جنگ گروپ آف نیوز پیپرز اپنی ابتدا سے ہی عوام کے حقوق ان کے جاننے کے حق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لیے پاکستان کی صحافتی تاریخ میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے، قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کی عدلیہ میں ہونے والے تمام اہم مقدمات کی غیر جانبدارانہ کوریج سےخاص و عام کو آگاہ رکھا جنگ کے 75 سال پر پاکستان کی تاریخ کے اہم اور چیدہ چیدہ مقدمات ’’جنگ‘‘ میں ان کی کوریج کا مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔
1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا ۔ اور اکثریت کا اعتماد رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا ۔۔ اس وقت مولوی تمیز الدین خان دستور ساز اسمبلی کے صدر اور ایسٹ بنگال سے دستور ساز اسمبلی کے نمائندے تھے انہوں نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور سندھ ہائی کورٹ نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا جس کے خلاف وفاقی حکومت نے اس وقت کی اعلی ترین عدالت جو فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی سندھ ہاٰئی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ۔1955میں فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں بینچ نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دیا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ تیکنیکی بنیادوں پر کالعدم کر دیا کہ1935کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اس مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ گورنر جنرل نے اس قانون سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس فیصلے سے جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس نے اختلاف کیا ۔تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جسٹس منیر نے فیصلے میں قرار دیا کہ اسمبلی بالادست ادارہ نہیں ہے ۔ دستور ساز اسمبلی احمقوں کی جنت میں رہتی ہے اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ ریاست کا ایک بالادست ادارہ ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق جسٹس اے آر کارنیلیس نے اس کے بالکل برعکس رائے دی ۔
ایلن میگراتھ نے اپنی کتاب ڈسٹرکشن آف پاکستان ڈیموکریسی میں لکھا کہ جب جسٹس منیر نے اسمبلی کے بالادست اور خودمختار ہونے کے خلاف لکھا اس نے پاکستان کی دستوری اساس کو تباہ کر دیا۔اور اس طرح ایسا خلاء چھوڑا جس سے گورنر جنرل کو فائدہ ہوا اور 1958کے مارشل لاء کی راہ ہموار ہوئی ۔بعد میں آنے والے مارشل لاؤں کو اسی بنیاد پر جائز قرار دئیے جانے کی بنیاد ڈال ڈی گئی۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں دوسو کیس انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔ 1956کے آئین کے بعد یہ پہلا آئینی مقدمہ تھا ،جوپاکستان کی سیاسی تاریخ کا بھی ایک اہم مقدمہ ہے ۔اس مقدمے کو اس لیے نمایاں اہمیت ملی کیونکہ اس میں باالواسطہ طور پر 1958میں اسکندر مرزا کی جانب سے مارشل لاء کےنفاذ کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ دوسو بلوچستان کے ضلع لورا لائی کا رہنے والا تھا لورا لائی اس وقت پاٹا کا حصہ تھا ۔ دوسو نے ایک قتل کیا ،جس پر لیویز فورسز نے اسے گرفتار کرکے قبائلی حکام کے حوالے کر دیا اور’’ لویہ ‘‘جرگہ میں اس پرفرنٹئیر کرائم ریگولیشن کے تحت مقدمہ چلا کر سزا سنا دی گئی ۔ڈوسو کے رشتے داروں نے اس فیصلے کو ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ (لاہور ہائیکورٹ )میں چیلنج کر دیا ۔اور موقف اختیار کیا گیا کہ کہ دوسو پاکستان کا شہری ہے لہذا اس کے خلاف مقدمہ پاکستان کے قوانین کے تحت چلایا جاسکتا ہے، 1901کے ایف سی آر کے تحت نہیں ۔ ہائی کورٹ نے 1956کے آئین کے تحت مقدمہ سنا اور ڈوسو کے حق میں یہ فیصلہ دے دیا ، کہ فرنٹئیر کرائم ریگولیشن 1956کے آئین سے متصادم ہے اور دوسو آئین کے آرٹیکل 5 اور 7 کے تحت مساوی سلوک کا حق دار ہے۔
