آپ پوچھتے ہیں کہ معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟اس کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں، اللہ عزّوجل نے تو مسلمانوں کے جان ومال جنت کے عوض خریدے ہیں: ”بےشک اللہ نے مسلمانوں کے جان ومال خرید لیے ہیں، اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے“۔ (القرآن الکریم۹/ ۱۱۱)
مگر ہم ہیں کہ مبیع دینے سے انکار اور ثمن کے خواستگار ہندی مسلمانوں میں یہ طاقت کہاں کہ وطن ومال واہل و عیال چھوڑ کر ہزاروں کوس دور جائیں اور میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں، مگر مال تو دے سکتے ہیں۔ اس کی حالت بھی سب آنکھوں دیکھ رہے ہیں، وہاں مسلمانوں پر یہ کچھ گزررہی ہے یہاں وہی جلسے وہی رنگ، وہی تھیٹروہی امنگ، وہی تماشے وہ بازیاں، وہی غفلتیں، وہی فضول خرچیاں، ایک بات کی بھی کمی نہیں، ابھی ایک شخص نے ایک دنیاوی خوشی کے نام سے پچاس ہزار دیئے، ایک عورت نے ایک چین وچناں جرگہ کو پچاس ہزار دیئے، ایک رئیس نے ایک کالج کو ڈیڑھ لاکھ دیئے، اور یونیورسٹی کے لیے تو تیس لاکھ سے زائد جمع ہوگیا، ایک رات میں ہمارے اس مفلس شہر سے اس کے لیے چھبیس ہزا ر کا چندہ ہوا، بمبئی میں ایک کم درجے کے شخص نے صرف ایک کوٹھہری چھبیس ہزار روپے کو خریدی فقط اس لیے کہ اس کے وسیع مکان سکونت سے ملحق تھی، جسے میں بھی دیکھ آیا ہوں، اور مظلوم اسلام کی مدد کے لیے جو کچھ جوش دکھائے جارہے ہیں آسمان سے بھی اونچے ہیں، اور جو اصلی کارروائی ہورہی ہے زمین کی تہہ میں ہے، پھر کس بات کی اُمید کی جائے، بڑی ہمدردی یہ نکالی ہے کہ یورپ کے مال کا بائیکاٹ ہو، میں اسے پسند نہیں کرتا۔
نہ ہرگز مسلمانوں کے حق میں کچھ نافع پاتا ہوں، اول تو یہ بھی کہنے ہی کے الفاظ ہیں، نہ اس پر اتفاق کریں گے نہ ہرگز اس کو نباہیں گے، اس عہد کے پہلے توڑنے والے جنٹل مین حضرات ہی ہوں گے جن کی گزر بغیر یورپین اشیاء کے نہیں۔ یہ تو سارا یورپ ہے پہلے صرف اٹلی کا بائیکاٹ ہوا تھا، اس پر کتنوں نے عمل کیا اور کتنے دن نباہا، پھر اس سے یورپ کو ضرر بھی کتنا، اور ہو بھی تو کیا فائدہ کہ وہ سو ترکیبوں سے اس سے دہ گنا ضرر پہنچاسکتے ہیں، لہٰذا ضرر رسانی کا ارادہ صرف وہی مثل ہے کہ کمزور اور پٹنے کی نشانی۔
بہتر ہے کہ مسلمان اپنی سلامت روی پر قائم رہیں، کسی شریر قوم کی چال نہ سیکھیں، اپنے اوپر مفت کی بدگمانی کا موقع نہ دیں، ہاں اپنی حالت سنبھالنا چاہتے ہیں تو ان لڑائیوں ہی پر کیا موقوف تھا، ویسے ہی چاہیے تھا کہ: … اول: باستثناء ان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے، اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے، یہ کروڑوں روپے جو اسٹامپ ووکالت میں گُھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہوگئے اور ہوئے جاتے ہیں، محفوظ رہتے۔ … دوم: اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خرید تے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا، اپنی حرفت وتجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے، یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکہ والے چھٹانک بھر تانبا کچھ صناعی کی گھڑنت کرکے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر کے آپ کو دے جائیں اور اس کے بدلے پاؤ بھر چاندی آپ سے لےجائیں۔ … سوم: بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدرآباد(دکن) وغیرہ کے تو نگر مسلمان اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے بینک کھولتے، سود شرع نے قطعی حرام فرمایا ہے، مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصّل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ کتاب”کفل الفقہیہ الفاہم“ میں چھپ چکا ہے، ان جائز طریقوں پر بھی نفع لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت برآتی اور آئے دن جو مسلمانوں کی جائیدادیں (سود خور) بنیوں کی نذر کو ہوئی چلی جاتی ہے ان سے بھی محفوظ رہتے، اگر مدیون کی جائیداد ہی لی جاتی مسلمان ہی کے پاس رہتی یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنیے چنگے !
