پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری
(سابق ڈین، فیکلٹی آف سائنس جامعہ کراچی)
فاضل بریلوی، امام احمد رضا بریلوی علیہ ا لرحمہ عالم اسلام کی ایک ایسی منفرد علمی شخصیت ہیں، جونہ صرف علوم نقلیہ کے ماہر ہیں جو بحیثیت عالم، مفتی، محدّث، مفسر، مجتہد، فقیہ اپنے علوم کا لوہا اپنے فتاویٰ اور رسائل سے منوا چکے ہیں۔ اسی طرح فزیکل سائنس کے شعبہ میں آپ نےکئی معرکۃ الآراء تصانیف لکھ کر ایک مسلم سائنسداں ہونے کا حق ادا کیا اور سائنس کے اس پہلو پر مزید تحقیق کرنے کے لیے ترغیب دی جہاں سائنس کا ٹکراؤ قرآنی اصولوں کے ساتھ نہ ہو۔
آپ نے ہمیشہ اپنی تحقیق میں یہ بات سامنے رکھی کہ جب کوئی اصول قرآن وحدیث کا واضح مل جائے تو اپنی تحقیق کو اس سے جدا نہ کرو، بلکہ اللہ ورسولﷺ کے فرامین کو ترجیح دو چنانچہ انھوں نے اپنے دور کے بڑے بڑے سائنسدانوں کے مؤقف کوچیلنج کیا، مثلاً یہ کہ ”زمین گردش کررہی ہے“۔
آپ نے قرآن پر یقین کے بعد اس کی روشنی سے سائنسی دلائل پیش کرکے حرکتِ زمین کی نفی میں کتابیں لکھی ہیں۔ امام احمد رضا نے میڈیکل سائنس کے موضوع پر بھی متعدد فتاویٰ اور رسائل قلمبند کیے ہیں جو فتاویٰ رضویہ کی ۳۰ جلدوں میں محققین کی نظروں اور مطالعے کے منتظر ہیں۔
یہ کوئی غیر مسلم نہیں، بلکہ مسلم محققین کا کام ہے کہ ان کا مطالعہ کریں اور پھر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ امام احمد رضا کی میڈیکل سا ئنس سے متعلق چند تصانیف کا انتہائی اختصار سے تعارف پیشِ خدمت ہے۔
۱)” الصّمصام علیٰ مشککٍّ فی آیۃ علوم الارحام“امام احمد رضا کی طرف پٹنہ بہار سے ایک سوال بھیجا گیا کہ ایک پادری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن تو یہ نہیں بتاتا کہ ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی مگر ایک آلہ دریافت ہوا ہے جو ماں کے پیٹ کا حال بتا سکتا ہے۔ جواب سے آگاہی فرمائیے ؟
امام احمد رضا نے اس سوال کے جواب میں یہ رسالہ لکھا اور سوال کا جواب اپنے رسالے کے خطبہ میں ہی دے دیا، لکھتے ہیں: ”تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس پر زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں، وہ ہی ہے جو تمہاری صورت بناتا ہے، ماں کے پیٹ میں جیسی چاہے اور درود وسلام ہو خاتم الانبیاءﷺ پر جو روشن کتاب لے کر تشریف لائے، جس میں رحمت وشفاء ہے، اور کافروں کا اس سے سوا ئےانتقام اور بدبختی کے کچھ نہیں اور آپ کے آل واصحاب پر( درود وسلام) جو نیک اور متقی ہیں اور وہ ماؤں کے پیٹوں میں سعادت مند ہوئے جب کہ جنین کی تاریکیوں میں پردےاور اندھیرے کے درمیان پوشیدہ ر ہے“ ۔
اس رسالے کے حوالے ایک ایم۔ بی۔ بی۔ ایس ڈاکٹر محمد مالک لکھتے ہیں: میڈیکل سائنس کے موضوع پر مفکر اسلام امام احمد رضا خاں بریلویؒ کی یہ عظیم اسلامی خدمت( بصورت رسالہ) اپنی مثال آپ ہے، ایک طرف یہ رسالہ اس پادری کے سوال اور بہتان کا رَدّ ِبلیغ ہے تو دوسری طرف اسلام اور قرآن کی دائمی حقّانیت کو ثابت کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر عالم اسلام کے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