ہائی کورٹ نے لویہ جرگہ کا فیصلہ کالعدم کر دیا ۔ اس فیصلے کا اثر یہ ہوا کہ ایف سی آر کو آئین سے متصادم قرار دینے سے 1956سے پہلے کیے گئے فیصلوں پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ۔وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی سپریم کورٹ نے اپیل کی تاریخ 13اکتوبر 1958مقرر کی ۔لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تبدیلی رونما ہو گئی اور 7اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اورپاکستان فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقر ر کر دیا ، تمام حکومتی مشینری،صوبائی اور مرکزی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ تین دن بعد جنرل ایوب خان نے قوانین کے تسلسل کا آرڈر 1958جاری کر دیا۔ یہ 1956کے آئین کی جگہ نیا لیگل آرڈر تھا۔
اس آرڈر کے تحت 1956کے آئین کے سوا دیگر تمام قوانین کو برقرار رکھا گیا ۔مارشل لاء کے نفاذ سے دوسو کے کیس پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوئے ، اس وجہ سے کئی تیکنیکی سوالات نے جنم لیا کہ اگر سپریم کورٹ نے دوسو کے حوالے سے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تو اس کا مطلب ہو گا کہ 1956کا آئین بدستور موجود ہے اور اگر آئین بدستور موجود ہے تو پھر مارشل لاء ریگولیشنز اور قوانین کے تسلسل کے آرڈر1958کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائےگی اور اس سے مارشل لاء بھی چیلنج ہو جائےگا ۔ بحالی کے بعد جب سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کی اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ۔عدالت کے روبرو سوال یہ تھا کہ آیا صدر کی طرف سے قوانین کا نفاذ جاری رکھنے کا حکم کی دفعہ 7آرٹیکل ون کے تحت کالعدم ہو گئی ہے یا نہیں ؟۔ اس وقت کی سپریم کوورٹ نے یہ تشریح اور تاویل کی کہ مارشل لاء جائز ہے۔
جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بین الاقوامی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کامیاب فوجی بغاوت یا کامیاب انقلاب آئین تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔اور ایسی صورت میں عدالتوں کا اختیار سماعت یا ان کا دائرہ کار بھی برقرار نہیں رہتا ۔ یعنی مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا گیا ۔ لیکن اے آر کارنیلیس نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 27 اکتوبر کو سنایا، اسی شام صدر اسکندر مرزا سے استعفا لے لیا گیا ۔اور یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے اقتداار پر قا بض ہو کر سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے نام سے مشہور ہے ۔ جنرل ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد اقتدار جنرل یحیی کو منتقل ہو چکا تھا ۔مقدمے کی ابتداء کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ نوجوان عاصمہ جیلانی کے والد ملک غلام جیلانی کو پنجاب جب کہ مسز زرینہ گوہر کے شوہر الطاگ گوہر کو مارشل لاء ریگولیشن کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ مارشل لاء ریگو لیشن کے تحت ان گرفتاریوں کو بالترتیب لاہور اور سندھ کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا گیا ۔ دونوں ہائی کورٹس نے یہ فیصلہ دیا کہ انہیں مارشل لاء کے تحت اٹھائے گئے کسی اقدام کو سننے کا اختیار نہیں ہے۔
عاصمہ جیلانی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی اور جس میں کہا کہ پاکستان کوئی غیر ملک نہیں ہے کہ جس پر جنرل یحیی خان کی آرمی نے قبضہ کیا ہے۔ مارشل لاء آئین سے بالاتر نہیں ہے ۔ عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ اس وقت آیا جب جنرل یحیی خان اقتدار میں نہیں تھے اور کمان تبدیل ہو کر سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذولفقار علی بھٹو کے پاس آچکی تھی۔ قوم سقوط ڈھاکہ کا زخم کھا چکی تھی ۔ اس وقت یعنی 1972میں اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا ۔ اور سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جنرل یحیی خان نہ تو کوئی فاتح تھا اور نہ ہی پاکستان کوئی مقبوضہ علاقہ ہے۔ عدالت نے جنرل یحیی کو غاصب اور اس کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔ فیصلے کے بعد ملک میں 1972 کا عبوری آئین آیا،بعد ازاں دستور ساز اسمبلی نے 1973کا آئین منظور کیا ۔ اس مقدمے کی جنگ نے بھر پور کوریج کی۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک اور مقدمہ بھی انتہائی قابل ذکر ہے ۔یہ مقدمہ بیگم نصرت بھٹو بنام چیف آف آرمی اسٹاف کے نام سے جانا جاتا ہے ۔7 مارچ 1970 کو ملک میں عام انتخابات ہوئے ۔ انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی بر سر اقتدار پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد جسے پاکستان نیشنل الائنس کا نام دیا گیا تھا عرف عام میں اسے پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔کے درمیان انتخابی معرکہ تھا ۔انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 216 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 155 نشستوں پر کامیاب ہوئی ، جب کہ پاکستان قومی اتحاد (نو ستارے) کو 36نشستوں پر کامیابی ہوئی۔