چہارم: سب سے زیادہ اہم، سب کی جان، سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسّی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا، چار دانگ عالم میں انکی ہیبت کا سکّہ بٹھایا، نان شبینہ کے محتاجوں کو بلند تاجوں کا مالک بنایا۔ اور اسی کے چھوڑنے نے پچھلوں کویوں چاہ ذلت میں گرایا۔ (فانّا للّٰہ وانّا الیہ رٰجعُون، ولاحول ولاقوۃ الاّباللّٰہ العلی العظیم) دین متین علم دین کے دامن سے وابستہ ہے، علم دین سیکھنا پھر اسی پر عمل کرنا اپنی دونوں جہان کی زندگی جانتے وہ انھیں بتادیتا، اندھو! جسے ترقی سمجھ رہے ہو(یعنی سودی لین دین)، سخت تنزل ہے، جسے عزت جانتے ہو، اشد ذلت ہے۔
مسلمان اگر یہ چار باتیں اختیار کرلیں تو انشاء اللہ العزیز آج (ہی) ان کی (معاشی و معاشرتی) حالت سنبھل جاتی ہے۔ آپ کے سوال کا جواب تو یہ ہے، مگر یہ تو فرمائیے کہ سوال وجواب سے حاصل کیا، جب کوئی اس پر عمل کرنے والا نہ ہو، عمل کی حالت ملاحظہ ہوـ:
اول پر یہ عمل ہے کہ گھر کے فیصلے میں اپنے دعوے سے کچھ بھی کمی ہو تو منظور نہیں، اور کچہری جاکر اگرچہ گھرکی بھی جائے ٹھنڈے دل سے پسند، گرہ گرہ بھر زمین پر طرفین سے دو دو ہزار بگڑ جاتے ہیں کیا آپ ان حالتوں کو بدل سکتے ہیں، فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ۔”تو کیا تم باز آئے“۔(القرآن الکریم ۵/ ۹۱)
دوم کی یہ کیفیت کہ اول تو خاندانی لوگ حرفت وتجارت کو عیب سمجھتے ہیں اور ذلّت کی نوکریاں کرنے، ٹھوکریں کھانے، حرام کام کرنے، حرام مال کھانے کو فخر وعزت، اور جو تجارت کریں بھی تو خریدار کو اتنا حس نہیں کہ اپنی ہی قوم(مسلمان) سے خریدیں اگرچہ پیسہ زائد سہی کہ نفع ہے تو اپنے بھائی کا ہے۔ اہل یورپ کو دیکھا ہےکہ دیسی مال اگرچہ ولایتی کی مثل اور اس سے ارزاں بھی ہو، ہرگز نہ لیں گے اور ولایتی گراں خریدلیں گے۔
ادھر بیچنے والوں کی یہ حالت کہ ہندوآنہ روپیہ نفع لے، مسلمان صاحب چونّی سے کم پر راضی نہیں اورپھر لطف یہ کہ مال بھی اس سے ہلکا بلکہ خراب، ہندو تجارت کے اصول جانتا ہے کہ جتنا تھوڑا نفع رکھے اتنا ہی زیادہ ملتا ہے اور مسلمان صاحب چاہتے ہیں کہ سارا نفع ایک ہی خریدار سے وصول کرلیں۔ ناچار خرید نے والے مجبور ہوکر ہندو(غیر ملکی) سے خرید تے ہیں۔ کیا تم یہ عادتیں چھوڑ سکتے ہو۔ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۔”تو کیا تم با ز آئے“ ( القرآن الکریم ۵/ ۹۱)