امام احمد رضا نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی(اس پادری سے) کوئی انوکھی بات نہیں کی، پہلے بھی لوگ اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں بتاتے رہے ہیں اور ایک سوال جو امام احمد رضا نے اپنے رسالے میں اُٹھایا کہ قرآن میں کہاں یہ لکھا ہے کہ کوئی بھی کسی مادہ کے حمل کو کسی تدبیر سے اتنا معلوم نہیں کرسکتا کہ نر ہے یا مادہ، نشاندہی کرو۔ اس لیے پادری کو یا توبے فہمی محض ہوئی یا حسبِ عادت دانستہ کلام الہٰی پر افتراء اور تہمت ہے۔
امام احمد رضا نے مندر جہ ذیل علوم کی روشنی میں موجودہ الٹراساونڈ مشین کی ساخت جیسے آلہ کا ذکر فرمایا اور سوبرس سے بھی زیادہ سالوں قبل اس آلہ کی ساخت کو فزکس کے جدید اصولوں کے تحت قلمبند کیا، اس سے امام احمد رضا کی ذہنی مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ وہ عالم دین ہوکر بھی فزکس پر مکمل مہارت، جدید انجینئرنگ اور ٹیکنا لوجی کے حوالے سے علمی تبحّر رکھتے ہیں۔ آپ ایک صدی قبل خداداد صلاحیت سے الٹراساونڈ جیسی ساخت کی مشین کو فزکس کے قوانین انعکاس نور کی بنیاد پر سمجھا گئے۔
ایک عالم دین جس نے اس زمانے میں کسی میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل نہ کی تھی اور نہ ہی فزکس اور دیگر دنیاوی سائنسی علوم کی کہیں سے تربیت لی تھی، پھر کس طرح انھوں نے موجودہ الٹراساؤنڈ مشین کی تمام ترکیب بتادی! تواس کا جواب آسان ہے کہ جس نے علوم قرآن کو سمجھ لیا وہ تمام علوم کو سمجھ لے گا۔
امام احمد رضا چونکہ قرآن، تفسیر، حدیث، فلسفۂ اسلامی جیسے علوم سے واقفیت رکھتے تھے، اس لیے ان کو کوئی مشکل پیش نہ آئی اور انھوں نے آلہ بنانے کا طریقہ بتا دیا جو آج مشین کی صورت میں سب کے سامنے موجود ہے، البتہ سو سال پہلے بتانا ان کے لیے اعزاز کی با ت تھی۔ یہ ہمارے اوپر قرض ہے کہ ہم اس رسالے کو موجودہ سائنسی زبان میں انگریزی یا عربی میں ترجمہ کرکے شائع کریں تاکہ سائنس کی دنیا میں یہ بات عیاں ہو کہ ایک مسلم اسکالر نے الٹراساؤنڈ مشین کی ہیئت ایک صدی قبل بتائی تھی اور ا سکے طریقہء کار کو بھی بتادیا تھا۔
امام احمد رضا نے اس رسالے کے علاوہ اور بھی میڈیکل سائنس سے متعلق کئی رسائل لکھے ہیں جیسے”الحقّ المجتلی فی حکم المتلٰی“جذام( Leprosy) ایک قدیم جلدی بیماری ہے اور سابق تحقیق میں جذامLeprosy کو متعدی(ایک دوسرے سے لگنے والی) مرض قرا دیا گیا تھا مگر امام احمد رضا نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک مسلمان سائنسدان کی حیثیت سے بہت ذمہ د اری سے اس مرض( جذام) کو غیر متعدی قرار دیا۔
جدید تحقیق کے مطابق جذام اب متعدی بیماری نہیں رہی بلکہ%70 غیر متعدی اور %30 متعدی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ میڈیکل سائنس جذام کے متعلق جو نظر یہ آج رکھتی ہے یہ ہی نظریہ ایک صدی قبل مفکر اسلام امام احمد رضا نے اسلامی نظریات کی روشنی میں پیش کر کے بتا دیا تھا کہ یہ غیر متعدی بیماری ہے۔
اسی طرح امام احمد رضاؒ نے ایک اور رسالہ طاعون بیماریPlague disease سے متعلق لکھا کہ اس کی روک تھام کس طرح کی جائے اور کس طرح اس مرض کا علا ج کیا جائے۔ یہ بیماری جب خطرناک صور ت میں پھیل جائے تو باہر والے اس مقام میں داخل نہ ہوں اور جو اس بیماری والے شہر میں ہے وہ چاہے تندرست کیوں نہ ہوں شہر سے باہر ہر گز نہ جائیں۔
