• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافت کا شعبہ دُوسرے پیشوں سے کافی مختلف ہے اس میں کام کرنے کے اوقات عام اوقاتِ کار سے مختلف ہیں، اگر آپ کی ذمہ داری رپورٹنگ ہے تو پھر یہ 24 گھنٹے کا کام ہے، کسی بھی وقت کیسے ہی حالات میں ایونٹ کی کوریج کیلئے موقع پر پہنچنا ضروری ہے۔ یہ بم دھماکا بھی ہو سکتا ہے، ہنگامہ یا احتجاج اس کے علاوہ کوئی قدرتی آفت بارش، سیلاب، زلزلہ یا طوفان کیونکہ اس پر اپنے ناظرین قارئین اور سامعین کو حالات سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری ہے اور اگر اس پیشے میں نیوز رُوم میں ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں جہاں دُنیا بھر سے مختلف ذرائع سے آئی ہوئی خبروں کو حتمی شکل دی جاتی ہے تو خاص طور پر اخبارات میں ان کے اوقاتِ کار ایسے ہوتے ہیں جب عام دفاتر سے لوگ گھروں کو واپس جا رہے ہوتے ہیں تو یہ اپنے دفتر آ رہے ہوتے ہیں اور پھر رات 2، 3 بجے ان کی گھروں کو واپسی ہوتی ہے۔ 

انہیں بھی خراب سے خراب حالات میں دفتر پہنچنا ہوتا ہے۔ پھر مختلف دفاتر میں کام کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آفس جا کر کیا کام کرنا ہوگا جبکہ ایک نیوز رُوم میں کام کرنے والا صحافی نہیں جانتا کہ آج اس کا کس قسم کی خبروں سے واسطہ پڑے گا۔ نارمل خبروں کے ساتھ کام کرتے کرتے خبر آتی ہے نیویارک میں ٹریڈ ٹاورز پر حملہ ہوگیا۔ رات گئے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت برطرف کر ے اسمبلیاں توڑ دیں یا کوئی بڑا حادثہ ہوگیا۔ اس صورت میں نیوز رُوم میں ایک ہنگامی صورتحال ہوتی ہے، بعض وقت پورا بنا ہوا اخبار ایک طرف رکھ کے نئی آنے والی خبروں پر مشتمل ایک نیا اخبار بنانا پڑ جاتا ہے۔

دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دفتر جاکر کیا کرنا ہوگا، لیکن صحافی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا

نیوز رُوم میں مختلف حیثیتوں سے طویل عرصے کام کرنے کی وجہ سے کئی اہم واقعات کو قارئین تک پہنچانے میں عملی طور پر شریک رہا ہوں ان میں سے چند ایک کے حوالے سے نیوز رُوم اور کام کرنے والوں کی کیفیات پہنچانا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس میں واقعات کی ترتیب، اس طرح نہ ہو، لیکن یہ ہماری قومی زندگی اور عالمی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔

صدر ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ اور اس میں ان کا جاں بحق ہونا ایک بڑا واقعہ تھا۔ ایک شخص جو گیارا سال تک بلاشرکت غیرے ملک کے سیاہ سفید کا مالک رہا ہو، اس کا منظر سے یکدم اس طرح ہٹ جانا ہر ایک کیلئے تجسس کا باعث تھا، مجھے یاد ہے کہ میں جب شام پانچ ساڑھے پانچ آفس پہنچا تو یہ سرگوشیاں جاری تھیں کہ طیارے کا حادثہ ہوا ہے اور اس میں شاید جنرل ضیاء الحق بھی جاں بحق ہوگئے، میں نے اس وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر یونس ریاض سے پوچھا کیا ہوا تو انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا کہا لیکن میرے اصرار پر بتایا کہ چیف رپورٹر زاہد حسین نے اطلاع دی ہے کہ بہاولپور کےقریب طیارے کا حادثہ ہوا جس میں طیارے کے تمام مسافرہلاک ہوگئے ہیں۔ ان میں ضیاء الحق بھی تھے۔

دفتر کے مختلف شعبوں میں ابھی چھٹی کا وقت نہیں ہوا تھا اس لئے ان شعبوں میں کام کرنے والے بھی خبر کی تصدیق کیلئے نیوز رُوم کی طرف چلے آ رہے تھے۔ کچھ دیر میں نیوز رُوم میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں تھی اور ہم اپنا معمول کا کام بھی نہیں کر پا رہے تھے کہ رات 9بجے ٹی وی خبرنامے میں سرکاری طور پر اس خبر کی تصدیق کر دی گئی۔ 

