• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیر علی محمد راشدی 5 اگست 1905ء میں لاڑکانہ کے گاؤں بہمن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر ہی اساتذہ کی نگرانی میں عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ پندرہ سال کی عمر میں اخبار ات میں مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔1924 میں اپنے گائوں سے ایک ’’ماہنامہ الراشد‘‘ جاری کیا۔ 1924ء میں سندھ نیوز اخبارکے نامہ نگار ، 1926ء میں الحزب شکار پور کے ایڈیٹر اور 1929میں سندھ زمیندار کے مدیر مقرر ہوئے،جو سکھر سے جاری ہوتا تھا۔

1929 میں بمبئی سے سندھ کو علیحدہ کرانے کی تحریک میں بڑی سر گرمی کے ساتھ حصّہ لیا ۔1938میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شرکت کی اور کراچی میں قائدِ اعظم کی زیرِ صدارت منعقد ہونے والی تاریخی کانفرنس کی مجلس ِ استقبالیہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کانفرنس کو کامیاب بنانے میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں، یہ وہی تاریخی کانفرنس تھی جس میں پہلی بار تقسیم ہند کا مطالبہ کیا گیا تھا اور یہی مطالبہ قرار دادِ پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

فلپائن اورعوامی جمہوریہ چین میں سفیر رہے۔ 53میں سندھ اسمبلی کے الیکشن میں روہڑی کے حلقے سے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے ۔ 1960 میں جنگ میں پہلا کالم لکھا، یہ سلسلہ مسلسل23سال تک جاری رہا۔ 1963 سے 1964تک ’’مکتوب مشرق بعید‘‘ ، جبکہ 1964ء سے 1978 تک ’’مشرق و مغرب‘‘ کےعنوان سے کالم لکھے۔اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم’’وغیرہ وغیرہ ‘‘ بھی لکھے۔

پیر علی محمد راشدی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کے قلم سے افسر شاہی سے لے کر نوکر شاہی تک کتراتے تھے۔ حکمران ان کی تحریروں سے خائف رہتے تھے۔ 14 مارچ 1987ء کوان کا انتقال ہوا۔1982 میں جنگ میں شائع ان کا کلام ، بہ عنوان ’’ ہماری گاڑی کیوں اور کہاں پٹری سے اُتر گئی‘‘، نذرِ قارئین ہے۔ اسے پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے سیاست دان آج بھی ویسے ہی ہیں، جیسے کل تھے۔

پاکستان کے دسترخوان پر سے جس کو موقع میسر آئے، وہ لقمہ اُٹھالے، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں

قارئین کرام کا شدید تقاضا ہے کہ یہ جو میں کبھی کبھی بعض پرانے واقعات کی طرف اشارے کرتا رہتا ہوں تو کیوں نہیں ایک ہی بار کھل کر بتا دیتا کہ ہماری سیاست کی ریل گاڑی، میری اپنی معلومات کے مطابق کب پٹری سے اتر گئی، کس طرح اتری اور کون اس حادثے کا حقیقی ذمہ دار تھا؟ ان کا خیال ہے کہ میں جانتا بہت کچھ ہوں مگر کسی وجہ سے بتا نہیں رہا ہوں۔

مجھے اپنی اس فروگذاشت کا پورا پورا احساس ہے یہ حقیقت ہے کہ 1920ء سے لے کر آج تک کے سارے سیاسی واقعات میری آنکھوں کے سامنے سے گزرے ہیں نہ صرف یہ مگر ان میں سے بعض کو وقوع پذیر ہونے اور بعض کو روکنے میں تھوڑا بہت میرا اپنا ہاتھ بھی رہا ہے۔ مجموعی طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اپنے ہم عصر سیاستدانوں میں سے اکثر کی زیارت مجھے حمام میں حاصل ہوتی رہی۔

مگر سوال یہ ہے کہ اگر میں باتیں بتانے بیٹھوں تو میرا روئے سخن کس سے ہو قوم سے…؟ مگر وہ غریب تو 58؍فیصد ناخواندہ ہے اور روزی کمانے اور زندہ رہنے کی فکر میں مبتلا! اس کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے پرانی تاریخ سننے یا تیس پینتی برس پہلے کے واقعات پر سر کھپانے سے…؟

باقی رہ گیا تھا پڑھے لکھے لوگوں کا وہ گروپ جو ہر چیز پر چھایا رہا تھا یا غوروفکر کرنے کا اہل تھا مگر وہ بھی تو کسی چیز کے سننے کے موڈ میں کبھی نہیں رہا۔ وہ بحالت مدہوشی ناک کی سیدھ پر چلتا رہا۔ ماضی اور مستقبل دونوں کی فکر سے بے نیاز، اس کی بغل میں دو بت چھپے رہے جن کی پوجا میں وہ مشغول رہا اور اپنا کام چلاتا رہا۔ وہ دو بت یہ تھے جن کی شناخت اب بھی ضروری ہے۔