لیکن پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی جیت کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک شروع کر دی ،جس سے ملک میںایک شدید تنازعہ کھڑا ہو گیا ، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۔ 5جولائی 1977 کو ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا لیکن اس مرتبہ قانونی جادو گروں نے آئین کو سبوتاژ کرنے کی بجائے آئین کو معطل کرنے کی قانونی اصطلاح استعمال کی ۔ قومی ا ور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو صوبوں کا گورنر نامزد کر دیا ،جب کہ خود جنرل ضیاالحق نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو دیگر کئی رہ نماوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ۔ ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کا وعدہ کیا جو کبھی پورا نہ ہوا ۔پابند سلاسل ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 184سب کلاز3 کے تحت آئینی درخواست داخل کی، جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ ذوالفقار علی بھٹو اور دس پیپلز پارٹی رہنماوں کی گرفتاری کو چیلنج کیا گیا۔
بیگم بھٹو کی آئینی درخواست جسٹس انوار الحق چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نو رکنی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کو اکتوبر 1977میں ہونے والے انتخابات سے روکنے کے لیے مارشل لاء کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے ۔نصرت ت بھٹو کی جانب سے پیش ہونے والے یحیی بختیار کے دلائل کا خلاصہ یہ تھا ، جس میں انہوں نے عاصمہ جیلانی کیس پر انحصار کرتے ہوئے کہا کہ 1973کے آئین کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ۔ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کی زد میں آتا ہے۔
یحیی بختیار کی دلیل تھی کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے بذات خود کہا ہے کہ آئین کو سبوتاژ نہیں معطل کیا گیا ہے 1973کا آئین آج بھی برقرار ہے، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری آئین کے آرٹیکل 9،10،17اور 25 میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے ۔مارشل لاء حکومت کی طرف سے اے کے بروہی پیش ہوئے انہوں نے اپنے دلائل میں ڈوسو کیس پر انحصار کیا اور کہا کہ 5جولائی 1977مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سے ایک نیا لیگل آرڈر وجود میں آ چکا ہے اور آئین معطل ہے ۔ملک میں کامیاب فوجی انقلاب آ چکا ہے ۔ مارشل لاء شفاف انتخابات اور آئینئ حکمرانی تک پہنچنے کے لیے محض ایک پل ہے ۔سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست متفقہ طور پر خارج کر دی اور ایک مرتبہ پھر نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کے نفاذ کو جائز قرار دیا۔
بعد ازاں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی ہماری عدالتی تاریخ کا ایسا باب ہے جو ہمیشہ عدلیہ کے پاوں میں کانٹا بن کر چھبتا رہے گا۔صدر آصف زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے 2011میں ایک صدارتی ریفرنس بھی بھجوایا جس کی لارجر بینچ نے کئی سماعتیں کیں لیکن وہ ریفرنس بھی ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التواء ہی ہے۔ ضیالء الحق کے قوم سے وعدے کے برعکس 1977میں انتخابات نہ ہوئے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1981میں ایک عبوری آئینی آرڈر جاری کیا گیا اور پھر 1985میں ملک کے اندر غیر جماعت انتخابات کرائے گئے اور 1985میں بحالی آئین آرڈر جاری کیا گیا جس میں 1973کے آئین میں متعدد تبدیلیاں کر دی گئیں تھیں۔