جس کے بعد نیوز رُوم میں موجود تمام غیرمتعلقہ لوگوں سے درخواست کی گئی کہ وہ اب اسے خالی کر دیں تا کہ ہم اخبار کی تیاری کا کام شروع کریں۔ صحافیوں میں یہ ایک خاص خوبی ہوتی ہے جب خبریں بہت تیزی سے آ رہی ہوں اور ان میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی ہو رہی ہو تو وہ بہت جوش، جذبے اور تیزی سے کام کرتے ہیں۔ نیوز رُوم کے ہر فرد کی کوشش تھی کہ وہ اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹائے۔ اس دن اخبار کی اشاعت معمول سے کئی گنا زیادہ تھی صبح 10 بجے تک چھپتا رہا اور ہاکرز لینے کیلئے کھڑے رہے۔

صدر فاروق لغاری نے رات 12 کے بعد بے نظیر کی حکومت برطرف کر کے اسمبلیاں توڑ دیں۔ اندرون سندھ کیلئے اخبار کا ڈاک ایڈیشن تقریباً تیار تھا مختلف ذرائع سے خبر کی تصدیق میں لگے ہوئے تھے کہ ایڈیٹر انچیف کی ہدایت پر ڈاک ایڈیشن روک لیا گیا۔ اب خبر کی تصدیق بھی ہوگئی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ نئے سرے سے اخبار کی تیاری شروع کی گئی۔ پہلے کی تمام خبریں اب متروک ہو گئی تھیں۔

چنانچہ تیزی سے کام کا آغاز کیا گیا تا کہ جلد اخبار چھاپنے کے لئے کاپی پریس کو دی جائے لیکن نیوز رُم کے تمام ساتھیوں کی کاوش کے باوجود وہ اخبار جو چھاپنے کیلئے عموماً 3 بجے علی الصباح پریس چلا جاتا ہے وہ 6 بجے دیا گیا۔ دراصل ایسی ہنگامی صورتحال میں نیوز رُوم وار رُوم بن جاتا ہے اور اس کا ہر رُکن اسی جذبے سے کام کر رہا ہوتا ہے۔

بعض وقت اگرچہ Main خبر تو جلدی آ جاتی ہے لیکن پھر اس سے متعلقہ خبریں بہت تیزی سے آ رہی ہوتی ہیں جیسے 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کی خبر یہ تو دوپہر میں ہی آ گئی تھی لیکن اس کے بعد اس کے حوالے سے خبروں کا ایک سیلاب آ گیا۔ جس میں دُنیا بھر سے ری ایکشن، فارن کرنسی اکائونٹس پر پابندی، مختلف نوعیت کے دیگر اقدامات اس پر دُنیا بھر کے نشریاتی اداروں کے تبصرے شامل تھے، لمحہ بہ لمحہ صورتحال بدل رہی تھی۔

یہی صورتحال انتخابات کے موقع پر ہوتی ہے، نیوز رُوم میں ایمرجنسی ہوتی ہے دن بھر انتخابات کے دوران کی صورتحال اور اگر کہیں امن عامہ کا مسئلہ ہو جائے تو اس کی خبریں اور پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج کا انتظار انہیں Compile کر کے ایسی شکل دینا کہ قارئین کے سامنے واضح صورتحال آجائے کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے قارئین تک زیادہ سے زیادہ نتائج پہنچا دیں۔ اس وقت یہ نیوز رُوم الیکشن کا آپریشن رُوم بن جاتا ہے جہاں ملک بھر کے حلقوں سے آنے والے نتائج کو انتہائی احتیاط سے پرکھا جاتا ہے کیونکہ ان نتائج میں غلطی کی صورت میں سیاسی جماعتوں کے ردّعمل کا بھی احتمال ہوتا ہے۔

تمام واقعات کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح نوازشریف نے جب پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے برطرف کیا تو الیکٹرانک میڈیا اس وقت نہیں تھا۔ اس لئے شام کو ضمیمہ نکالا۔ پرویز مشرف کی برطرفی اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف ضیاء الدین بٹ کی تقرری اور اس کے بعد جس تیزی سے صورتحال بدل رہی تھی کہ منٹوں کے فرق سے نئی خبریں آ رہی تھیں ابھی کراچی ایئرپورٹ تو تھوڑی دیر میں نوابشاہ ایئرپورٹ، پرویز مشرف کے طیارے کی کراچی میں لینڈنگ پھر پرویز مشرف کے خطاب کا انتظار غرض نیوز روم میں ویسے تو ہمیشہ ہی ہنگامی صورتحال میں کام ہوتا ہے کیونکہ اخبار پریس میں بھیجنے کیلئے ایک ڈیڈلائن مقرر ہوتی ہے، نیوز ایڈیٹر کو وہ ڈیڈ لائن بھی پوری کرنی ہوتی ہے اور یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے قارئین کسی اہم خبر سے محروم نہ رہیں۔ یہ روزانہ ایک لڑائی ہوتی ہے وقت کے ساتھ اور اپنے معاصر اخبارات سے، لیکن بعض واقعات اس میں شدّت پیدا کر دیتے ہیں غرض کہ نیوز روم کی ورکنگ اپنے اسٹاف میں محنت پھرتی اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