شخصیت پرستی… کسی زندہ یا مردہ لیڈر کو اپنی عقیدت کا محور بنا لیا اور مصلحتاً اس کا دامن تھامے رہے کیونکہ اس طرح سے ان کے ذاتی کام بنتے تھے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا (اور نہ ان کو یہ دیکھنے کی ضرورت تھی) کہ وہ لیڈر بھی ایک انسان تھا یا پیدائشی فرشتہ! اگر وہ سیاست یا انتظامیہ سے کبھی واسطہ رہا تو اس نے کبھی ٹھوکر بھی کھائی، کہیں مصلحتاً راشتہ بھی بدلا، کہیں نامساعد حالات سے سمجھوتہ بھی کیا یا ازابتداء تا انتہا وہ حضرت خضر علیہ السلام کی ذاتی رہنمائی میں اب حیوان تک موٹر ریلینگ کرتا پہنچ گیا؟ منزہ عن الخطا و النسیان؟

ذاتی اغراض… یعنی جلد ازجلد مال و دولت میسر ہو، پاور حاصل ہو، تعیش و تن آسانی کا سامان فراہم ہو۔ اخلاقی اقدار، خداترسی، انسانی ہمدردی اور ملک جائے بھاڑ میں! ان کا طریقہ کار بھی عجیب و غریب رہا یعنی پہلے ملکی ذرائع کو لوٹو، یہاں پیٹ نہ بھرے تو کسی دوسرے ملک بھاگ جائو۔ جلاوطنی کی حالت میں جس قدر بھی ذلت برداشت کرنی پڑے، وہ برداشت کی جائے مگر روپیہ بنایا جائے۔ گویا اس بدقسمت ملک کا اس شخص کی خدمات پر کوئی حق ہی نہیں تھا۔ 

ملک کے اندر وہ پیدا ہوا، معاشرے نے اس کی پرورش کی، اس کو پڑھایا، ہنر سکھایا، اس پر خرچ کیا اور اس کو ہاتھ، پیر چلانے کے قابل بنایا اور جب یہ سب منزلیں طے ہوگئیں تو اس نے یہاں رہ کر اپنے ملک کی خدمت کرنا گوارا نہیں کیا بلکہ چند روپوں کی خاطر دوسروں کے کام آیا اور اب اپنے وطن کو یہ کہہ کر خوش کرتا رہا کہ میں آپ کو فارن ایکسچینج بھیج رہا ہوں۔ گویا اس ملک کے وجود کا مقصد ہی جلب زر ہے، اس کو اندرونی تعمیر کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بردہ فروشوں کا ملک ہے، پرانے چین کی طرح قلی برآمد کرکے جیتا ہے۔ نان مرابدہ کفش برسربزن (روٹی دو اور جوتا مارو) کبھی جاپان اور جرمنی کی تاریخ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ 

ان ملکوں پر قریبی زمانے میں آفت آئی تھی اور اجڑ گئے تھے مگر انہوں نے اپنی افرادی قوت ادھر ادھر تتربتر کرکے گزر اوقات کرنے پر اس بات کو ترجیح دی کہ ان کے اپنے آدمی اپنے ملک کے اندر رہ کر اس کی تعمیرنو میں ہاتھ بٹائیں کیونکہ جب تعمیر مکمل ہوجائے گی تو فارن ایکسچینج خودبخود دھڑا دھڑ آنا شروع ہوجائے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بارے میں امریکا اور یورپ کے ممالک بھی الامان الحفیظ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ یہ ترکیب کسی کے خیال میں نہیں آئی جو شخص خود فی الحال ملک سے بھاگ نہیں سکا، اس نے بھی اپنے بٹر کا ایک حصہ باہر کے ملکوں میں بکھیر دیا تاکہ جب یہاں کا کام تمام ہوجائے تو خود وہ بھی جاکر وہیں بیٹھ جائے۔

اب انصاف کیجئے کہ جو گروپ کسی نہ کسی شعبے میں سیاہ و سفید کا مالک ہو، وہ اگر ان دو بتوں کی پوجا میں لگ جائے اور یہ طریقہ کار اختیار کرلے تو اس کو پرانی تاریخ بتانے سے کیا فائدہ…؟ یہ پرانی باتیں کون سنے گا؟ ان سے استفادہ کون کرے گا؟ کس کا ضمیر اس قدر بیدار ہوگا؟ کس میں اس قدر ایمانی قوت ہوگی کہ وہ یہ باتیں سن کر حب الوطنی اور اجتماعی بہبود کی خاطر اپنے ذاتی اغراض بھول کر حق کی دادرسی کرے گا؟

یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ وہ نادانستہ اور غیر شعوری طور پر یہ بت پرستی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بیسویں صدی کا انسان اس قدر سادہ لوح نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی حقیقت نہ سمجھ سکے مگر وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بدقسمتی سے یہ راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

پس اس ماحول کی موجودگی میں بھی اگر قارئین کرام کا اصرار ہے کہ میں ضرور کچھ بتائوں تو حاضر ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا ہوگا مگر حکم ہے تو مفر بھی نہیں۔

ہماری تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کردینا مناسب ہوگا یعنی 1920ء سے 1940ء تک،1940ء سے 1947ء تک اور 1947ء سے 1971ء تک۔