سوم کی یہ حالت کہ اکثر امراء کو اپنے ناجائز عیش سے کام ہے، ناچ رنگ وغیرہ بے حیائی یا بیہودگی کے کاموں میں ہزاروں لاکھوں اُڑادیں، وہ ناموری ہے، ریاست ہے، اور مرتے بھائی کی جان بچانے کو ایک خفیف رقم دینا ناگوار۔ جنھوں نے بنیوں سے سیکھ کرلین دین شروع کیا، وہ جائز نفع کی طرف توجہ کیوں کریں! دین سے کیاکام! اللہ ورسول ؐکے احکام سے کیا غرض! ختنہ نے انھیں مسلمان کیا اور گائے کے گوشت نے مسلمانی قائم رکھی اس سے زائد کیا ضرورت ہے، نہ انھیں مرناہے، نہ اللہ وحدہ قہّار کے حضو ر جانا، نہ اعمال کاحساب دینا۔
انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون !پھر سود بھی لیں توبنیا(ہندو سود خور) اگر بارہ آنے مانگے یہ ڈیڑھ دو سے کم پر راضی نہ ہوں، ناچار حاجت مند بنیوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور جائیدادیں ان کی نذر کربیٹھتے ہیں۔ … چہارم کا حال ناگفتہ بہ ہے کہ انٹر پاس کو رزّاق مطلق سمجھا ہے وہاں نوکری میں عمر کی شرط، پاس کی شرط، پھر پڑھائی وہ مفید کہ عمر بھر کام نہ آئے، نہ اس کی نوکری میں اس کی حاجت پڑے، اپنی ابتدائی عمر کہ وہی تعلیم کا زمانہ ہے یوں گنوائی، اب پاس ہونے میں جھگڑا ہے، تین تین بار فیل ہوتے ہیں اور پھر لپٹے چلے جاتے ہیں، اور قسمت کی خوبی کہ(عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں آج بھی) مسلمان ہی اکثر فیل کیے جاتے ہیں، پھر تقدیر سے پاس بھی مل گیا تو اب نوکری کا پتا نہیں ا ور ملی بھی تو صریح ذلت کی، اور رفتہ رفتہ دنیوی عزت کی بھی پامالی تو وہ کہ عندالشرع ہزار ذلّت، کہئے پھر علم دین سیکھنے اور دین حاصل کرنے اور نیک وبد میں تمیز کرنے کا کون سا وقت آئے گا۔
لاجرم نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دین کو مضحکہ سمجھتے ہیں، اپنے باپ دادا کو جنگلی، وحشی،بے تمیز، گنوار، نالائق، بیہودہ، احمق، بے خرد جاننے لگتے ہیں، بفرض غلط اگریہ ترقی بھی ہوئی تو نہ ہونے سے کروڑ درجے بد تر ہوئی، کیا تم علم دین کی برکتیں ترک کرو گے، فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ۔”تو کیا تم باز آئے“۔(القرآن الکریم ۵ /۹۱)
