طرز سیاست اورصحافت کو رواج دیا،جعلی ،جھوٹی اورگم راہ کن خبروں یا اطلاعات کے طوفان میں ’’جنگ‘‘ نے بھر پور انداز میں توازن اورشائستگی کے ساتھ دیانت اور دلیل سے مقابلہ کیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طالع آزمائوں نے سیاست میں مداخلت کی اچھی مثال قائم نہیں کی ،جس میں چار با رغیر جمہوری حکومتوں کا قیام ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
اگرچہ دستور کی دفعہ 6اور 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے غیر سیاسی مداخلت کا دروازہ بند کرنے کا کہا گیا ، لیکن اصل دروازہ بند کرنے کا طریقہ قانون سازی نہیں بلکہ اداروں کے مابین ہم آہنگی، ایک دوسرے کا احترام، آئینی حدود سے عدم تجاوز کے رویّوں اور جمہوری جذبے سے سرشار چلن کو عام کرنا ہے۔ اس کے لیے ماہرین اور مبصرین، پارلیمنٹ کے ذریعے وسیع البنیاد مکالمے کا اہتمام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا ہونے اور غیر مستحکم سیاسی نظام میں اچھی معاشی پالیسیاں بھی مثبت نتائج نہیں دے سکتیں، لہذا ملک میں غربت بڑھ رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے ۔ آئ ایم ایف کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی معاشی ترقی سیاسی استحکام میں مضمر ہے،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست اور معاشی حکمت عملی کو ایک دوسرے سے مربوط اور مشروط ہونا چاہیے۔
65 اور 71 کی جنگوں میں ’’جنگ‘‘ کا کردار
قومی جذبوں کی ترجمانی مشکل اوقات میں نمایاں ہوتی ہے۔1965کی جنگ ہو یا 1971 میں بھارت کی جارحیت، ’’جنگ ‘‘ نے قوم کے جذبہ حریت کویوں اجاگر کیا کہ’’ جنگ‘‘ کے مستقل لکھاریاں اور شعر اء کے مِلّی ترانے صفحہ اول پر آگئے۔ ان نغموں نے پوری قوم کویک جان کردیا۔’’جنگ‘‘ سے منسلک شاعروں نے جنگی واقعات کو شعری پیکر میں ڈھالا تو ایک سے بڑھ کر ایک جنگی ترانے فضا میں بکھر ے ، رزم نامے تخلیق ہوئے ۔ ان ترانوں کے ذریعے ’’جنگ‘‘ نے حب الوطنی کے ایسے رنگ بکھیرے کہ محاذ جنگ سے لے کر شہر شہر، قریہ قریہ، قومی گو نج سے تاریخ کا یاد گار حصہ بن گیا۔’’جنگ‘‘ کے صفحات پر جو ترانے نمایاں ہوئے ان میں رئیس امرو ہوی کےخِطّہ لاہورتیرے جاں نثار وں کو سلام ،سیالکوٹ کا میدان کار زار ہےیہ، جمالِ خونِ شہیداں سے لاالہ زار ہے یہ، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے ایہہ پتر ہٹاں دے نہیں وکدے ، جمیل الدین عالی کے جاگ اے مجاہد وطن ، تنویر نقوی کا رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، حمایت علی شاعرکے جاگ اٹھاہے سارا وطن ، اے دشمن دیں تُونے کس قوم کو للکار ا،وغیرہ ’’جنگ‘‘ کے اوّلین صفحات پر آگئے۔
اسی طرح جوش صاحب کا، اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں، حبیب جالب کا ترانہ، کر دے گی قوم زندہ ، ماضی کی داستانیں ،محمود شام کے یاد گار جنگی ترانوں میں اے ہوا کے راہیو، پر فشاں مجاہدو تم وطن کی لاج ہو ، پاک سر زمین پر ، اسی طرح پاک بحریہ پر ان کا ترانہ، اے پاک بحریہ ، بھارت میں ترا نا م ہے ، بے باک بحریہ ، شامل تھے ۔’’جنگ‘‘ کے صفحات پر شائع شدہ جنگی ترانوں نے مسلح افواج اور عوام کے لہو کو خوب گرما یااور ان میں مثالی جذبہ حب الوطنی اجاگر کیا۔ ان میں سے بہت سے ترانوں کو صدارتی ایوارڈ ز سے نواز ا گیا۔ یہ یاد گار ترانے ہماری قومی تاریخ کا لازوال حصہ بن چکے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ اور وزنامہ ’’جنگ‘‘کا کردار
پاکستان کی سیاست اپنے آغاز سے ہی عالمی سرد جنگ کا حصہ رہی ہے۔ امریکا اور سابق سودیت یونین کی کش مکش نے پاکستانی معاشرے کو براہ راست متاثر کیا۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستانی اشرافیہ نے عالمی سرد جنگ میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی محاذ آزادی کو کھلی جنگ میں بدل دیا۔ کافی شاپس،جامعات اور دیگر دانش کدوں میں نظر یاتی تضادات سامنے آنے لگے تو1960کےعشرےمیں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کھیت، کھلیانوں اور صنعتی کارکنوں میں پھیلتی گئی۔
بائیں بازو کی سوچ کو کچلنے کی حکمت عملی کی وجہ سے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو شدید ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں اضافہ اس وقت ہوا جب1951میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض سمیت کئی اہم شخصیات کو گرفتار کر کے سزائیں دی گئیں۔ حکومتی مخالفین کو غدار کہنے کی روایت بھی اسی دور میں شروع ہوئی۔1970میں سقوط ڈھاکا سے پہلے متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات میں دائیں اوربائیں باز و کی کش مکش عروج پر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سو شلزم کا نعرہ لگایا تو جواب میں دائیں بازو کے 313 علماء نے اس کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔
