• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری

آج کا زمانہ فتنوں کا زمانہ ہے، روز بروز نئی نئی پھیلتی خرافات نے اسلامی معاشرے کو پامال کر دیا ہے، سوشل میڈیا کو بجائے مثبت کے منفی استعمال کیا جا رہا ہے، ہمارے معاشرے کے زوال کا سبب فقط اسلاف کرام کے راستے سے انحراف ہے، اگر آج بھی ہم اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے اسلامی اصولوں پر کاربند ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ترقیاں ہمارے قدم نہ چومیں، اسلافِ کرام نے مسلمانوں کی تربیت و اصلاح کے لیے مساجد کے ساتھ ساتھ خانقاہیں قائم کیں، جو مراکز تصوّف کہلائے، جہاں صدیوں سےاصلاحِ معاشرہ کا سلسلہ جاری ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؒاور ان کی خانقاہ قادریہ رضویہ بریلی برصغیر میں اس سلسلۂ رشد و ہدایت کا روشن مینارہ ہیں۔

جہاں سے آج بھی تحفظ عقائد و ایمان اور اصلاح معاشرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ عارف باللہ شیخ عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں’’ تصوف احکام شریعت پر انسان کے عمل کرنے کا خلاصہ ہے‘‘۔ یعنی تصوف تصفیۂ قلب اور اتّباع شریعت کا نام ہے۔خانقاہوں میں یہی درس دیا جات اہے اور جو اس کے خلاف کرے، اس کی پہلے اصلاح پھر گرفت کی جاتی ہے۔

اس تناظر میں اگر امام احمد رضا ؒ کی ذات پر نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ انھوں نے پوری زندگی شریعت وسنّت پر عمل کیا، ہر فرض وواجب کی محافظت اور اتّباع سنت وشریعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت ہونے نہ دیا۔ 

انہوں نے اپنی خانقاہ میں بیٹھ کر اپنے دور میں پائی جانے والی خلافِ سنّت رسوم و روایات کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور تمام بدعات و خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا۔ امام احمدر ضاؒ نے اپنے عہد میں جن اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہناکر اصلاح معاشرہ کا فریضہ ادا کیا، ان کا اختصاریہ ہے۔

٭ شریعت وطریقت: بعض نام نہاد صوفیاء شریعت و طریقت میں تفریق کرتے ہیں تاکہ ان کو کھل کر بدعملی بلکہ بے عملی کا موقع مل جائے۔ ان کا تعاقب کرتے ہوئے امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں: ”شریعت تمام احکام جسم و جان و روح وقلب اور جملہ علوم الہٰیہ و معارف نا متنا ہیہ کو جامع ہے جن میں سے ایک ٹکڑے کا نام طریقت و معرفت ہے و لہٰذا با جماع قطعی جملہ اولیائے کرام تمام حقائق کو شریعت مطہرہ پر عرض (پیش) کرنا فرض ہے، اگر شریعت کے مطابق ہوں حق و مقبول ہیں ورنہ مردو دو مخذول۔(مقال العرفا )۔

٭حفاظت ایمان کے لیے وصیّت: اس سلسلے میں امام احمد رضاؒ فرماتے ہیں:”تم مصطفیٰ ﷺکی بھولی بھیڑ یں ہو۔ بھیڑیئے تمہارے چاروں طرف ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بہکا دیں، تمہیں فتنے میں ڈالیں، تمہارا ایمان بدل کر تمہیں اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں۔ان سے بچو اور دور بھاگو۔

حضور اقدس ﷺر بّ العزت جل جلالہ کے نور ہیں۔ حضور ﷺسے صحابہؓ وہ نور مبین لے کر روشن ہوئے۔ ان صحابہ ؓسے تابعینؒ روشن ہوئے، ان تابعینؒ کے نور ایمان سے ائمہ ومجتہدین روشن ہوئے ان سے ہم روشن ہوئے۔ اب تم سے کہتے ہیں یہ نور(جو ہماری تمام کتب میں ہے) ہم سے لو“۔(وصایا شریف از مولانا حسنین رضا، مطبوعہ لاہور ۱۹۸۴ءص:۱۸)

٭کسی کوبے ثبوت کافر کہنا سخت گناہ: بعض لوگ معمولی معمولی بات پرایک دوسرے پر کفرو شرک کا حکم لگادیتے ہیں، ایسوں کے بارے میں امام احمدر ضا فرماتے ہیں: ” بجز وثبوت وجہِ کفر کے مسلمانوں کو کافر کہنا سخت گناہ ِ عظیم ہے، بلکہ حدیث میں فرمایا کہ وہ اسی کہنے والے پر پلٹ آتا ہے“۔ (احکام شریعت حصۂ سوم)

