اخبار کی 75سالہ طویل زندگی میں بہت سے ادبی خزینے وقت کی تہوں میں چُھپ گئے ہیں۔ اب جب ان پر نظر ڈالی جارہی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اخبار نے ادب کی ایسی خوب صورت تصویر پیش کی تھی جس میں مختلف تہذیبوں ، ثقافت اور زبان کی آمیزش تھی۔’’جنگ‘‘ میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے یا تو کالم لکھے یا’’ سفر نامے‘‘ قلم بند کیے۔ کون سا ایسا ادیب تھا، جس کی جنگ میں لکھنے کی خواہش نہ تھی۔ سنجیدہ کالم نگاری سے لے کر طنز و مزاح تک، ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسائل پر کالم لکھے گئے، ان میں سے بیش تر کالم آج بھی پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے آج ہی لکھے گئے ہیں ۔
مجید لاہوری، شوکت تھانوی سے لے کر ابراہیم جلیس،ابن انشا، فیٗض احمد فیض، جوش وغیرہ کے علاوہ نام ور شعراء اور ادیب جنگ میں جگہ پاتے رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جو ادیب ’’جنگ‘‘ میں لکھنے کا آغاز کرتے، اُن کا کالم یا مضمون شائع ہونے سے قبل اعلان شائع کیا جاتا کہ فلاں ادیب نے جنگ میں شمولیت اختیار کرلی، ان کا کالم فلاں تاریخ سے پڑھیں۔ اس کا اندازہ ذیل میں چند نام ور کالم نویسوں کے اعلان پڑھ کر ہوجائے گا۔ جنگ کے ابتدائی دور سے آج تک مختلف کالم نویس جنگ کا حصہ بنے، ہر کالم اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن خصوصی ایڈیشن میں ماضی کے چند نام ور کالم نویسوں کے مختصر اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔
شوکت تھانوی
اردو کے نامور مزاح نگار‘ شاعر اور صحافی شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا آبائی وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا اور اسی نسبت سے تھانوی کہلاتے تھے۔ طویل عرصے تک لکھنو میں مقیم رہے، جہاں انہوں نے مزاح نگاری‘ شاعری اور صحافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑے۔قیام پاکستان کے بعد شوکت تھانوی پاکستان منتقل ہوگئے اور پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے روزنامہ جنگ راولپنڈی کے مدیر مقرر ہوئے روزنامہ جنگ میں ان کے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ اور پہاڑ تلے بھی قارئین میں بے حد مقبول تھے۔ شوکت تھانوی کی خدمات کے عوض حکومتِ پاکستان نے ان کو تمغۂ امتیاز سے نوازاتھا۔ زندگی کے آخری ایام تک جنگ (راولپنڈی ایڈیشن) کی ادارت کے فرائض ادا کرتے رہے۔ذیل میں شوکت تھانوی کا کالم اور سہرا نذر قارئین۔
٭………٭٭………٭
’’اگست 1957کو جب میں برسر جنگ آیا ہوں اور اس کے عملہ ادارت میں آ کر ادارتی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تو مجھ کو میرے فرائض بتاتے ہوئے میر خلیل الرحمن صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ ایڈیٹوریل اور شذرات وغیرہ وغیرہ لکھتے رہیں گے۔میں نے وضاحت چاہی کہ وغیرہ وغیرہ سے کیا مراد ہے آپ کی؟
میر صاحب نے فرمایا کہ ” مثلاً مزاحیہ کالم “۔میں نے اسی وقت طے کر لیا تھا کہ اس مزاحیہ کالم کا نام ہی ”وغیرہ وغیرہ “ رکھنا ہو گا۔شوکت تھانوی نے ابتداء میں اپنے کالم کا نام وغیرہ وغیرہ رکھا بعد ازاں ’’پہاڑ تلے‘‘ کے نام سے لکھنے لگے۔
مجید لاہوری کے انتقال پر شوکت تھانوی کے پہلے کالم سے اقتباس:
’’دل ہے کہ امنڈا آرہا ہے ۔آنکھیں ہیں کہ ڈبڈبائی جاتی ہیں ۔ آنسو ہیں کہ پئے نہیں جاتے اور لکھنا ہے ایک مزاحیہ کالم ،پیش کرنا ہے اپنے آپ کو بحیثیت ایک مزاح نگار کے ۔مگر آج یہ مزاح نگار آپ سے اپنا صرف یہ حق مانگ رہا ہے کہ اس کو بھی انسان تسلیم کرلیجئے۔ اس کے سینے میں بھی ایک ایسا دل ہے، جس میں کسی بچھڑے ہوئے دوست کی یاد آنسو نچوڑ سکتی ہے ۔میں آپ سے صرف آج کے لیے اتنی مہلت مانگ رہا ہوں کہ میں آپ کے غم آپ سے چھین کر اپنی شگفتگی آپ پر نچھاور نہ کروں بلکہ دل سے بے ساختہ اٹھنے والی ہُوک کے ساتھ اس مجید لاہوری کو یاد کرلوں، جس کے بجائے یہ کالم آج میں لکھ رہا ہوں اور جس کی تصویر زندگی سے بھر پور تصویر یہ کہتی ہوئی آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے کہ
قیس سجادہ نشیں آکے ہوا میرے بعد
مجید لاہوری کے بعد سے جو سناٹا دنیائے ادب پر طاری ہوا اسی نے اس کالم کو بھی سنسان بنائے رکھا۔ مجید کی زندگی نے جتنا ہنسایا تھا اس کی موت نے اتنا ہی سب کورُلا بھی لیا۔ یہاں تک کہ گرم آنسو ،سرد آہوں میں تبدیل ہوئے اور پھر ایک جمود سا طاری ہو گیا۔ مگر غور کرنے کے بعد اب ان آنسوئوں کے دھند لکے سےیہ روشن حقیقت نمودار ہوئی ہے کہ مجید لاہوری کو دراصل اس کی موت بھی نہ مارسکی۔ وہ صرف ہمارے خواب و خیال ہی میں زندگی سے بھر پور مسکراہٹوں کے ساتھ نہیں آیا بلکہ وہ زندہ ہے اپنے فن میں ۔وہ زندہ ہے ہمارے ادب میں اور وہ زندہ رہے گا اپنے اس کالم میں جس کووہ اپنی زندگی سمجھتا تھا۔
شوکت تھانوی کا کرکٹر حنیف محمد کےلئے لکھا گیا سہرا
13دسمبر1959کو شوکت تھانوی نے اس زمانے کے مشہور پاکستانی بیٹسمین حنیف محمد،جنہیں کرکٹ کی دنیا میں ’’لٹل ماسٹر ‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے،ان کی شادی پر ایک سہرا لکھا اس ’’سہرے‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جا بجا کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ ’’ ذیل میں’’سہرا‘‘ ملاحظہ کریں۔
باؤنڈری مار کے بند ھواتے تھے سر پر سہرا
اب چلے گا یہ پتہ بندھتا ہے کیونکر سہرا
رن بنانے کے لیے دوڑ نہ جائے یہ کہیں
باندھئے آج اس شخص کے کَس کر سہرا
سینچری بیٹ تو بیشک ہے ہمارا دولہا
اب نئے کھیل کے دیکھے گا یہ جوہر سہرا
چھکّے چھوٹے نہ کہیں چھکّے لگائے تو بہت
سونپ دے تم کو نہ اولاد کا لشکر سہرا
یہ کرکٹ کی نہیں شادی کی پچ ہے حضرت
اب ذرا باندھئے اس پر بھی تو جم کر سہرا
اب بندھے بیٹھے ہیں سسرال میں سہرے سے حنیف
اور اسکور میں ہے آپ کے گز بھر سہرا
اپنی ہر ایک سہیلی ہے یہ کہتی ہے عُروس
کیچ کر لاؤ کہ باندھیں میرے شوہر سہرا