یہ وجوہ ہیں، یہ اسباب ہیں، مرض کا علاج چاہنا اور سبب کا قائم رکھنا حماقت نہیں تو کیا ہے، اس نے تمہیں ذلیل کردیا، اس نے غیر قوموں کو تم پر ہنسوایا، اِس نے اُس نے اِس نے جو کچھ کیا، وہ اس نے، اور آنکھوں کے اندھے اب تک اس اوندھی ترقی کا رونا روئے جاتے ہیں۔ ہائے قوم، وائے قوم، یعنی ہم تواسلام کی رسّی گردن سے نکال کر آزاد ہوگئے، تم کیوں قُلی بنے ہوئے ہو، حالانکہ حقیقۃً یہ آزادی ہی سخت ذلت کی قیدہے جس کی زندہ مثال یہ ترکوں کا تازہ واقعہ۔
ولاحول ولاقوۃ الاّ باللّٰہ العلی العظیم۔اہل الرائے ان وجوہ پر نظر فرمائیں، اگر میرا خیال صحیح ہو توہر شہر وقصبہ میں جلسے کریں اور مسلمانوں کو ان چار باتوں پر قائم کردیں پھر آپ کی حالت خوبی کی طرف نہ بدلے تو شکایت کیجیے، یہ خیال نہ کیجیے کہ ایک ہمارے کیے کیا ہوتا ہے، ہر ایک نے یوںہی سمجھا توکوئی کچھ نہ کرے گا، بلکہ ہر شخص یہی تصو رکرے کہ مجھ ہی کو کرنا ہے، یوں ان شاء اللہ تعالیٰ سب کرلیں گے۔ چند جگہ جاری تو کیجیے پھر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے۔
خدانے چاہا تو عام بھی ہوجائے گا، اس وقت آپ کو اس کی برکات نظر آئیں گی، وہی آیہ کریمہ کہ ابتداء سخن میں تلاوت ہوئی انّ ﷲ لایغّیر الآیۃ۔ جس طرح بُرے رویے کی طرف اپنی حالت بدلنے پر تازیانہ ہے، یوں ہی نیک روش کی طرف تبدیلی پر بشارت ہے کہ اپنے کرتب چھوڑوگے تو ہم تمہاری اس ردّی حالت کو بدل دیں گے، ذلت کے بدلے عزّت دیں گے۔
اے ہمارے رب! ہماری آنکھیں کھول اور اپنے پسندیدہ راستے پر چلا صدقہ رسولوں کے سورج مدینہ کے چاند کا، صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وعلیٰ آلہ وصحبہ وبارک وکرم آمین! (ماخوذ از تدبیر فلاح و نجات و اصلاح، مشمولہ فتاویٰ رضویہ جدید، جلد۱۵، ص: ۱۴۳)
سر تِرے در پر جھکایا ہے امام احمد رضاؒ
تجھ کو اِس دل میں بسایا ہے احمد رضاؒ
تا اَبد اُس کو بہارِ جاودانی مِل گئی
پھول جو تُونے کھلایا ہے اِمام احمد رضاؒ
جب کہا اُنؐ کو خدا نے ’’رحمۃ للعالمیںؐ‘‘
تُونے بھی یہ گیت گایا ہے اِمام احمد رضاؒ
اب بھی آتے ہیں فرشتے نعت سُننے کے لیے
مرتبہ تُونے یہ پایا ہے اِمام احمد رضاؒ
مصطفیؐ کا تذکرہ جب بھی ہُوا ہے بزم میں
شعر تیرا لب پہ آیا ہے اِمام احمد رضاؒ
عشقِ احمدؐ میں گزاری تُونے اپنی زندگی
خود کو پروانہ بنایا ہے اِمام احمد رضاؒ
مرتبہ حاصل ہُوا یہ مُصطفیٰؐ کی نعت سے
تخت پر تجھ کو بٹھایا ہے اِمام احمد رضاؒ
نعت کہنا سیکھ جائے آپؒ کے صدقے ندیمؔ
آپؒ کو مُرشد بنایا ہے اِمام احمد رضاؒ
(ریاض ندیم نیازی)