جن میں ایک آئین کا آرٹیکل 58ٹو بی بھی شامل ہے ،جس کے تحت صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا ۔جسے آٹھویں ترمیم میں تحفظ فراہم کیا گیا ۔غیر جماعتی انتخابات کے بعد قائم ہونے والی جونیجو حکومت کو1988میں ضیاء الحق نے 58ٹو بی کے آئینی اختیار کے تحت تحلیل کر دیا۔ حاجی محمد سیف اللہ خان رکن قومی اسمبلی تھے انہوں نے ضیاء الحق کے اس اقدام کو لاہور ہاءی کورٹ میں چلینج کیا ہائی کورٹ نے ضیاء الحق اقدام کو تو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن اسمبلی بحال نہ کی ۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس محمد حلیم کی سربراہی میں بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا کہ 58ٹوبی کے تحت اٹھایا گیا اقدام تو درست نہیں ہے لیکن اسمبلی کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ کیونکہ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور تمام ساسی جماعتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ اور وہ سیاسی جماعت جنہوں نے1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا وہ بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، اس لیے اسمبلیاں بحال نہیں کی جاسکتیں۔ 5اکتوبر1988کا یہ حکم ، چیف جسٹس جسٹس محمد حلیم کے علاوہ جسٹس اسلم ریاض حسین،جسٹس افضل ظلہ،جسٹس نسیم حسن شاہ،جسٹس قادر شیخ،جسٹس شفیع الرحمان، جسٹس جاوید اقبال،جسٹس غلام مجدد،جسٹس سعد سعود جان،جسٹس ایس عثمان علی شاہ ،جسٹس علی حسین قزلباشاور جسٹس نعیم الدین پر مشتمل 12 رکنی بینچ نے جسٹس حلیم کے فیصلے سے مکمل اتفاق کیا لیکن جسٹس شفیع الرحمان نے اتفاق کرتے ہوئے اپنا الگ نوٹ لکھا۔ بعد ازاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے سپریم کورٹ کو اسمبلیاں بحال نہ کرنے کا پیغام بھجوایا گیا تھا۔
ہماری عدالتی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ 1993کا بھی ہے ۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1990کے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی کو 1993میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے سیاسی اختلافات کے باعث تحلیل کر دیا صدر کے اس اقدام کو نواز شریف نے چیلنج کیا ۔اور اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں گیارہ رکنی بینچ نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے صدارتی حکم کو کالعدم کر دیا ، نوازشریف حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کر دیا ۔بحالی کے اس فیصلے سے ایک جج نے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ نےآئین کے آرٹیکل 184تین کے تحت دائر درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے حکم میں لکھا کہ صدر نے 18اپریل 1993کو اسمبلیوں کی تحلیل کا جو حکم آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کے تحت جاری کیا تھا وہ صدر کو آئین کے تحت حاصل اختیارات کے دائرے میں نہیں آتا ۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو بحال اور نگران حکومت کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے ۔تاہم سیاسی تناو کے باعث نواز شریف کی حکومت چندہ ماہ ہی چل سکی اور پھر وحید کاکڑ فارمولا کے تحت نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان دونوں کو استعفا دیکر گھر جانا پڑا۔ 1993کے نئے انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ایک مرتبہ پھر قائم ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے ہی ہ نما فاروق لغاری صدر منتخب ہوئے لیکن پانچ نومبر 1996 آتے آتے حالات نے ایسی کروٹ بدلی کے صدر فاروق لغاری نے غلام اسحاق خان کی طرح آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کے تحٹ حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مختلف الزامات پر بے نظیر حکومت کو برطرف کر دیا ۔بے نطیر بھٹو نے فاروق لغاری کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے بھی درخواست دائر کی ۔بے نظیر بھٹو کی طرف سے اعتزازاحسن پیش ہوئے ۔ اس اہم آئینی مقدمے کا فیصلہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربرا ہی میں جسٹس سلیم اختر ، جسٹس فضل الہی ، جسٹس ضیامحمود مرزا۔جسٹس ارشاد حسن خان،جسٹس راجہ افراسیاب، جسٹس منور احمد مرزا پر مشتمل بینچ نے اسمبلی اور بے نظیر حکومت کی برطرفی کے صدارتی حکم کو برقرار رکھا تاہم اس مرتبہ بھی ایک جج نے برطرفی کے فیصلے سے اختلاف کیا اور وہ جج جسٹس ضیاء محمود مرزا تھے ۔عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کا صدارتی اقدام نواز شریف حکومت کی برطرفی کے صدارتی اقدام سے مماثلت نہیں رکھتا ۔عدالت نے بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کی درخواستیں خارج کر دیں۔