سیکڑوں رن ہیں وہی مہر میں لکھوا دینگے
اور خود اپنا بنالیں گے مقدّر سہرا
داد دی میں نے بھی دولہا کو جو دیکھا شوکت
ویلڈن باندھ لیا تو نے بھی سر پر سہر
فیض احمد فیض
فیض کی اخبار میں شمولیت کا اعلان
قارئین ’’جنگ‘‘ کو یہ پڑھ کر مسرت ہوگی کہ اس عہد کے عظیم اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی شاعر و ادیب اور صحافی حضرت فیض احمد فیض ادارہ جنگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ وہ ہر ہفتے سنڈے ایڈیشن میں لکھا کریں گے۔ فیض احمد فیض حال ہی میں کیوبا کے دورے پر گئے تھے۔ ’’جنگ‘‘ کے آئندہ ’’سنڈے ایڈیشن‘‘ میں ان کے سفرنامہ کی پہلی قسط شائع کی جارہی ہے۔
اس اعلان کے بعد فیض کو پڑھنے والوں کو یقیناً ان کے سفرنامے اور نظم کا بے چینی سے انتظار ہوگا۔ اس کے بعد فیض احمد فیض جنگ پر چھا گئے۔ ذیل میں ان کے ایک کالم سے اقتباس، ایک نظم نذرقارئین۔
فیض کا اخبار کے لئے پہلا کالم:۔
8؍اپریل 1963ء کی اشاعت میں فیض کا پہلا کالم جو دراصل ان کے سفرنامہ کیوبا کی پہلی قسط تھا شائع ہوا۔ اخبار نے ایک عہد ساز شاعر اور ادیب کی پہلی تحریر شائع کرتے ہوئے بھی ایک تعارفی تحریر پیش کی، جو ذیل میں درج ہے۔؎
’’اس عہد کے عظیم اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی شاعر، ادیب اور صحافی حضرت فیض احمد فیض ادارہ جنگ میں شریک ہوگئے ہیں۔ فیض صاحب کو ادب میں لینن پرائز بھی مل چکا ہے اور ان کی تخلیقات کے ترجمے دنیا کے بیشتر زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ یکم جنوری کو حکومت کیوبا کی دعوت پر فیض صاحب ہوانا گئے تھے۔ آج کی اشاعت میں ان کی ایک تازہ نظم کے علاوہ ان کے سفر کیوبا کی پہلی قسط شائع کی جارہی ہے اور اب ہر سنڈے ایڈیشن میں ان کی تخلیقات شائع ہوا کریں گی‘‘۔
خود فیض نے اس موقع پر اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر کے نام جو خط تحریر کیا، اخبار نے اس کا اقتباس دو کالمی باکس میں فیض کے مضمون کے ساتھ ہی شائع کیا۔ خط میں فیض نے تحریر کیا۔
’’ہم نے تو پنجابی محاورہ میں لنگوٹ پھاڑ دیا تھا اور بالکل طے کرلیا تھا کہ اب اخبار نویسی نہیں کریں گے۔ چنانچہ گزشتہ تین چار برس میں میں نے سیاسی اور اخباری معاملات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں لی اور میرا تو one track ہے اس لئے اب یہ اخباری کاروبار مجھے بہت ہی اجنبی اور نامانوس معلوم ہونے لگا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہاتھوں میں رعشہ اور قلم میں لکنت آگئی ہے۔ چنانچہ اس صفائی معاملات کے لئے کچھ مہلت درکار ہوگئی۔ تاہم مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اگر مجھے دوبارہ اس میدان میں لوٹنا ہی پڑا تو آپ کے ساتھ شرکت کار میری پہلی پسند ہوگی‘‘۔
……سفرنامہ کیوبا……
(کیوبا ہاں امریکہ نہیں)۔ یہ نعرہ ایجاد ہونے سے پہلے کیوبا کے بارے میں جو لوگ صرف اتنا جانتے تھے کہ وہاں بڑھیا سگار بنتے ہیں اور بہت سی شکر پیدا ہوتی ہے۔ پھر یکانک دنیا بھر کے اخباروں میں کیوبا کی سرخیاں جمنے لگیں اوروہاں کے لوگوں کی مجلس احرار فیشن ڈاڑھیاں دکھائی دینے لگیں اور اس کے بعد گزشتہ اکتوبر ایک صبح یہ کھلا کہ اس دور دراز غیر معروف انقلاب کے باعث روس اور امریکہ اور ہم اور آپ سبھی ہست و نیست کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ جب سے مجھے تجسس تھا غالباً آپ کو بھی ہوگا کہ یہ کیوبا اور اس کا انقلاب کیا ہے اور کیوں ہے؟ اور ان سرخیوں اور ڈاڑھیوں اور ہنگامہ شاعری وواویلا کے پس منظر میں کس نوع کی مخلوق رہتی ہے اور کیا سوچتی ہے اور کیا کرتی ہے۔
گزشتہ ماہ کیوبائی انقلاب کی چوتھی سالگرہ کی تقریب پر مجھے اس مخلوق سے تعارف کا اتفاق ہوا۔ لطیفہ مشہور ہے کہ کسی صاحب بہادر نے چڑیا گھر میں کئی اوٹ پٹانگ افریقی جانور دیکھے۔ نہ جانے ژراف تھا یا زیبرا اور کہنے لگے ہٹائو جی ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ نئے کیوبا کو دیکھ کر سب سے پہلے کچھ اسی قسم کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار ملک، اشتراکی ملک، بادشاہتیں، آمرانہ حکومتیں ان سب کے بارے میں کوئی نہ کوئی تصور کوئی نہ کوئی نقشہ ہم سب کے ذہنوں میں موجود ہے اور ایسے بہت سے ممالک ہم دیکھ بھی چکے ہیں۔
کیوبا کا رنگ ڈھنگ ان سب سے الگ ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہےاس کے باوا آدم کا کوئی بدل ہمارےدور میں موجود نہیں مثلاً پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی گاتا ہے ۔ ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے گاتا ہے، بیرا کھانا لاتے ہوئے گاتا ہے۔ لفٹ بوائے لفٹ نیچے لاتے ہوئے گاتا ہے، لڑکی سودا بیچتے ہوئے گاتی ہے، سپاہی پہرا دیتے ہوئے گاتا ہے۔ لڑائی میں تو دیکھا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ مشین گن چلاتے ہوئے بھی ضرورتانیں اڑاتے ہوں گے۔ لیکن اس رنگیلے پن پر بھی آپ نہ جایئے کہ یہاں ہر چیز مجموعہ ٔ اضداد ہے۔ محفل شرب و نوش کے بیچ کسی کو نے سے صدا بلند ہوتی ہے کیوبا
زندہ باد کیوبا …کیوبا کیوبا کیوبا
اور یکایک سب چہرے متغیر ہو جاتے ہیں۔ فضا میں بجلیاں سی کوندنے لگتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے۔ کہ ابھی ہر طرف سن سن گولیاں چلنے لگیں گی اور پھر ایسے ہی کوئی سانولی مطربہ نہایت درد ناک آواز میں کوئی پرانا عوامی گیت کا آغاز کرتی ہے۔
مجھے پیار کی تلاش ہےاور کوئی میری دلجوئی کو تیار نہیں۔تم نے کل وعدہ کیا تھا اور انتظار میں میری نصف عمر گزر گئی ہے۔ تم چاہے کیسا گہرا نقاب پہن کر آؤ میں تمھارے کیسوؤں کی رنگت سے پہچان لوں گا۔ اس پر’’ مکرر‘‘ اور واہ واہ کا شور بلند ہوتا ہے اور دوبارہ ساغر کھنکنے لگتے ہیں۔ یہاں گھڑی گھڑی اور قدم قدم پر ایسے عجوبے ملتے ہیں۔
فیض احمد فیض کا تازہ کلام جو انھوں نے جنگ کے لیے لکھا
ایک خط
کیسے ممکن ہے یار مرے
مجنوں تو بنو لیکن تم سے
اک سنگ نہ رسم وراہ کرے