٭کفار کے میلوں، غیر مسلموں کی تقاریب میں جانا: اس سلسلے میں امام احمدر ضا ؒفرماتے ہیں:”ہندو ؤں کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقاً نا جائز ہے، اور اگر تجارت کے لیے جائے ،اگر میلہ ان کے کفر وشرک کا ہے جانا، نا جائز و ممنوع ہے کہ اب وہ جگہ ان کا معبد (مندر) ہے اور معبد کفار میں جانا گناہ۔ اگر (میلہ) لہوولعب کا ہے تو خود اس سے بچے، نہ اس میں شریک ہو،نہ اسے دیکھے، نہ وہ چیزیں جو ان کے لہو و لعبِ ممنوع کی ہوں بیچے توجائز ہے، پھر بھی مناسب نہیں کہ ان کا مجمع ہے، ہر وقت محلِ لعنت ہے تو اس سے دوری ہی میں خیر، اور اگرخود شریک ہو یاتما شا دیکھے یا ان کے لہوممنوع کی چیزیں بیچے تو آپ ہی گناہ و نا جائز ہے“۔ (عرفان شریعت اول)

٭شرافت قوم پر منحصر نہیں: بعض لوگ اپنی قوم اور برادری پر فخر کرتے ہیں اور اس شرافت ِعرفی کو بنیاد بناکر دوسرے مسلمان بھائیوں کو کم تر سمجھتے ہیں، اس سلسلے میں امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں:”شرع شریف میں شرافت‘ قوم پر منحصر نہیں، اللہ عزّوجل فرماتاہے۔تم میں زیادہ مرتبے والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ رکھتا ہے ۔ “ ۔ (فتاویٰ رضویہ پنجم، ص: 295)

٭عورتوں کا قبور اور مزارات پر جانا: عورتوں کے مزارات اولیاء اور عام قبروں پر جانے کے بارے میں سوالات کے جواب میں امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں: ”عورتوں کے مزارات اولیاء، مقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے“۔ (احکام شریعت دوم، ص :18)۔”اَصَح (زیادہ صحیح) یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ، ج4، ص:165)

٭قرآن خوانی پر اُجرت: ثواب رسانی کی نیت سے قرآن مجید پڑھ کر اس پر اُجرت لینا اور دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں: ”ثواب رسانی کے لیے قرآن عظیم پڑھنے پر اُجرت لینا اور دینا دونوں ناجائزہے(کوئی بن مانگے خوشی سے دے تو حرج نہیں)“۔(فتاویٰ رضویہ، ج4،ص: 218)

٭درودشریف میں اختصارکرنا: امام احمد رضا نے اپنےمتعدد فتاویٰ میں درود شریف” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم“ صیغوں کی جگہ ” صلعم“۔ ”ص“۔”ع“ وغیرہ لکھنے کو نا جائز و بدعت فرمایا۔ایک سائل نے سوال میں ایسا اختصار لکھا تو اسے تنبیہ فرمائی کہ: ”سائل کو جوابِ مسئلہ سے زیادہ نا فع یہ بات ہے کہ درود شریف کی جگہ جو عوام و جُہّال صلعم، یا ع یام یا ص یا صللم لکھا کرتے ہیں محض مہمل و جہالت ہے۔ اَلْقَلَمُ اِحْدی اللسانین (قلم بھی ایک زبان ہے)جیسے زبان سے درود شریف کے عوض مہمل کلمات کہنا درود کو ادانہ کرے گا یوں ہی ان مہملات کا لکھنا درود لکھنے کا کام نہ دے گا، ایسی کو تاہ قلمی سخت محرومی ہے“۔(فتاویٰ رضویہ،جلد4،ص:54)

٭ بزرگوں کی تصویریں لگانا: اسلام میں جاندار کی تصویریں ناجائز ہیں، اگر بزرگوں کی تصویر یں بنائی اور لگائی جائیں اور زیادہ ناجائز اور گناہ، جہالت سے بعض لوگ بزرگوں کی تصاویر تعظیم کے طور پر آویزاں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا، حالاں کہ حکم ایسا نہیں اس قسم کے سوالات کے جواب میں امام احمد رضاؒ نے متعدد رسائل تحریر فرمائے، مثلاً: (۱) عطا یا القدیر فی حکم التصویر (۲) شفاء الوالہ فی صورالحبیب و مزارہ ونعالہ، (۳) بدرالانوار فی آداب الآثار۔

٭مقابر مسلمین کے آداب: امام احمد رضاؒ سے مقابر مسلمین سے متعلق سوالات ہوئے تو فرمایا: ”قبروں پر چلنے کی ممانعت ہے، نہ کہ جوتا پہننا کہ سخت توہین اموات مسلمین ہے، ہاں جو قدیم راستہ قبرستان میں ہو، جس میں قبر نہیں، اس میں چلنا جائز ہے، اگر چہ جوتا پہنے ہو۔ قبروں پر گھوڑے باندھنا، چار پائی بچھانا، سونا بیٹھنا سب منع ہے“۔(فتاویٰ رضویہ،4،ص:107)