یہ رسالہ بھی ۱۱۰ سال قبل لکھا گیا تھا اور ا سکا نام کھا گیا”تیسرا لماعون لمسکن فی الطاعون “ اس رسالے میں قرآن وحدیث کے نظریات کی روشنی میں یہ وضاحت فرمائی کہ ا س مرض کے مریض سے حسن سلوک، بھائی چارہ، قربانی، محبت واخوات کے اسلامی پیغام وتعلیمات کے مطابق پیش آیا جائے کہ حدیث نبویﷺ میں آیا ہے : ”طاعون سے بھاگنا گناہ ہے اور طاعون سےبھاگنے والے کومیدان جنگ سے بھاگنا قرار دیا گیا اور جو صبر کرتا رہے اس کے لیے شہید کا ثواب“۔
امام احمدرضا ؒ کی تحقیق اور آج کے جدید میڈیکل نظریات اس بیماری میں کافی حد تک مطابقت رکھتے ہیں لیکن سائنس کی تحقیق آج جو اس بیماری سے متعلق بتارہی ہے، ہمارے دین نے پہلے آگاہی دے دی تھی، جسے ایک مسلم سائنسدان امام احمد رضا آج سے بہت پہلے بتاچکے۔
اب ملاحظہ کریں چند فتوے جس میں امام احمد رضاؒ ماہر حیوانیات کی حیثیت سے مچھلی ا ور جھینگے کے فرق کو بتا کر ممکنہ کتب علم حیوان کی روشنی میں اپنی مہارت بتا رہے ہیں۔ جھینگا کھانا درست ہے یا نہیں ؟امام احمد رضا اپنی ماہرانہ رائے بحیثیت ماہر حیوانیات دیتے ہیں۔
”اقول :عبارت حمادیہ سے ظاہر یہ ہی ہے کہ ان کے نزدیک قول حرمت ہی مختار ہے کہ اسی کو تقدیم (فوقیت) دی اور جھینگے کو کیڑا (دود) کہا اورکیڑے حرام ہیں اور اہل حلّت (حلال) کی طرف سے دلیل میں یہ نہ کہا کہ وہ مچھلی ہے بلکہ یہ کہ اس پر مچھلی کا نام بولا جاتا ہے۔تحقیقِ مقام یہ ہے ہمارے مذہبِ حنفیہ میں مچھلی کے سوا تمام دریائی سمندری جانور مطلقاً حرام ہیں۔
تو جن کے خیال میں جھینگا مچھلی کی قسم نہیں ان کے نزدیک حرام ہی ہوا چاہیے، مگر فقیر( احمد رضا خان) نے کتب لغت (Dictionary)کتب طب (Medicine) وکتب علم حیوان (Zoology)میں بالاتفاق اس کی تصریح دیکھی کہ وہ جھینگا مچھلی( fish ) ہے۔ بہر حال ایسے شبہ و اختلاف سے بے ضرورت بچنا ہی چاہیے“ ۔
ایک اور نادر تحقیق امام احمدر ضاؒ کی حیوانات سے متعلق جس کا تعلق شرعاً مسئلہ تیمم سےہے کہ تیمم کے لیے ضروری ہے کہ جس شے سے تیمم کیا جائے وہ جنس ارض سےہو۔ پتھروں میں ایک پتھر اپنی بننے کی ساخت میں جانوروں سے مشابہ نظر آتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی شکل جب وہ پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے تو وہ عام پتھر کی شکل کی بجائے ایک آبی جانور( coral )کی طرح نظر آتا ہے جو Invertebrateکی نسل سے اور علم حیوانات میں جو phylum coelenterataسے تعلق رکھتا ہے اور ا سے coral نام دیا جاتا ہے جو مختلف رنگ کاہوتا ہے اور مختلف ساخت کا اور دیکھنے میں لگتا ہے کہ کسی چھوٹے درخت کی شاخیں ہیں یا ادرک نماہیت نظر آتی ہے کہ اگر اس پر تیزاب ڈالا جائے تو اس پر ایسے بلبلے آتے ہیں جیسے چونے کے پتھر پر پانی ڈالنے سے بلبلے آتے ہیں۔
تیمم کے باب میں جب آپ سے سوال کیا گیا کہ کن پتھروں اور مٹی کی اقسام سے تیمم جائز ہے تو آپ نے اس کے اندر ۱۸۱ اقسام کے پتھروں یا مٹی کی اقسام سے تیمم کو جائز بتایا مگر کمال یہ کہ ۱۸۱ میں سے۱۰۷ اقسام آپ نے اضافی بتائیں جب کہ پچھلے ۱۲۰۰ سال کے تمام فقہا نے صرف ۷۴؍ اقسام گنوائی تھیں۔