ہو کوہکنی کا دعویٰ بھی
سر پھوڑنے کی ہمت بھی نہ ہو
ہر اک کو بلائو مقتل میں
اور آپ وہاں سے بھاگ رہو
تم بھنورا بن کر جب چاہو
ہر ایک کلی کا رس چوسو
اور ساتھ ہی یہ اصرار کرو
ہر ایک تمہیں سے لپٹی رہے
اور تم پر جان چھڑکتی رہے
بہتر تو یہی ہے جان مری
جس جاسر دھڑ کی بازی ہو
وہ عشق کی ہو یا جنگ کی ہو
گر ہمت ہے تو بسم اللہ
ورنہ اپنے آپے میں رہو
لازم تو نہیں ہے ہر کوئی
منصور بنے فرہاد بنے
البتہ اتنا لازم ہے
سچ جان کے جو بھی راہ چنے
بس ایک اُسی کا ہو کے رہے
جوش ملیح آبادی
: شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی نے یکم اکتوبر 1962سے اخبار کے ادارتی صفحے پر ’’علم و فکر‘‘ کے عنوان سے نظم و نثر کا سلسلہ شروع کیا جو 1965 تک جاری رہا۔ زیر نظر کالم 21 اپریل 1964 کو لکھے ہوئے کالم سے اقتباس:
نگاہ جوش میں مقام رئیس:
جس طرح غالب کا مومن کے سلسلے میں یہ کہنا کہ اگر مومن میرا سارا کلام لے کر اپنا شعر مجھے دے دیں تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
بالکل اسی طرح جوش نے بھی اسی طرح رئیس کے ایک شعر کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا جس سے مجھے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ بات جوش نے اپنے زیر نظر کالم میں بیان کی۔ جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر من و عن درج کیا جارہا ہے۔
’’میں رئیس کے باب میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں اور بہت کچھ لکھنے کو جی بھی چاہتا ہے۔ مگر وقت کہاں سے لائوں، صبح کے تین بجے سے شام کے چھ بجے تک ایک گھنٹہ آرام کا نکال کر ، برابر کام کرتا رہتا ہوں اورکاموں کا اس قدر ہجوم ہے کہ مجھ کو اب اس بات کا یقین ہو چکا ہے بہت سے کاموں کو ناتمام چھوڑ کر میں انتقال فرما جائوں گا۔ اس عالم میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ اپنے محبوب شاعر رئیس کے متعلق جیسا کہ میرا جی چاہتا ہے ویسا لکھ سکوں۔
بہرحال رئیس کو میں جس قدر سمجھا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
1۔انہوں نے غزل کے روایتی اور روندے ہوئے کوچے میں کبھی قدم نہیں رکھا ہے۔ انہوں نے قافیوں کی انگلی پکڑ کر کبھی سفر نہیں کیا ہے۔ فرضی عشق، فرضی معشوق، فرضی رقیب، فرضی خزاں و بہار اور فرضی وصال و فراق کی فرضی محفلوں میں باقر :
شاید اُسے عشق بھی نہ سمجھے
جس کرب میں عقل مبتلا ہے
اس شعر کا سمجھنا اور سمجھ کر اس کی داد دینا آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہم نامراد ارباب ایشیا کی گھٹی میں عشق اوراس کا پیداکدہ جنون پڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے ہم عقل سے نفرت کرتے اور اُس کو ایک شیطانی وسوسہ سمجھ کر اس سے اس طرح کتراتے ہیں جیسے شکاری کی صورت دیکھ کر ہرن بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ کس سے کہا اور کس کو سمجھایا جائے کہ باوا عشق میں لاکھوں مصیبتیں سہی، لیکن عقل پر وہ بلائیں نازل ہوتی ہیں کہ اُن کے روبرو مصائب عشق پانی بھرتے نظر آتے ہیں اگر میرا تمام کلام لے کر رئیس اپنا یہ شعر مجھے دے دیں تو میں اپنے کو قارون زماں سمجھنے اور ’’ہمائے اوج سعادت بدام ما افتاد‘‘ کے نعرے لگانے لگوں۔
مجید لاہوری
مجید لاہوری (حرف و حکایت) یہ 1948کے آخر میںجنگ اخبار سے وابستہ ہوئے اور اپنے کالم کے باعث خواص و عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے کالم تااختتام حیات اخبار کی زینت بنتے رہےذیل میں ان کے ایک کالم کا اقتباس:
…عوام کے نام پر …
بڑے زور و شور سے نعرہ لگایا جاتا ہے کہ :
’’صاحب جمہوریت کی فتح ہو گئی …‘‘
لیکن ہوا کیا ؟… ہوا یہ کہ کوئی بھی رمضانی کسی عہدے یا منصب پر نہیں آیا … ادھر بھی دھن دولت والے ہیں اورادھر بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ یہ آپس میں کرسیوں کے لئے لڑتے ہیں،جو توڑ کرتے ہیں ،اکھاڑ پچھاڑ کی باتیں سوچتے ہیں … مگر سب عوام کے نام پر !
مزے کی بات یہ ہے کہ بھوکوں ،ننگوں کا دکھڑا وہ شخص رو رہا ہے جو کوٹھی میں رہتا ہے، کار میں پھرتا ہے، لنچ اور ڈنراڑاتا ہے ۔شام کو ’’جمہور کا غم‘‘ بھی غلط کرتا ہے۔ جس کی زندگی کا کوئی پہلو عوام سے نہیں ملتا۔ وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے اور عوام ہیں کہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر اس شخص کا عوام سے کیا تعلق ہے ؟
…٭…٭…٭…٭……
رمضانی کہتا ہے کہ مزدور لیڈر بننےکیلئے بھی سرمایہ دار ہونا ضروری ہے کیوں کہ دولت کے بغیر کوئی کام نہیں چلتا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ جاگیرداری ختم کرو، اسے یہ توفیق نہیں ہوتی کہ پہلے اپنی دولت اور اپنی زمین غریبوں میں بانٹ دے۔ وہ کوئلے کی تجارت میں لاکھوں کماتا ہے، کاغذ کی بلیک مارکیٹ کرتا ہے ،زمین بیچتا ہے،غرضے کہ دنیا بھر کی دولت اپنی تجوری میں سمیٹتا ہے اور اسٹیج پر آ کر کہتا ہے :
٭ہائے عوام
٭ہائے پیارے عوام
٭ہائے ہمارے عوام
٭یہ بھوکے ہیں
٭یہ ننگے ہیں
٭یہ بے گھر ہیں
٭یہ جاہل ہیں
تو عوام نعرے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں‘
’’زندہ باد !‘‘
…٭…٭…٭…٭……
کوئی نہیں پوچھتا :
٭تو بھوکا نہیں
٭تو ننگا نہیں
٭تو بے گھر نہیں
٭تو جاہل نہیں
٭تو ٹرام یا بس میں بیٹھتا
٭تو کار پر گھومتا ہے
٭تو ڈنر کھاتا ہے۔
اور تو عوام کو الو بناتا ہے … تو نے ایک کوڑی عوام کی بھلائی کیلئے کبھی نہیں دی … تو مہاجرین کا رونا روتا ہے لیکن تو نے کتنی جھونپڑیاں بنوائیں ؟کتنے مہاجر آباد کئے ؟ کتنے بھوکوں کو کھانا کھلایا ؟ کتنے ننگوں کو کپڑا دیا ؟کتنے جاہلوں کو تعلیم دلائی؟
…٭…٭…٭…٭……
جمہوریت اور عوام کے نام پر ہر ’’کالا چور ‘‘ ،ہر ’’اسمگلر‘‘ ،ہر ’’ٹیوب جی ،ٹائر جی‘‘ ہر ’’قارون‘‘ آگے آتا ہے۔ عوام پٹتے ہیں ،عوام مٹتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اٹھیں ’’کالے چوروں‘‘ کو زندہ باد کہتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭……