٭فرضی قبریں بنانے کا حکم: فرضی اور مصنوعی قبر کے بارے میں سوال کے جواب میں امام احمد رضا نے فرمایا: ” قبر بلا مقبور کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال (چادریں چڑھانا وغیرہ) کرانا گناہ ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ،4،ص:115)

٭قبر کا طواف کرنا اور بوسہ لینا: اس سلسلے میں امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں”بلا شبہ غیر کعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے، اور بوسۂ قبر میں علماء کو اختلاف ہے، احوط منع ہے(یعنی زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ بوسہ نہ لے)“۔ (احکام شریعت،حصہ سوم، فتاویٰ رضویہ،جلد4)

٭دعوتِ میّت: کسی مسلمان کے مرنے کے بعدایصال ثواب کے لیے فاتحہ سوم، چہلم وغیرہ میں جو عام دعوت ہوتی ہے، امام احمد رضاؒ نےاس پر سخت نکیر کرتے ہوئے، ایک رسالہ تصنیف فرمایا، ”جلیُّ الصوت لنھی الدعوۃ اَمامَ الموت“ جو” دعوتِ میّت“ کے نام سے شائع شدہ ہے، اس میں آپ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں۔”مردہ(کے ایصال ثواب) کا کھانا صرف فقراء کے لیے ہے، عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع ہے، غنی (مالدار) نہ کھائے“۔ (احکام شریعت دوم، ص: 16)

٭سیاہ خضاب لگانا: آپ سےسوال ہو اکہ سیاہ خضاب لگانا کیسا ہے؟ تو ارشاد فرمایا: ”سرخ یازرد خضاب اچھا ہے اور زرد بہتر، اور سیاہ خضاب کو حدیث میں فرمایا: ”کافر کا خضاب ہے۔“ دوسری حدیث میں ہے۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کا منہ کالا کرے گا، یہ حرام ہے۔ جواز کا فتویٰ باطل و مردود ہے“۔ (احکام شریعت، اول)

٭ماہِ صفر میں آخری بدھ: ماہ صفر کے آخری بدھ کی نسبت جویہ مشہور ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اس میں غسل صحت فرمایا تھا اسی بناءپر تمام مسلمان اس دن کو روز عید سمجھتے اور غسل و اظہار فرح و سرور کرتے ہیں، شرع مطہر میں اس کی اصل ہے یا نہیں؟، اس سلسلے میں امام احمدرضاؒ فرماتے ہیں:”یہ محض بے اصل ہے“۔(عرفان شریعت،2،ص: 37)

٭پیر و مُرشد سے پردہ: آج کل بہت سے پیرو مرشداپنی ارادت مند/ مریدہ عورتوں سے پردہ نہیں کرتے، اس سلسلے میں امام احمد رضاؒ سے سوال ہوا تو جواب میں فرما یا:”بےشک ہر غیر محرم سے پردہ فرض ہے، جس کا اللہ و رسولﷺ نے حکم دیا ہے۔ بےشک پیر مریدہ کا محرم نہیں ہو جاتا نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے بڑھ کر اُمت کا پیر کون ہوگا؟ اگر پیر ہونے سے آدمی محرم ہوجاتا تو چاہیے تھا کہ نبی سے اس کی اُمت سے کسی عورت کا نکاح نہ ہوسکتا“۔ (مسائل سماع، مطبوعہ لاہور، ص: 24)

٭ضروریاتِ دین کے منکر کا حکم: اس سلسلے میں امام احمدر ضاؒ فرماتے ہیں”فی الواقع جو بدعتی (بد مذہب) ضروریاتِ دین میں سے کسی شئے کا منکر ہو با جماعِ مسلمین قطعاً کا فر ہے، اگر چہ کروڑ بار کلمہ پڑھے، پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہوجائے، بدن اس کا روزوں میں ایک خاکہ رہ جائے، عمر میں ہزار حج کرے، لاکھ پہاڑ سونے کے راہ خدا میں دے۔ لاواللہ، ہرگز ہرگز کچھ قبول نہیں، جب تک حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ اپنے رب کے پاس سے لائے تصدیق نہ کرے“ ۔(اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام، ص: 15)

غرض جب دشمنان اسلام نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی، توتحفظ ایمان اور اصلاح معاشرہ میں خانقاہِ امام احمد رضا نے اہم کردار ادا کیا۔ اصلاح احوال کے لیے امام احمدرضا ؒ نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام مخالف تحریکوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا، نئے نئے فرقوں اور بدعتوں کی نشاندہی کی اور اپنی کتب اور فتاویٰ کے ذریعے جس طرح دفاع اسلام، تحفظ ایمان اور اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