اما م احمد رضا نے ان ہی ۱۰۷ اقسام کے پتھر جو انھوں نے فقہ کے باب تیمم میں اضافہ کیے تھے ان میں سےایک پتھر مرجان، مونگا یا Coral بھی تھا۔ انھوں نے اس کی تحقیق میں اپنے علم حیوانیات کےجو ہر دکھائے اور ثابت کیا کہ جو مرجان (پتھر) ہے یہ دراصل سمندر کی تہہ میں جانور یا شجر نما جانور کی شکل میں بنتا رہتا ہے اور جب اس کے اندر کاجانور مرجاتا ہے تویہ ا سکا خول باقی رہ جاتا ہے جو حقیقت میں کاربونیٹ(caco3)کا بنا ہوا ہوتا ہے اور یہ پتھر کی شکل میں رہ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ سمندر کی زمین پر بڑھتا ہے تو ا س لیے جنس ارض بھی ہوا، ا س لیے اس سےتیمم جائز ہے۔ خیال رہے کہ اکثر فقہا ئےکرام نے اس کو حیوانات کے ساتھ خیال کیا تھا ا س لیے انھوں نے اس سے تیمم کو ناجائز بتایا مگر امام احمد رضا نے اس کی کھوج لگائی اور وہ اپنی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ انھوں نے ا سکو پتھر گردانااور اس سےتیمم جائز بتایا۔
دودھ بننے کے عمل کو اللہ نے بیان کیا کہ یہ مادہ جسم میں کہاں اور کس طرح دودھ بننے کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے، قرآن کریم(سورۂ نحل:۶۶) میں ہے: ”ہم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز میں سےجو ان کے پیٹ میں ہے گوبر اور خون کے بیچ میں سےخالص دودھ گلے سے سہل اُترتا پینے والوں کے لیے“۔ (ترجمہ قرآن کنزالایمان)
امام احمد رضاؒ نے اس دودھ بننے کے عمل کو بہت اچھی طرح جان لیا اس لیے ترجمہ کیا کہ پیٹ میں غذا جانے کے بعد جب ہضم ہونا شروع ہوتی ہے تو اس دوران نیا خون بنتا ہے اور بقیہ غذا فضلہ بن کر فضلے کے راستے سے باہر آجاتا ہے۔ یہ نیا خون بننے کے بعد بقیہ خون میں شامل ہو جاتا ہے مگر اسی دوران کہ ابھی فضلہ مکمل نہ بنا اور خون بننا شروع ہوا، اللہ کی قدرت کہ اس پر وسس کے درمیان ایک اور عمل دودھ بننے کا بھی صرف مادہ femaleمیں ہوتا ہے اور یہ اسی مادہ کے تھنوں میں چلا جاتا ہے۔خون اور ناپاک فضلے ابھی دونوں بن رہے ہوتے ہیں اور جسم کے اندر کی مشینری اس کو تھنوں تک پہنچا دیتی ہے ۔
آخر میں امام احمد رضا کی طبّی بصیرت پر ملک پاکستان کے نامور طبیب اور ہمدرد ٹرسٹ کے بانی وسابق گورنر سندھ محترم جناب حکیم محمد سعید شہید کے مقالے” امام احمدر ضا کی طبی بصیرت“ سے چند اقتباسات ملاحظہ کریں جس میں انھوں نے امام احمد رضا کو نہ صرف عظیم فقیہ قرار دیا، بلکہ ان کی” طبی بصیرت“ کو مسلّم قرار دیا، چنانچہ آپ رقمطراز ہیں: ”جہاں تک مولانا احمد رضا کا تعلق ہے، ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کی طبی بصیرت مسلّم ہے، تحقیق میں سنجیدگی اور ذہانت کی جو مثال انھوں نے قائم کی ہے، وہ محقق کے لیے سبق آموز ہے، سب سےبڑا نقطہ جو سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ فقہ اور طب (medicene) کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے اور کوئی شخص اس وقت تک کامل فقیہ نہیں ہوسکتا جب تک اسے طبی علوم پر دسترس نہ ہو۔
مولانا احمدر ضا کے اکثر فتاویٰ سے طبی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے فتاویٰ کی اہمیت ا س لیے نہیں کہ وہ کثیر درکثیر فقہی جزئیات کے مجموعہ ہیں، بلکہ امتیاز یہ ہے کہ ان میں تحقیق کا وہ اسلوب ومعیار نظر آتا ہے جس کی جھلکیاں ہمیں صرف قدیم فقہاء میں نظر آتی ہیں“۔