آخر یہ کھیل کب تک چلے گا ؟ آخر یہ طلسم کب تک ٹوٹے گا ؟آخر عوام کب تک فریب کھائیں گے ؟آخر عوام کو کب تک دھوکے میں رکھا جائے گا؟ آخر کب تک ہر ’’کالے چور‘‘ کی کامیابی کو جمہوریت کی فتح کا نام دیا جائےگا؟ ملک میں ہزارں مفلس اور مخلص لوگ موجود ہیں، ان میں قابلیت اور صلاحیت بھی ہے مگر وہ اس ’’جمہوری نظام‘‘ میں کبھی آگے نہیں آ سکتے … کیوں ؟
ابراہیم جلیس
جنگ میں ابراہیم جلیس کی آمد جس شخصیت کی تحریک پر ہوئی، وہ شوکت تھانوی تھے۔ ابراہیم جلیس نے اپنے پہلے کالم میں شوکت تھانوی کا ذکر بھی کیا، جس کا اندازہ ذیل میں درج ابراہیم جلیس کے پہلے کالم کے اقتباس سے بہ خوبی ہوجائے گا، ملاحظہ کریں۔
قدرت کی ستم ظریفی جو ہے سو ہے۔ میرے ’’جنگ پر‘‘ جانے کے بجائے ’’جنگ میں‘‘ آنے میں میرے محترم دوست جناب شوکت تھانوی صاحب کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ انہیں عرصہ دراز سے پتہ تھا کہ مجھے جنگ کا بڑا شوق ہے اسی لئے انہیں ہر وقت میرے مستقبل کے بارے میں بڑی تشویش تھی۔ چنانچہ بالآخر انہوں نے مجھے ’’تھانے‘‘ جانے دیا اور نہ میدان جنگ پر۔ بلکہ بڑے ہی مشفقانہ انداز میں نصیحت کی ’’بھیا جنگ پر جائوگے‘‘ کام آجائوگے‘‘ لیکن اگر جنگ میں آئو گے تو کالم لکھو گے، دام کمائو گے نام پائو گے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
محترم شوکت تھانوی میرے بڑے خیر اندیش بزرگ ہیں۔ اس لئے میں نے ان کی نصیحت اور ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ دونوں پر بڑی سنجیدگی سے غور کیا ۔ خدا کا شکر اور محترم شوکت تھانوی کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے جنگ پر نہ جانے دیا۔ ورنہ میرا رجحان طبع تو ایسا خطرناک ہے کہ اگر جنگ پر جاتا تو ضرور ’’ففتھ کالمسٹ‘‘ قرار جاتا اور ففتھ کالمسٹ کا انجام آپ جانتے ہیں فتھ کالمسٹ کا انجام ڈزن۔ اللہ جو کچھ کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ مجھے ففتھ کالمسٹ کے بجائے صرف کالمسٹ بنانے میں پاک پرودگار کی کیا مصلحت تھی۔ تعریف اس خدا کی جس نے مجھے بنایا۔ میں فوجی جرنیل نہ بن سکا ’’جرنلسٹ‘‘ بن گیا۔ جنگ کا ’’فائٹر‘‘ نہ بن سکا جنگ کا ’’رائٹر‘‘ بن گیا۔ جان تو بچ گئی اب میں ہوں اخبار جنگ ہے قارئین جنگ ہیں۔ اب دنیا میں ’’تیسری جنگ عظیم‘‘ ہو یا نہ ہو اپنی جگہ تو ’’جنگ عظیم‘‘ ہوگیا۔
شوکت تھانوی صاحب نے وغیرہ وغیرہ کو ایک امانت کی طرح میرے حوالے کیا ہے۔ میں اس امانت کی اہمیت خوب سمجھتا ہوں اور وغیرہ وغیرہ سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ میں ہری پور ہزارے کے اس خانساماں کی طرں نہیں ہوں جس نے اپنی مالکن سے کہا تھا ’’بیگم صاحب جی! چاول، چینی، آٹا، دال سب مل گیا صرف ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ نہیں ملا‘‘۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کیا ہے۔ میں حتی الامکان اس بات کی کوشش کروں گا کہ شوکت صاحب کی امانت میں کوئی خیانت نہ کروں تاکہ دنیا میں ان کو اور آخرت میں خدا کو منہ دکھانے کے قابل رہ سکوں۔
البتہ جہاں تک عوام کے چاول، چینی، آٹے، دال کا تعلق ہے ’’بھائو‘‘ چکانا میرا کام ہے۔ اس طرح مجھے بھی ’’آٹے دال کا بھائو‘‘ معلوم ہوجائے گا۔ عوام کی ’’شکایات‘‘ میری ’’فکاہات‘‘ بنیں گی تو یقیناً اللہ فضل کرے گا، مولا شفا دے گا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’پہلی رات‘‘ آپ بیتی کی رات ہوتی ہے۔ اسی کی رو سے ’’پہلا دن‘‘ بھی آپ بیتی کا دن ہوتا ہے۔ آج میں نے اپنی اور اپنے لوگوں کی باتیں کی ہیں تو یہ سمجھئے کہ میں نے روایت کا احترام کیا ہے اور ہم اپنی روایت نبھاتے ہیں۔ آپ سے بہت سی باتیں ہوں گی جنگ کی باتیں ہوں گی لیکن خالص دوستی کے انداز میں ابراہیم جلیس نے پہلے کالم میں شوکت تھانوی کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں ہلکی پھلکی باتیں بھی کیں۔
ابراہیم جلیس …بہ یاد عبدالمجید سالک
30؍ستمبر 1959ء کو ابراہیم جلیس نے ’’وغیرہ وغیرۂ‘‘ میں برصغیر کے نامور ادیب اور صحافی، مولانا عبدالمجید سالک کی وفات پر جو کالم تحریر کیا، وہ ایک نامور ادیب کا ایک صاحب طرز، انشاء پرداز کو خراج عقیدت تھا۔ ابراہیم جلیس کا کالم درج کیا جاتا ہے۔
آہ! مولانا عبدالمجید سالک
اردو ادب اور صحافت کی دنیا میں 27؍ستمبر 1959ء کی شام وہ منحوس شام ہے جس کے بھیانک سائے نے اردو ادب و صحافت کے ایک تابناک سورج مولانا عبدالمجید سالک کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب کردیا۔ آج صبح آنکھ کھلتے ہی پہلی نظر اخبار کی اسی کالی خبر پر پڑی کہ مولانا سالک مر گئے۔ یہ جملہ ایک زوردار گھونسے کی طرح دل پر لگا اور ایک لمحے کیلئے میں نے یوں محسوس کیا جیسے مولانا سالک نہیں مرے بلکہ میں مر گیا ہوں یا پھر مولانا سالک نہیں مرے بلکہ ’’اردو ادب و صحافت‘‘ کا ایک 65؍سالہ زریں عہد مر گیا ہے۔
آج میں بہت دل گرفتہ ہوں، میری آنکھوں میں آنسو ہیں، زبان گنگ ہے اور قلم ساکت ہے کیونکہ آج میرے سر سے میرے ذہنی استاد کا سایہ اٹھ گیا ہے اور میرے کندھے پر سے ایک ’’راہ نما مشفق ہاتھ‘‘ ہمیشہ کیلئے ہٹ گیا ہے۔ جہاں ادب اور صحافت کی محفلوں میں ایک ’’اونچی نشست‘‘ ہمیشہ کیلئے خالی ہوگئی ہے، وہاں اردو اخباروں کا ’’فکاہی کالم‘‘ بھی یتیم ہوگیا ہے کیونکہ مولانا سالک وہ پہلے اخبار نویس تھے جنہوں نے اردو صحافت میں ’’فکاہی کالم‘‘ کو جنم دیا تھا۔
دنیا سے جانا سبھی کو ہے چنانچہ مولانا سالک بھی چلے گئے لیکن وہ سالک جو ایک کتاب ہے، وہ سالک جو ایک اخبار ہے اور وہ سالک جو ایک قلم ہے وہ ہمیشہ ابدالآبادڈ تک اسی دنیا میں رہے گا۔ اس لئے سالک مر کر بھی نہیں مرے ہیں۔ 65؍سال تک شب و روز ادب و صحافت کے چراغ کو اپنے لہو سے جلائے رکھنے والا سالک اگر تھک کر ہمیشہ کیلئے آرام کیلئے فردوس بریں چلا گیا ہے تو ہمیں اس کے آرام میں خللل نہیں ڈالنا چاہئے۔
آج دنیا سے سالک کا جنازہ جارہا ہے