ملک میں ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کا ڈول ڈلا اور 1997کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی دوبارہ حکومت بنی اور نواز شریف ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ پر ایک مرتبہ پھر شب خون مارا گیا اور اس مرتبہ 12اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف جو بیرون ملک دورے پر تھے ان کی جگہ جنرل ضیا الدین کو آرمی چیف مقرر کیا تو فوج نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا ، جنرل پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ، نواز شریف سمیت مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا ، نواز شریف کو وزیر اعظم ہاوس سے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔اور ہائی جیکنگ کیس میں سزا سنا ئی گئی ۔ مسلم لیگ ن کے رہ نما سید ظفر علی شاہ سمیت سات درخواستیں مارشل لاء کے خلاف دائر ہوئیں ۔ یہ مقدمہ ظفر علی شاہ کیس کے نام سے مشہور ہے جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12رکنی لارجر بینچ نے 12مئی 2000کو اس اہم مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
تمام 12 ججز نے متفقہ طور پر 12اکتوبر 1999 کے مارشلا کو نہ صر ف جائز قرار دیا بلکہ ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا ۔تاہم عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ تین سال کے اندر اندر انتخابات کرائیں گے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ 12اکتوبر کو پیدا ہونے والی صورت حال کا آئین میں حل موجود نہ تھا نظریہ ضرورت کے تحت فوجی اقدام کو جائز ہے عوام نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ، مسلم لیگی رہ نماوں نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ پر حملہ کرایا ،آرمی چیف کی برطرفی غلط تھی ،پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یوں تو بہت سارے ایسے مقدمات ہیں جن کے بارے لکھتے ہوئے اوراق ختم اور قلم کی سیاہی خشک ہو جائے لیکن تنگی داماں کے باعث کچھ اہم مقدمات کے بارے میں آپ کو آگاہ کرتے چلیں۔
جنرل پرویز مشرف وہ واحد فوجی آمر تھے، جنہوں نے دو مرتبہ ملک میں مارشل لاء نافذ کیا ایک 12اکتوبر 1999 کو،جب کہ دوسرا ایمرجنسی پلس کے نام پر 3 نومبر 2007کا اقدام ۔3 نومبر 2007کا اقدام بالاآخر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے کا باعث بنا۔ پاکستان کی اعلی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر منتخب ہونے کو جائز قرار دیا ۔ ۔ ملکی سیاسی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ اس وقت ہوا جب 9مارچ 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو آرمی ہاوس طلب کیا اور ان سے مستعفی ہونے کے لیے کہا جس سے افتخار محمد چوہدری نے انکار کر دیا۔
انکار کے باعث افتخار چودھری کو آرمی ہاوس میں کئی گنٹھے محبوس رکھا گیا اور اس دوران جلد بازی میں ریفرنس بنا کر انہیں معزول کر دیا گیا موجودہ چیر مین نیب اور اس وقت کے جج سپریم کورٹ جاوید اقبال نے چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا ۔افتخار چوھدری کو ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا ۔ افتخار چوہدری کے انکار کے باعث ملک میں وکلاء تحریک شروع ہوئی ۔ 13 مارچ 2007 کو سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونے کو کہا گیا ۔وکلاء کی بڑی تعداد شاہراہ دستور پر جمع تھی تاریخ اور جنگ کے اورراق نے یہ بھی دیکھا کہ معزول چیف جسٹس کے ساتھ پیشی کے موقع پر ہونے والی بد سلوکی اور ان کے بال کھینچے جانے کی تصویر نے گویا ملک کی وکلاء برادری اور عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مشرف کے ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی سربراہی مین 14 رکنی لارجر بینچ تشکیل ہوا ۔جسٹس فلک شیر نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اعتزاز احسن افتخار محمد چوہدری کے وکیل بنے ۔ مقدمہ اور وکلاء کے ملک بھر میں تحریک ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔ 15مئی 2007 سے شروع ہونے والی سماعت 20جولائی 2007 تک ہوئی 21 جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اور صدر جنرل پرویز مشرف کے ریفرنس کو بدنیتی پر قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا ۔ آئین کی حکمرانی کی اس جدو جہد کی پاداش میں جنگ جیو گروپ کو مختلف طریقوں سے انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی اور وکلاء کی تحریک کی کامیابی نے پاکستان کے عوام کو ایک امید کی کرن دکھائی۔