انتخابی ماحول میں پی پی پی اور نیشنل عوامی پارٹی مغربی پاکستان میں ترقی پسند سوچ کی علامت سمجھی گئیں۔ دائیں بازو کی سیاست کوجماعت اسلامی، جے یو آئی، مسلم لیگ اور دیگرجماعتوں نے آگے بڑھایا۔متضاد نظریات نے پوری قوم کو تقسیم کر دیا۔ جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں میں ایک طرف ،سرخ ہے، سرخ ہے، ایشیا سرخ ہےکے نعرے گونجتے تودوسری جانب، سبزہے، سبز ہے ،چادرِ بتول ؓسے ایشیا سبز ہے، کی صدائیں گلی، کوچوں میں گونجتی رہیں۔ 31مئی1970 کو مولانا مودودی نے لاہور میں یومِ شوکتِ اسلام کی بڑی ریلی کی قیادت کی۔
اس کے جواب میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں نے 31 مئی کو مخالفانہ ریلیاں منعقد کیں ۔ذوالفقار علی بھٹو ترقی پسند رہنما تھے، جنہوں نے اپنی پارٹی کے ذریعے اسلام ہمارا دین ، جمہوریت ہماری سیاست ، سوشلزم ہماری معیشت ، طاقت کا سرچشمہ عوام، کا نصب العین دیا۔اسی دور میں حبیب جالب نے لکھا تھا: سیاہ صدیوں کو رات بیتی ، ہوا اجالا حیات جیتی، گزرے زمانے ہوئے فسانے ، حقیقتوں نے رواج پایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بائیں بازو کی سیاست پنپ نہ سکی، بائیں بازو کے کئی رہنماپارلیمان کے رکن تھے اور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پربھی فائز تھے، مگر بائیں بازو اور پی پی پی کا رومانس زیادہ دیر نہ چل سکا۔
جنرل ضیا کے دو رمیں دائیں اور بائیں کی کش مکش اور تیز ہوئی۔ اسی دور میں بائیں بازو کے سرکردہ رہنمائوں ، دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں کو بیرون ملک پناہ لینی پڑی۔ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک سے، جس کی قیادت ترقی پسند جماعتیں کر رہی تھیں، انتہائی سختی سے نمٹا گیا اور اس تحریک میں کئی ہلاکتیں بھی ہو ئیں۔ حکومتی سر پرستی میں دائیں بازو کی جماعتوں نے جامعات ،ٹریڈ یو نینز اور اس طرح کی دیگر تنظیموں پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس قبضے سے بائیں بازو کی طاقت اور اثر میں مزید کمی واقع ہوئی۔
اس طاقت میں مزید کمی افغان جہاد کے دوران دائیں بازو کی مغرب سےبے تحاشہ مالی امداد سے کی گئی۔ ڈالروں کی روانی نے بائیں بازو کی سیاسی قوت کو مزید کم زور کیا۔ڈالرز کی فراوانی نے این جی اوز کے کلچر کو بھی فروغ دیا اور بہت سے بائیں باز وکے خیالات رکھنے والے اپنے نظریات کی تکمیل کے لیے ان این جی اوز کے ذریعے ترقیاتی پروگراموں میں شریک ہوئے اور انتخابی سیاست سے مزید دور ہوگئے۔ سیاسی تاریخ کے مطابق بائیں بازو کی مختصر سیاسی اٹھان2008کے انتخابات میں خیبر پختون خوا میں اے این پی کی کام یابی کی صورت میں ہوئی ، لیکن طالبان کی طاقت نے اس حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔
سوات پر طالبان کے قبضہ اور 2009 سے 2013کے درمیان ایک ہزار سے زیادہ اے این پی کے ارکان کی طالبان کے ہاتھوں اموات نے اے این پی کی حکومت کو کافی کم زور کر دیا۔یہی وجہ تھی جس نے اسے اپنے ترقی پسند ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی سے دو چار کیا اور اسی وجہ سے اسے 2013 کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پاکستان میں بائیں بازو یا ترقی پسند سوچ رکھنے والی سیاسی قوتیں مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اب بھی ان کی قدر ے قوت موجود ہے، مگر مقتدر قوتوں کے عناد ، دبائو اور جبر سے اس کی طاقت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے ، ان مصائب کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کا کوئی مستقبل نہیں۔ معاشی اور سیاسی حقیقتیں بدلتی رہتی ہیں اور پاکستان میں معاشی انصاف اور برابری کےنعرے کبھی بھی اپنی اہمیت نہیں کھوئیں گے۔
سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کاخاتمہ بائیں بازو کی سیاست کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ آج تقریباً تمام سیاسی جماعتیں دائیں، بائیں کے نظریات کے بجائے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں’’جنگ‘‘نے دائیں اور بائیں کی کش مکش میں توازن اور اعتدال کے ذریعے انتہا پسندی سے گریز اور جیو اور جینے دو کا پیغام عام کیا۔ سیاست اور صحافت کی یہی روش پاکستان کی سلامتی اور محفوظ و خوش حال مستقبل کی ضامن ہے۔