سالک کا جناز ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لئے آئو ساتھیو…! آئو کہ ہم بھی دنیا کے آخری دروازے تک چلیں اور فردوس بریں جانے والے سالک کو ’’آنسوئوں کی کلیاں‘‘ پیش کریں اور اسے الوداع کہیں کہ …
بشد سالک راہ بزم بہشت 1379ھ
رئیس امروہوی……چھان پھٹک
رئیس امروہوی کو سیاسی قطعہ نگاری کا باوا آدم کہاجاتا تھا۔ جنگ میں قطعات کے علاوہ ہر ہفتے ایک کالم بھی مختلف عنوان سے لکھتے تھے ذیل میں ان کا ایک کالم کا اقتباس ملاحظہ کیجئے جو 8 اگست 1960کو چھان پھٹک کے عنوان سے شائع ہواتھا۔
…٭٭……٭٭…
’’انقلابی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں ’’اسکریننگ‘‘ یعنی چھان پھٹک کاجو دور شروع ہو ا تھا۔ وہ اب تک جاری ہے۔اسکریننگ کی چھلنی میں پہلے سرکاری ملازمین کو چھاناگیا صاف سادہ چھن کر نیچے پہنچ گیااور جو برادہ رہ گیا تھا اسے حکومت نے اٹھا کر پھینک دیا۔ سرکاری ملازمین کے بعد لیڈروں اورجماعتوں کی چھان بین یا چھان پھٹک شروع ہوئی۔ ان میں سے کوئی بھی کام کا نہ نکلا اور تمام ر وڑے بین بین کر باہر پھینک دیئے گئے۔ اور اب بنیادی جمہوریتوں کے پنچوں اور سرپنچوں کی ’’اسکریننگ‘‘ شروع ہوئی ہے۔ اور پتہ چل رہا ہے کہ بہت سے بھیڑیئے، بھیڑوں کا لبادہ اُوڑھ کر’’ بیسک ڈماکریسی‘‘ کے حلیم و مسکین گلے میں آگھسے ہیں۔ ایک صاحب کے متعلق ہمیں خود معلوم ہے کہ فرنگیوں کے زمانے سے لے کروہ اب تک کسی نہ کسی عہدے پر ضرور سواررہے ہیں۔ انہوں نے نہ جانے اپنی ’’پبلک لائف‘‘ کا آغاز کہاں اور کس طرح کیا تھا۔ ہمیں توصرف اتنا معلوم ہے کہ 1946ء میں وہ جناب کلکٹر صاحب بہادر کے خاص جی حضوریوں میں تھے اور یہ ’’رُتبہ ٔ بلند‘‘ انہوں نے وار فنڈ میں بہت بڑا چندہ دے کر حاصل کیاتھا۔ چندئہ جنگ کی رقم میں حضرت نے بلیک مارکٹنگ کی اس کمائی سے حاصل کی تھی۔ جس پر دورانِ جنگ کوئی پابندی نہ تھی۔یعنی
مالِ حرم بود ۔ بجائے حرام رفت
چور بازاری کی کمائی انگریزوں کے کا م آئی۔ خیر کوئی شکوہ شکایت کی بات نہیں ۔ تقسیم سے قبل ان دوراندیش بزرگ نے محسوس کیا کہ غیر ملکی حکومت کے قدم لرز رہے ہیں اور اب کانگریس و مسلم لیگ برسراقتدار آنے والی ہیں چنانچہ انہوںنے دونوں سے پینگیں بڑھانی شروع کردیں۔
کانگریسیوں کو کھدر پہن کر خوشنود کیا اور مسلم لیگیوں کو نیشنل گارڈ کی وردیاں بنواکر، تقسیم سے دوچار ہفتے قبل یہ بزرگ ۔ مغربی پاکستان چلے آئے۔ اور اپنی اسی دُور اندیشی کی بدولت متروکہ جائیدادوں کے بہت بڑے حصے پر پیشگی قابض ہوگئے۔ یہ زمانہ مسلم لیگ کے عروج و شباب کا رنامہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے کو مسلم لیگی رہنمائوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اور رفتہ رفتہ مرحوم لیاقت علی خاں کے ساتھ ان کے فوٹو کھنچنے لگے۔
قائد ملت کی شہادت کے بعد حضرت نے خواجہ ناظم الدین صاحب سے تجدید یت کی اور مرحوم غلام محمد کے سلامیوں میں شامل ہوگئے۔ جب غلام محمد صاحب نے بیک جنبش قلم خواجہ صاحب کو مسندِ وزارت سے معزول کرکے جناب محمد علی بوگرہ کو تخت اقتدار پر لابٹھایا تو انہوں نے خواجہ صاحب کی معزولی پر مٹھائی تقسیم کی اور اس عہد کے گورنر جنرل کے دربار میں حاضر ہوکر سجدئہ سہو ادا کیا اور ۔ الغرض مختلف وزارتوں کے عہد میں مطابق حال پینترے بدلتے ہوئے یہ صاحب انقلابی حکومت کے عہد میں وارد ہوئے اور اب بیسک ڈماکریسی کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔
اگر یہ داستان اس موقع پر صرف ایک شخص کی مناسبت سے بیان کی گئی ہے لیکن یہ کسی ایک شخص کا ذکر نہیں۔ بقول شخصے بہت سے شخصوں کاذکر ہے۔ جو قومی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کا نہ کوئی دین ہے نہ ایمان۔ دین ہے تو عہدہ اور ایمان ہے تو منصب مارشل لاء نے جہاں اور بہت سے گندے نالے صاف کرائے ہیں۔وہاں خدا اور رسولؐ کے لئے بیسک ڈماکریسی کی نہر کی بھی صفائی کرادیں۔ جس میں بہت سا کوڑا کرکٹ جمع ہو رہاہے۔ اگر اس موقع پر بنیادی جمہوریتوں کو محاسبے کی چھلنی میں نہ چھانا گیا تو اندیشہ ہے کہ انگریزی عہد کی زہرآلود تلچھٹ ایک جگہ جمع ہوکر قومی زندگی کے سرچشموں کو مسموم کردے گی۔‘‘
انعام درانی… (تلخ و شیریں)
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
بزرگوں کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ آنے والے زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہوں گی بلکہ لوگ دو جوتے اس سے آگے بڑھ جائیں گے، ٹولیاں بنائیں گے، گروہ بندی کریں گے، گروپ جمع کریں گے اور یہ ٹولیاں یہ گروہ، یہ گروپ اتنی افراط سے بنائے جائیں گے کہ ٹولی ہوگی اجتماع نظر نہ آئے گا۔گروہ بنے گا اور اسے یہ معلوم نہ ہوگا کہ کس لئے بنایا گیا ہے۔گروپ وجود میں آئے گا اور اسے یہ پتہ نہ چل سکے گا کہ اس کی تخلیق کس تقریب میں کی گئی ہے۔
فرقہ بندی اور ذاتوں کا پھر بھی کوئی پس منظر ہوتا ہے۔ کوئی تاریخی اسباب ہوتے ہیں۔ مگر گروپ محض اس لئے بنائے جاتے اور بنائے جاتے ہیں کہ زمانے میں پنپنے کا اب یہی ذریعہ باقی رہ گیا ہے۔
جب کوئی اکیلا رہ جاتا ہے نہ کوئی سنگی رہتا ہے، نہ ساتھی، نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے، نہ رونے والا، نہ گانے والا، نہ جنازے کو کاندھا دینے والا تو وہ گروپ بنا لیتا ہے اور جس طرح چوروں کی ٹولیاں آپس میں مفاہمت کر لیتی ہیں، گروہ ڈاکے ڈالنے سے پہلے آپس میں مال غنیمت کی تقسیم پر متفق ہو جاتے ہیں اسی طرح گروپ بھی پہلے سے فیصلہ کر لیتا ہے کہ کرسیاں کس طرح تقسیم ہوں گی، عوام کا بٹوارہ کیسے ہوگا۔
پہلے گروپ بنتے تھے چوری چوری۔
اب ڈنکے کی چوٹ ان کا اعلان ہونے لگا۔ پہلے عوام کو خوش کرنے اور خوش رکھنے کے لئے ان کو دلچسپ نام دیئے جاتے تھے۔
کسی کا نام ہوتا تھا ’’آزاد گروپ‘‘، کسی کا عوامی گروپ۔
کسی کا ترقّی پسند گروپ۔
ان ٹولیوں میں شامل تو کوئی نہ ہوتا تھا مگر ہر شخص اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا تھا کہ میں نہیں تو میرا پڑوسی ضرور ان میں شامل ہوگا۔