ان میں سے پہلے دو ادوار فی الوقت غیر متعلق اور اس لئے خارج از بحث ہیں کہ آج تک ان پر کافی بحثیں ہوتی رہی ہیں مثلاً دو قومی نظریہ کا انکشاف کب ہوا؟ کس پر ہوا؟ کس طرح ہوا؟ اس کو کن الفاظ میں عوام کے سامنے لایا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص یا گروپ جو پاکستان کے دسترخوان پر اپنا استحقاق جتانا چاہتا ہے، یہی دعویٰ کرتا رہا ہے کہ یہ انکشاف سب سے پہلے اس کے بزرگوں پر ہوا اور اسی بناء پر اس کا حق بنتا ہے کہ سب سے زیادہ لذیز لقمہ وہ خود اٹھا لے۔ بالفاظ دیگر پاکستان کے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی میراث ہے جس کا وہ تنہا وارث ہے، اگر وہ کسی دوسرے کو اس دسترخوان سے روٹی کا ٹکڑا اٹھانے دیتا ہے تو یہ اس کا کرم ہے ورنہ حق وق کسی اور کا نہیں۔ اس ٹولے میں ایک عنصر ایسا بھی ہے جس کے بزرگوں نے شروع میں پاکستان اور دو قومی نظریہ کی تو مخالفت کی تھی مگر حالات بدل جانے کے بعد اب وہ بھی اغڑم بغڑم باتیں بنا کر اندر گھس کر سارے دسترخوان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

میرا اپنا عقیدہ اس بارے میں یہ ہے کہ دو قوموں والا نظریہ ایک فطری اور پرانی چیز ہے اور اس کا انکشاف ہندوستان میں اس وقت ہوا جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا اور کافروں اور مسلمانوں کے بیچ میں خط تفریق کھینچ دیا۔ یہ لکیر بعد میں ہندوستان کے نقشے پر سے کبھی نہیں مٹی بلکہ رفتہ رفتہ اور نمایاں ہوتی گئی۔ اس اثناء میں یقیناً ایسے دور بھی آتے رہے جب بعض سیاسی اور ملکرانی کی مصلحتوں کی وجہ سے اور تو اور خود حکمرانوں نے یہ کوشش کی کہ اس لکیر کو اس قدر مدھم کردیا جائے کہ دیکھنے میں نہ آئے (مثلاً دور اکبری یا مجمع البحرین کی تصنیف والا زمانہ) مگر اس کا مٹنا غیر فطری چیز تھی لہٰذا وہ نہیں مٹی۔ 

یعنی ہر اکبر کے بعد ایک عالمگیر بھی آتا رہا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ظاہر ہے کہ قدرت کی کھنچی ہوئی لکیر انسانوں کی کوشش سے نہ مٹ سکی، نہ مدھم پڑ سکی۔ یہ ہر وقت ذہنوں میں موجود رہی اور جب بھی موقع آیا، ابھرتی رہی۔ پس اس سیاق و سباق میں یہ سوچنا کہ اس کا خالق کون تھا یا کون نہیں تھا، بیکار ہے۔ اس کا خالق خود خالق ارض و سما ہے جس نے قرآن مجید اور اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس فرق یا حدفاصل کو ہمیشہ کیلئے واضح فرما دیا۔

پاکستان کے دسترخوان پر سے جس کو موقع میسر آئے، وہ لقمہ اٹھا لے، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں صرف ایک احتیاط برتیں وہ یہ کہ آپ یہ دعویٰ نہ فرمائیں کہ ان نعمتوں کے خالق آپ کے بزرگ تھے کیونکہ خالق ہر چیز کا وہی ہے یعنی خدائے عزوجل!

آپ خوشی سے ایک دوسرے کے بال نوچیں، اقتدار کی جنگ لڑیں، بزرور بازو جس چیز پر ہاتھ پڑے، اٹھا کر جیب میں ڈال لیں۔ جس مستحق کا حق غضب ہو، کرلیں، تاریخ کی جتنی جھوٹی تاویلیں کرسکتے ہیں، کرلیں اور اس قوم کے جینیس (GENUIS) کے بارے میں جو تھیوریاں لڑانی ہوں، وہ لڑا لیں صرف خالق حقیقی کو اس کے صحیح مقام سے محروم کرنے یا پس منظر میں ڈال دینے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جن گروہوں نے یہ کیا، وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگئے۔

جہاں تک موجودہ پاکستان کا تعلق ہے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کا تصور بطور ایک سیاسی تجویز علامہ اقبالؒ نے دیا اور قائداعظمؒ نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ رہا دو قومی نظریئے کا مسئلہ تو اس کا خالق خود خدا تعالیٰ ہے۔

1947ء سے پہلے کے دو ادوار کو ان مختصر ریمارکس کے ساتھ اس وقت خارج از بحث قرار دینے کے بعد تیسرا دور 1947ء سے 1971ء تک کا ہی رہ جاتا ہے جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ گاڑی کے پٹری سے اتر جانے والا حادثہ اسی دور ہی میں پیش آیا۔