تاہم اسی دوران صدر جنرل پرویز نے ایک مرتبہ پھر وردی میں صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا ۔ اور اس طرح جسٹس وجیہہ الدین بنام صدر جنرل پرویز مشرف مقدمہ شروع ہوا ۔ جسٹس جاوید اقال کی سربراہی ٕ میں گیارہ رکنی بینچ مقدمہ کی سماعت کر رہا تھا کہ جنر؛ل پرویز مشرف نے طویل سماعت اور فیصلہ خلاف آتے ہوئے دیکھا تو 3 نومبر کو ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی پلس کے نام پر مارشل لاء لگا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سات ججز نے جو اس وقت سپریم کورٹ کی عمارت میں موجود تھے جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف حکم جاری کیا، ججز اور انتظامیہ کو پی سی او کے تحت کام سے روک دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ عدالیہ نے کسی آمرانہ اقدام کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ راقم کو یاد ہے کہ تقریبا چھ بجے کے قریب تین نومبر کا وہ حکمنامہ ملا اور یہ خبر جیو نیوز نے بریک کی کہ سپریم کورٹ نے 3نومبر کی ایرجنسی کے خلاف حکم جاری کر دیا۔ ایمرجنسی پلس کے نام پر اس مرتبہ حکومت اور اسمبلیاں تو برقرار رکھیں لیکن عدلیہ کو معطل کر دیا گیا ۔ ججوں کو ان کے گھروں پر نظر بند کر دیا گیا ۔ عبدالحمید ڈوگر پی سی او کا حلف لےکر نئے چیف جسٹس بنے ۔ جنرل پرویز مشرف کے اس قدام کو ٹکا اقبال نے چیلنج کیا اور عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں پی سی او ججز نے ایمرجنسی کو جائز قرار دیا ،تاہم جنرل پرویز مشرف کو وردی اتارنے کی یقین دہانی کے بعد الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔
وکلاء تحریک ایک مرتبہ پھر شروع ہوئی اور بالاخر عوامی جدو جہد اور مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ کے باعث کے نتیجے میں16 مارچ 2009میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اسمبلی نے بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ افتخار محمد چوہدری اور معزول ججز کو ایک ایگزیکٹو حکم کے ذریعے بحال کر دیا گیا ۔ 2009 کو بحالی کے بعد جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے 3 نومبر 2007کے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا ۔ 2009 کے بعد 2013 کے دورانچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے کئی اہم آئینی معاملات پر فیصلے دئیے ۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے جنرل پرویز مشرف کے این آر او کو کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کرپشن کے مقدمات کو ختم کر دیا گیا تھا۔
این آر او کیس میں سپریم کورٹ نے اس وقت کی وفاقی حکومت کو سوئسز اتھارٹیز کو سوئس منی لانڈرنگ کیس دوبارہ شروع کرنے کے لیے خط لکھنے کا حکم دیا ۔ لیکن حکومت اور عدلیہ کی اس کشمکش میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے خط نہ لکھا جس کے نتیجے میں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی اور جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں سزا سنا دی ۔ جو بعد ازاں ان کی نا اہلی کا باعث بنی۔
افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے2007میں نواز شریف کی جلا وطنی ختم کر کے وطن واپسی کے لیے بھی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی جس پر عدالت نے قرار دیا کہ کسی شہری کو اس کے وطن واپس آنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ تاہم نواز شریف کی وطن واپسی پر انہیں ایک اور طیارے کے ذریعے ملک بدر کر دیا گیا ۔ جس پر عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر ایک اور مقدمہ شروع ہوا، جو تا حال سپریم کورٹ میں زیر التوا ء ہے ۔اسی عرصہ میں سپریم کورٹ نواز شریف نے ہائی جیکنکنگ کیس میں سزاوں کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا جسے عدالت نے ختم کر دیا تھا۔
31جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے تین نومبر دو ہزار سات کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دئیے جانے اور 60 سے زائد ججز کو غیر آئینی طریقے سے نکالنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا ۔ اس فیصلے کی روشنی میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی حکمران کے خلاف 2014میں نواز شریف حکومت نے عدالتی حکم پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت آئین سے سنگین غداری کا مقدمہ دائر کیا ۔جو تین سال تک سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں چلتا رہا ۔17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے جنرل پرویز مشرف کو آئین سے غداری پر سزائے موت سنائی ۔تاہم جنوری 2020میں لاہور ہائی ورٹ نے سزا سنانے والی عدالت کو ہی کالعدم قرار دے دیا ۔ پرویز مشرف کی سزائے موت اور عدالت کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلیں ایک طویل عرصے سے سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں جو کبھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 2018میں منظم انتخابی دھاندلی کے الزامات پر تین رکنی عدالتی کمیشن مقرر ہوا جس نے کئی ماہ پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کی دھاندلی سے متعلق الزامات کی چھان بین کی اور قرار دیا کہ 2018 کے انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی آئینی مقدمہ اہمیت کا حامل ہے جس میں چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے اختلافی فیصلہ دیا اس فیصلے میں جہاں آئین کے بنیادی خدوخال کا تعین کیا گیا وہیں عدالت نے آئینی ترمیم پر عدالتی نظر ثانی کا اختیار بھی حاصل کیا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ کا ذکر بھی ضروری ہے یہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم میاخیل پر مشتمل بینچ کا فیصلہ ہے ۔ مقدمہ ایک درخواست کے ذریعے شروع ہوا جس میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کو چیلنج کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں آرمی چیف کو توسیع دیتے ہوئے معاملہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو بھجوا دیا تھا ۔ اور بعد ازاں پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا قانون منظور کیا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ اصغر خان کیس کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی ۔ائیر مارشل اصغر خان نے 1990میں آئی جے آئی کی تشکیل اور الیکشن چوری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جو 1996 میں داخل کی گئی تھی جس کا فیصلہ 19اکتوبر 2012 میں آیا ۔یعنی 16سال بعد ،پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے کے معاملے میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد دررانی کو ذمے دار ٹھہیرایا اور کہا کہ یہ فوج کا نہیں بلکہ ان دو افراد کا ذاتی فعل تھا اور ان دونوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ، سپریم کورٹ نے اسی فیصلے میں آئی ایس آئی میں سیاسی شیل کی تشکیل کے نوٹی فیکیشن کو بھی کالعدم قرار دیا ۔ اور کہا کہ 1990کا الیکشن چوری کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس قانون کے مطابق اپنی کدمات انجام دیتے ہوئے سرحدوں کا تحفظ کر سکتی ہیں ۔یا حکومت کو مدد فراہم کر سکتی ہیں لیکن ان کا سیاسی سرگرمیوں ، سیاسی حکومتوں کے قیام یا انہیں کمزور کرنے میں کوئی کرادار نہیں ہونا چاہیے ۔پاکستانی عدلیہ کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک اہم فیصلہ پانامہ کیس بھی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو بیٹے سے نا وصول کردہ تنخواہ کو اثاثہ قرار دیکر اور اسے ظاہر نہ کرنے پر تاحیات نااہل کر دیا اور ان کے خلاف تین ریفرنس نیب کو بھجوا دئیے جن میں سے دو ریفرنس پر انہیں سزا سنائی گئی جب کہ ایک ریفرنس سے بری کر دیا احتساب عدالتون کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التواء ہیں۔
حالیہ عدالتی تاریخ کا ایک اہم مقدمہ جسٹس قاضی فائز عیسی بنام صدر پاکستان عارف علوی ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف حکومت نے ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام تین لندن جائیداوں کو ظاہر نہ کرنے اور بے نامی جائیداد کا ریفرنس بنایا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے بدنیتی کی بنیاد پر قائم اس ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔جسے سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے کالعدم قرار دے دیاہے۔