پھر یہ گروپ بنتے ہی بکھرنے لگے۔شیرازہ بندی سے پہلے انتشار ہونےلگا۔ عوام نے یہ سمجھ لیا کہ نہ کچھ بنتا ہے نہ بگڑتا ہے اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔ چائے خانوں میں بات کرنے کے لئے ایک موضوع مل جاتا ہے۔
نیاز فتح پوری کی شمولیت کا اعلان… (رنگارنگ)
حضرت نیاز فتح پوری کی روزنامہ جنگ میں شرکت:
برصغیر کےمشہور نقاد، ادیب اورمصنف حضرت نیاز فتح پوری نے روزنامہ جنگ سے وابستگی منظور فرمالی ہے، آپ ہفتہ میں ایک مرتبہ مختلف علمی و ادبی عنوانات پر دلچسپ عوامی اندازمیں اپنے خیالات ظاہر فرمایا کرینگے۔
ان کا پہلا کالم ’’رنگارنگ‘‘ کے عنوان سے 31؍اکتوبر کوشائع ہوا۔ذیل میں شائع ہونے والے پہلے کالم سے اقتباس:
’’کل ایک صاحب تشریف لائے اور تابڑ توڑ سوالوں کی بوچھار مجھ پر شروع کر دی۔(1) یہ دو مصرعے کس کے ہیں۔ (2) نان خطائی کی اصلیت کیا ہے۔ (3) ملا دو پیازہ کے جھگڑے بیربل کے ساتھ کس حد تک صحیح ہیں۔(4) فارسی میں مثنوی کا آغاز کب سے ہوا اور ’’مامق و عذرا‘‘ کی داستان کیا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں تو میں نے بتا دیا کہ ایک مصرع قتیل کا ہے اور دوسرا وحشی کا۔ دوسرے سوال کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ جب آپ نان خطائی میرے سامنے لائیں گے، اس وقت غور کروں گا۔ تیسرے سوال کے جواب میں، میں نے انہیں بتایا کہ ملا دو پیازہ کے زمانہ کو بیربل یا اکبر سےکوئی تعلق نہیں۔ یہ نظام الملک آصف جاہ کا مصاحب تھا اور سفر و حضر میں اس کے ساتھ رہنا تھا۔ عبدالمومن نام تھا اور وطن دہلی۔ باپ کا نام عبدالولی تھا۔ ایک بار جب نظام الملک بھوپال سے قریب دریائے نربدا کو عبور کر رہا تھا تو ایک گائوں ہنڈیاں میں قیام کا اتفاق ہوا۔ ملا دو پیازہ کو یہ جگہ بہت پسند آئی اور اپنے آقا سے کہا کہ ملا دو پیازہ کو اب تو ہنڈیا ہی میں رہنے دیجیے۔ نظام الملک نے اس کی بات مان لی اور اسے وہیں چھوڑ کر چل دیا لیکن یہ گائوں اس کی جاگیر میں دے دیا۔ ملا اور اس کی بیوی دونوں نے یہیں انتقال کیا اور ان کا حجرہ جس میں یہ دونوں مدفون ہیں اب (بھی) موجود ہیں۔ عہد اکبری کے ملا دو پیازہ کا نام عبدالقادر تھا اور اس کا ہنڈیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چوتھے سوال کا جواب تفصیل طلب تھا اس لئے میں نے ان سے کہہ دیا کہ اس کے لئے آپ39اکتوبر کے جنگ کا انتظار کیجیے۔‘‘
……٭٭……٭٭……
جمیل الدین حالی ……(نقارخانے میں)
عالی کی اخبار سے قلمی وابستگی تو ساٹھ کے عشرے میں قائم ہوئی، تاہم قلبی وابستگی تقسیم ہند سے پیشتر ہی دلی سے قائم ہوچکی تھی۔ ذیل میں ان کے کالم سے دو اقتباسات:
٭… وہ غیراختلافی مؤقف اور ردّعمل
ایک نعرہ، ایک پیغام،ایک مؤقف ایسا سامنے آیا جو ہمیں ہمارے بہت سےبنیادی مسائل کےحل کے لیے تیار کرسکتا ہے۔ وہ نعرہ جو یہ عاجز تقلید بزرگان اور خود اپنی تفہیم حقائق کےمطابق برسوں سے لگارہا ہے… وہ ہے:
قومی یک جہتی
قومی یک جہتی
قومی یک جہتی
قومی یک جہتی ایک پرانا مطالبہ، نعرہ، مؤقف، پیغام سہی ہمارے بیش تر مسائل کا حل اب بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ یہ اک جذباتی نعرہ نہیں، ایک لائحہ عمل ہے۔ اگر مشترکہ مسائل پر پوری قوم یک جہتی کے ساتھ سوچیے تو ان کے حل آسان ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو پس پشت ڈال دیں اور تفریق سے کام لے تو حل دور چلے جاتے ہیں، پرانے مسائل پریشان کرتے رہتے ہیں اور نئے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ قومی یک جہتی کا تصور مختلف مکاتبِ فکر، مختلف سیاسی پارٹیوں کے وجود و جواز کی نفی نہیںکرنا۔ اختلاف اور اظہار اختلاف جمہوریت کی جان ہیں مگر بالکل بنیادی معاملات میں ان کی ضرورت اور گنجائش نہیں۔ مثلاً اس بات پر کسی پاکستانی کو اختلاف نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی ہونی چاہئے۔ جب بنیادی تصور پر اختلاف نہیںتو حکمتِ عملی کے مسائل سامنے آتے ہیں۔
اس میں یقیناً اختلاف جائز ہے۔ قومی یک جہتی کا تصور…اور اس کی ضرورت…خود وجودِپاکستان سے وابستہ ہے۔ اگر پاکستان کو (ان شاء اللہ) برقرار رہناہے تو قومی یک جہتی کے ساتھ۔ اور قومی یک جہتی کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیںتو اقتصادی خوش حالی کی عمارت بھی انہی پر تعمیر ہوسکے گی ورنہ ہم اگلے قرنوں میں بھی یہی بنیادیں ڈالتے رہے تو ان پر تعمیرات اٹھانے میں اور بھی دیر لگتی جائے گی…کہیں آج کا تیز رفتار وقت ہمیں بہت پیچھے نہ چھوڑ دے…
٭…خلفشار، انتشار، اضطرار
بس ایک مستقبل ہے جس سے کم ازکم مجھ جیسوں کا بھروسا نہیں اٹھا ہے… یہ بھی شاید اس لیے سوچنا پڑتا ہے کہ بہرحال امید جو ہے وہ ناا میدی(Despondency)سے بہتر ہے، یہ سب کیوں ہوا، کیسے ہوا، اس کا ذمہ دار کون کون ہے، یہ بقراطی بہت ہوچکی ، بہت ہوتی رہتی ہے، بہت ہوتی رہے گی۔ اس وقت میں خلاصہ نویسی کے موڈ میں ہوں۔بقول کسے:
شعر میں کہتا ہوں…ہجے تم کرو
لیکن مستقبل کی امید کس سے باندھی ہے۔ آخر سوچ بچار توانسانوں کے حوالے سے ہوگی نا! بھئی ظاہر ہے کہ مجھے تو اکیسویں صدی دیکھنا نہیں ہے۔ وہ تو نئی نسل کی امانت ہے۔ اب ساری امید نئی نسل سے ہی باندھی جاتی ہے۔
کس نئی نسل سے؟ وہ جو دیہات میں ہے اور ان پڑھ رکھی جارہی ہے( خواندگی، صرف انگوٹھا لگانے کی حد تک خواندگی بھی پچیس فی صد) یا اس نئی نسل سے جو قلم کاکام کلاشن کوف سے لیتی ہے؟
ہائے ہائے !! چلیے علامہ کے ساتھ ہم اتنی زیادتیاں کرتے ہیں۔ کچھ تصرف بھی سہی۔
تری دعا کہ تجھے اسلحہ بہم پہنچے
مری دعا کہ ترے ہاتھ میں قلم آئے
عبدالقادر حسن (غیرسیاسی باتیں)
27اکتوبر1983کو شایع ہونے والا عبدالقادر کا کالم’’یہ ہیلی کاپٹر اُڑتا ہے‘‘کو شائع ہوا۔اس کالم سے ایک اقتباس آج کے تناظر میں پڑھیں ایسا لگے گا کہ انہی دنوں میں قلم بند کیا گیا ہے۔
چھ دہائیوں پر محیط ان کا صحافتی کیرئیرتھا۔وہ لیل ونہار، نوائے وقت، ندائے ملت، جنگ، امروز،ایکسپریس سے وابستہ رہے.
وہ لوگ جو واردانِ کوچۂ سیاست ہیں ان میں سے کچھ ملک و قوم کے مفاد کی خاطر ان دنوں حکومت سے مذاکرات کررہے ہیں۔
معاملہ کی صورت کسی بھی وجہ سے اس قدر بگڑ چکی ہے کہ کل کے بدمعاش اچانک آج کے شریف بن گئے ہیں۔ کل کے ظالم آج کے مظلوم ہیں اور کل کے چور ڈاکو آج کے سادھو بن گئے ہیں۔ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہوگیا ہے۔ چہرے بدل گئے ہیں الفاظ کے معانی بدل گئے ہیں لہجوں میں تبدیلی آ گئی ہے اور کل کی پہچانی ہوئی صورتیں آج پہچانی نہیں جاتیں۔ ابھی کل تک جن لوگوں کی زبان سے جن لوگوں کے بارے میں جو کچھ سُنا جا رہا تھا اور جن کے خلاف انہوں نے تحریک چلائی بھی اور کاری زخم کھائے تھے آج وہی لوگ انہی لوگوں کے بارے میں بالکل دُوسری باتیں کر رہے ہیں۔
میرا جی چاہتا ہے کہ ان بدلے ہوئے سیاستدانوں کے بیانات پرانے اخباروں سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دوں اور پوچھوں کہ جناب آپ نے اپنی شخصیت بدل لی ہے یا آپ اگر وہی ہیں تو یہ باتیں کس کی ہیں۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ وہی کہنے والے ہیں وہی سُننے والے ہیں مگر باتیں وہ نہیں ہیں۔ اگر آپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو پھر کیا آپ کے مخاطب بدل گئے ہیں اور کیسے بدل گئے ہیں۔ کون سا معجزہ ہوا ہے اور کس کی کرامت ظاہر ہوئی ہے کہ چور قطب بن گئے ہیں مگر آج یہ سب کہنے کی باتیں ہیں لیکن کوئی بھی سُننے پر تیار نہیں ہے۔ سچ اور جھوٹ کی تمیز اُٹھ جانے والی بات ہوگئی ہے۔
ابن انشاء ……… (دخل در معقولات)
اردو ادب کی تاریخ میں ابن انشاء ممتاز مزاح نگار، کالم نویس، سفرنامہ نگار اور شاعری میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ساٹھ کے عشرے کے اواخر میں جنگ اخبار سے وابستہ ہوئے تو ان کے کالم بہ عنوان ’’دخل درمعقولات‘‘ کو بھی ویسی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جیسی ان کے سفرناموں اور شاعری کو۔ ابن انشا اپنی وفات (1978) تک اخبار کے لیے کالم لکھتے رہے۔ کسی ایک کالم کا انتخاب کرنا یقیناً مشکل ہے۔ ذیل میں ان کے ایک کالم کا اقتباس اور آخری نظم جو انہوں نے لندن سے لکھ کر بھیجی تھی، نذر قارئین ہے۔
26 دسمبر 1971ء کو تحریر کیے گئے کالم سے اقتباس:
یہ بی جی ہے۔ وہ بابا جی ہیں۔ وہ چاچا جی ہیں:
وہ بی بی۔ بی بی جی کہلاتی ہے
یہ بی بی۔ بی بی سی کہلاتی ہے
جب وہ بی بی بولتی ہے
یہ بھی چونچ کھولتی ہے
جی جی کرتی ہے
اس کا دم بھرتی ہے
وہ بی بی جھوٹ بولنے میں شیر ہے
یہ سیر کی بھی سوا سیر ہے
خواجے دا گواہ ڈڈو
ڈڈو دا گواہ خواجہ
یہ ایک چاچا ہے
یہ پیسے والا چاچا ہے
یہ ڈنڈے والا چاچا بھی ہے
اسی نے بی بی جی کو پیسہ کھلایا تھا
بلکہ چاچا جی بنایا تھا
اب بی بی جن کا دم بھرتی ہے
چائیں چائیں کرتی ہے
چاچے کو غصّہ آتا ہے
چاچا چپت لگاتا ہے
بی بی۔ سی سی کرتی ہے
دنیا۔ چھی چھی کرتی ہے
…٭…٭…
ابن انشاء کی آخری نظم:
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
ہاں! سود بیاج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے؟
کیوں اس مجمع میں آئی ہو؟
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
تم جاؤ! ان سے بات کریں
کیا پانچ برس؟
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
جینے کی ہوس نرالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟
پھر تم ہو ہماری کون بھلا؟
کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟
تم سوہنی ہو، من موہنی ہو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
"لو ا پنے جی میں اُتار لیا
اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے؟
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
دس پانچ برس، دو چار برس
ہاں! اور خراج بھی دے لیں گے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے؟
کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لائی ہو؟
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
سب عمر کی نقدی ختم کیے
تب سمجھو جلد جدائی ہو
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
اور جھولی کو پھیلایا ہے
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟
کیا پاگل ہو؟ سودائی ہو؟
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے؟
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے؟
تم جا کر پوری عمر جیو
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
تھے جتنے ساہوکار، گئے
یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو ہم نے تم سے اُدھار لیا"
منوبھائی……… (گریبان)
میرا آخری کالم اور وراثت
بہت عرصہ قبل میرے محسن و محترم میر شکیل الرحمٰن نے ایک خصوصی کالم لکھنے کے لئے مجھ سے خود فرمائش کی۔ میں نے تحریر کا عنوان پوچھا تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے تین الفاظ کہے ’’میرا آخری کالم‘‘ میں نے پر تبسم انداز میں وضاحت چاہی تو انہوں نے کہاکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آپ کے بے شمار چاہنے والے ہیں جو آپ کی تحریروں کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ایسے قدردانوں کے لئے ایک کالم ایسا بھی ہونا چاہئے جو آپ کے بعد خصوصی طور پر شائع ہو۔
اب جبکہ جسم کی اندرونی پیچیدگیوں نے کافی عرصہ سے چھپڑ پھاڑ جاری کر رکھی ہے بلکہ اب خاصی شدت بھی اختیار کر لی ہے تو میں واضح طور پر محسوس کر رہا ہوں کہ اب میرا قلم بھی ’’فل اسٹاپ‘‘ کا منتظر ہے چونکہ میں خود بھی ناسازی طبع سے دوچار ہوں تو اسی کی مناسبت سے اس کیفیت میں مبتلا دوستوں کے لئے آج حوصلے، خوشی اور امید کی بات کروں کا اور خدمت کی مشعل اہل معاشرہ کے سپرد کرو ں گا۔
ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں ایک لاکھ قسم کے مختلف جسمانی امراض بنی نوع آدم کی نسل کو مٹا رہے ہیں جس کا ذریعہ وہ جراثیم ہیں جو بذریعہ فضا یا خوراک جسمانی نظام کو متاثر کرتے ہیں جس کے بعد علاج و معالجہ اور مہنگی ترین ادویات کا ایک امتحان زندگی کی بقاء کے لئے شروع ہو جاتا ہے لیکن کوئی بھی بیماری چاہے قابل علاج ہو یا لا علاج دونوں صورتوں میں مریض کی اصل دوا اور حقیقی حوصلہ وہ افراد ہوتے ہیں جو محبت اور شفقت کے ساتھ سہارا دیتے ہیں اور یہ سہارا ہی اصل زندگی ہے۔
میں خود کو خوش نصیب کہوں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ قدرت نے مجھ سے جو کام لیا وہ ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ زندگی کی دو دہائیاں مریضو ں کی خدمت کرکے محسوس کرتا ہوں کہ میں نے دنیا میں سکون اور آخرت میں جنت کا سودا کیا ہے۔ تہائی و محض ایک وہم ہے انسان کا ورنہ رشتے ناطے ہر وقت ہمارے اردگرد ہی تو ہیں۔ دل کی آنکھ سے دیکھو تو کوئی بھی پر ایا نہیں سب ہی تو اپنے ہیں کیونکہ دل میں خلوص ہو تو سبھی رشتے زندہ ہیں ورنہ موت انسان کے مرنے سے نہیں بلکہ احساس کے مرنے سے ہوتی ہے۔ بس اسی احساس کو ہم سب نے مل کر زندہ رکھنا ہے۔ اگر ہمیں ہمارے عہدوں اور اختیارات نے بڑا بنایا ہے تو ہمیں اپنے چھوٹوں کا خیال کرنا ہے اور ان کے لئے خود وقت نکالنا ہے ورنہ اگر وقت خود نکل گیا تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔
میں بھی روزانہ سندس فائونڈیشن میں تھیلے سیمیا ، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر کے مریض بچوں کیلئے وقت نکالتا ہوں، بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے خود کبھی بچہ بن جاتا ہوں۔ گھنٹوں ان کی بے معنی باتوں کو سن کر ان کو بولنے کا اعتماد دیتا ہوں۔ ڈاکٹرانہیں دوا دیا ہے میں انہیں دعا دیتا ہوں۔ ڈاکٹر والدین کو مشورہ دیتاہے، میں انہیں حوصلہ دیتا ہوں اور یوں ایک دن اچھی امیدوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ میں ان چھوٹوں کے لئے بڑا ہونے کے فرائض تو ادا کر رہا ہوں لیکن میری مسلسل علالت شاید مجھے ذمہ داری کے اس بوجھ اور زندگی سے آزاد کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے سندس فائونڈیشن کے مریضوں کے لئے اپنی زندگی کا باقی ماندہ حصہ وقف کر رکھاہے جوکہ میری موت تک چلے گا لیکن میں یہاں اپنی اس خواہش کو بھی اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ جس طرح وراثتی بیماریاں دوسری نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں بالکل اسی طرح اچھائیوں کو بھی دوسری نسلوں تک منتقل ہونا چاہئے یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے اس مقصد میں بھی میر اگلی نسل شامل ہو جائے اور میرے گھرانے کے افراد بھی ان موذی امراض کے خلاف اپنا کردار ادا کریں اور میری اس وراثت کے حصے دار بنیں جو انسانیت کی اصل معراج ہے کیونکہ زندگی کی اصل لذت تو مخلوق خدا کی خدمت میں ہی ہے۔ سندس فائونڈیشن کے مشن کی کامیابی صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ سارے معاشرے کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ عوامی امداد کے ذریعے چلنے والے یہ ادارہ 6000سے زائد مریض بچوں کو مفت علاج فراہم کر رہا ہے اور تھیلے سیمیا سینٹرز کی کامیابی کے بعد لاہور میں اب ایک اور بڑے جنرل اسپتال کا آغاز کرنے جا رہا ہے جہاں مریضوں کو نہ صرف بلڈ ٹرانسفیوژن بلکہ بون میرونٹرانسپلانٹ، ڈائیلاسز، گائنی اور دیگر طبی شعبہ جات کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
یہ میرا ایک دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر یقینا بہت جلد ملے گی۔ جو لوگ مجھے منو بھائی کہتے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں خاکسار تو کچھ بھی نہیں ہوں منو بھائی تو ایک نظریئے، خدمت، محبت اور احساس کا نام ہے اور اگر میرے چاہنے والے میرے اس نظریئے کے حامل ہیں تو میں اکیلا نہیںآپ سب بھی منو بھائی ہیں اور آپ سب ہی سندس فائونڈیشن کے حقیقی جانشین ہیں۔
مولاناکوثر نیازی…… (مشاہدات وتاثرات)
کچھ سفر لندن کے بارے میں :
مولانا کوثر نیازی 1934ء میں پیدا ہوئے اصل نام محمد حیات خان تھا ،مذہبی اسکالر اور مقرر تھے انہوں نے سیاست میں اپنا نام بنایا۔ 1974ء سے 1977ء کے دوران وفاقی وزیر رہے۔1976ء تک مذہبی اور اقلیتی امور کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس کے بعد انہیں وفاقی وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تھا۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ان کی شاعری کے تین مجموعے اور نثر کی چوبیس کتابیں شائع ھوئیں-19 مارچ 1994 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے- روزنامہ جنگ میں ان کے کالم ’’مشاہدات و تاثرات کے نام سے شائع ہوتے تھے۔ذیل میں ان کے کالم سے ایک اقتباس:
پی آئی اے کے طیارے میں میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا نوجوان بڑا ہی اضطراب نظرآرہا تھا میں میں نے اس سے جب دریافت کیا تو وہ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکا۔ میں نے سوچا شاید اسے لندن ایئرپورٹ پر امیگریشن کا خوف ہو مگر اس کے پاس تو برطانوی پاسپورٹ تھا میں جب بیرون ملک پاکستانیوں کے امور کی دیکھ بھال کر رہا تھا تواس زمانے میں برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے کابینہ نے ’’دہری قومیت‘‘ کی منظوری دی تھی۔
اس سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ پاکستانی قومیت کے ساتھ ساتھ برطانوی قومیت بھی اختیار کر سکتا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی حد ملک نے اپنے شہریوں کو یہ سہولت نہیں دی۔ پھریہ نوجوان اس غیر معمولی اضطراب میں کیوں مبتلا تھا اس کا راز اس وقت کھلا جب ہم لندن کسٹم سے گزر رہے تھے۔ یہاں دو چینل بنے ہوئے ہیں اگر آپ کے پاس کسٹم کے لائق کوئی چیز نہیں تو آپ بے دھڑک اس مخصوص رستے سے گزر جائیے۔ یہاں کسٹم کے کارکن موجود ضرور ہیں لیکن آپ کو کوئی نہیں ستائے گا۔ ہاں اگر آپ غلط چیزیں لئے جا رہے ہیں تو وہ وضع قطع، حرکات، سکنات، چال ڈھال اور بعض اوقات اپنی خفیہ اطلاعات سے فوراً تاڑ لیں گےکہ دال میں کچھ کالا ہے، یہ نوجوان بڑی پھرتی سے اس رستے پر روانہ ہو ا لیکن جب ہم پہنچے تو اس کی تلاشی لی جارہی تھی اور ایک پیکٹ کھولا جارہا تھا جسے بڑی خوبصورت ڈوری سے باندھ کر ایک حسین تحفے کی شکل دے دی گئی تھی اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا خدا کے لئے میری کچھ مدد کرو۔ مجھے راولپنڈی سے ایک رشتہ دار نے کسی کو دینے کے لئے یہ گفٹ پیکٹ دیا تھا مجھے معلوم نہ تھا اس میں کوئی ’’قابل اعتراض چیزہے۔‘‘میں نے کسٹم والوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس میں چرس ے اس معلوم نہیں اس نوجوان کو واقعی کسی نے دھوکا دیا تھایا وہ خود اس گھنائونے جرم میں شریک تھا۔ بہرحال آپ اس کے اضطراب کی وجہ میری سمجھ میں آچکی تھی۔
انگلستان میں قانونی حیثیت سے موجود تارکین وطن کی تعداد کوئی بیس اور تیس لاکھ کے درمیان ہوگی۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا اندازہ لگانا مشکل ہے یہ وہ لوگ ہیں جو عارضی ویزے پر انگلینڈ جاتے ہیں مگر پھر واپس نہیں لوٹتے وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پہلے مستقل قیام کا ایک رستہ یہ بھی تھا کہ ایسے لوگ کسی انگلش نیشنل ہم وطن سے جھوٹ موٹ یا سچ مچ شادی رچالیتے تھے اور اپنے رفیق ِ حیات کے لئے برطانوی شہریت کے دروازے ان پر کھل جاتے تھے اب اس پر پابندی ہے ہوم آفس بڑی مہارت سے ایسے تما م معاملات کاجائزہ لیتا ے اور چور دروازے سے کسی کیلئے برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنا اب قریب قریب ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ پاکستانی یہاں تین ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں ہوں گے۔
بڑے محنتی ، خدا کے فضل و کرم سے خوشحال اور صاحب ِ ثروت مگر جب کبھی کسی پاکستان سے چرس کی اسمگلنگ جیسا واقعہ ہو جاتا ہے پوری کمیونٹی کےسرشرم سے جھک جاتے ہیں۔ پریس ایسے واقعات کو خوب اچھالتا ہے اور اس طرح برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو بیوی بچوں تک کو اپنے پاس بلانے میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت برٹش پاسپورٹ رکھنے والے ہزاروں پاکستانیوں کے لواحقین پاکستان میں برطانوی اجازت ناموں کے منتظر بیٹھے ہیں مگر بعض لوگوں کی بداعمالیوں نے شکوک و شبہات اتنے بڑھا دیئے ہیںکہ حقیقی اور جائز حقدار بھی لندن پہنچتے ہیں تو ایئر پورٹ ہی سے انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے بعض غلط کاروں نے خواتین کو منگیتر کا نام دے کر پاکستان سے جوئے کا کاروبار شروع کیا تو برطانوی حکومت نے ایئرپورٹ پران کے کنوارے پن کی تصدیق کیلئے ٹیسٹ کا ایک شرمناک ادارہ قائم کر دیا اس کے تحت زیادہ تر پاکستان اور بھارت آنے والی منگیتر خواتین کی دوشیزگی کو جانچا پرکھا جاتاہے۔
بھارتی حکومت نے اس پر برطانیہ سے زبردست احتجاج بھی کیا ہے۔ حکومت پاکستان کا ردعمل اس سلسلے میں تاحال سامنے نہیں آیاسامنے آیا ہو تو ممکن ہے میرے نوٹس میں نہ ہو۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب کوئی قومی کیرکٹر واضح طور پر ممتاز اور مستحق نہ ہو اور کسی قوم کے لوگ غارضی خاندان کے لئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں تو انہیں بیرون ملک ایسے ہی توہین آمیز اور لائق نظرین سلوک سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