(گزشتہ سے پیوستہ)
خیر پور کے حوالے سے ممتاز سفارت کار احمدعلی سروہی کا تذکرہ ہو چکا، سندھی زبان کے خوبصورت شاعر ممتاز ملک کی بات ہو چکی، اسی طرح سچل سرمست کا ذکر ہو چکا مگر ابھی بات مکمل کہاں ہوئی ہے کہ خیر پور بڑا ضلع ہے۔ یہ واقعتاً صوفیا کی دھرتی ہے۔ صوفی شاعر روحل فقیر (کنڈڑی شریف) کے نام سے مشہور ہے، ایرانی پیر یعنی پیر کوکو، شادی شہید، لونگ فقیر، شاہ شہنودو، مینگھو فقیر، نصیر فقیر جلالانی، مخدوم اسماعیل پریالو سمیت ضلع خیر پور میں کئی درگاہیں ہیں۔ اگر سیاسی و سماجی جدوجہد کے حوالے سے تذکرہ چھڑ جائے تو پھر مرحوم جسٹس (ر) علی اسلم جعفری، لالہ شاہ محمود درانی، کامریڈشاہین گورایہ، محمد یحییٰ بھٹو، عبدالستار مہر، امیر بخش شیخ، زین العابدین پیرزادہ، امید خیرپوری، یوسف جعفری، حال حیات شاہنواز راجپر، فیض علی کٹوہر، مختیار حاجانو، امیر گل کٹوہر اور لطف اللہ قلپوتو کے ناموں کے بغیر خیر پور کی سیاسی وسماجی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
تعلیم اور ادب کے شعبے میں اگر مرحوم استاد شعاب الدین کٹوہر، عطا محمد جامی، مولا بخش کٹوہر، ڈاکٹر تنویر عباسی اور مرحوم عبدالرحیم کا نام نہ لیا جائے تو پھر بھی خیرپور کی بات مکمل نہیں ہوتی۔بھٹو کے اقتدار میں آنے سے پہلے خیر پور میں اکیس کارخانے تھے، یہ کارخانے قومیائے گئے پھر بند ہوگئے۔ جب کارخانے بند ہوگئے تو پھر خیر پور کی صرف اصیل کھجور ہی رہ گئی، کھجور کے بیس لاکھ درختوں سے خیر پور دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کارخانوں سے یاد آیا کہ پورے برصغیر میں سلک کی مشہور ترین فیکٹری خیر پور میں تھی، خیر پور کی بنارس کالونی میں تیار ہونے والی ہینڈ میڈ سلک کا بھی بڑا چرچا تھا پھر پاکستان میں ایک بڑی ٹیکسٹائل مل، کے ٹی ایم تھی۔ ریاست خیر پور میں لقمان ویونگ فیکٹری پورے مشترکہ ہندوستان کی مشہور فیکٹریوں میں شمار ہوتی تھی بعد میں اس کا ایک یونٹ عزیز الرحمٰن میمن نے خرید لیا تھا۔ خیر پور کی تحصیل گمبٹ میں فقیر ٹیکسٹائل ملز بہت مشہور تھی مگر یہ مل بھی 1980 میں بند ہوگئی۔ اب دو شوگر ملیں رانی پور اور خیر پور میں ہیں، کاٹن فیکٹریاں کافی تعداد میں ہیں۔دلشاد منزل تاج محل کی طرز کا خوبصورت محل ہے یہ محل میر علی نواز ناز نے اقبال بیگم بالی کے لئے بنوایا۔ تاج محل اور دلشاد منزل میں فرق یہ ہے کہ تاج محل مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے ممتاز بیگم کے مرنےکے بعد اس کی یاد میں بنوایا جبکہ میر علی نواز ناز نے دلشاد منزل کو بالی جی کے جیتے جی بنوایا۔ وہ اس محل میں رہیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ریاست خیر پور کے وقت خیر پور پبلک لائبریری کا شمار سندھ کی چند بڑی لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک یادگار ہے۔
قومی شاہراہ پر خیر پور میں سڑک کنارے ماوے یا مائو کی دو سو کے لگ بھگ دکانیں ہیں، دکانوں کی زیادہ تعداد موسانی گائوں کے باسیوں کی ہے۔ ماوے یا مائو (کھویا) یہ خیر پور کی سوغات ہے،کہا جاتا ہے کہ ستر سال پہلے محمد رمضان ملاح نے ماوا بنانے کی شروعات کی تھیں اس نے ماوے کی پہلی دکان بنائی اور اسے اپنے گائوں سے منسوب کیا یعنی ’’موسانی کا ماوا‘‘ خیر پور کی اس سوغات کو پورے ملک میں پسند کیا جاتا ہے۔تحصیل نارا ضلع خیر پور کی اہم تحصیل یعنی تعلقہ ہے۔ اس تحصیل کا صدر مقام چونڈ کو ہے کیونکہ نارا یا نارو نام کا کوئی بھی شہر نہیں مگر نارا کینال کی وجہ سے اس تحصیل کا نام نارا ہے۔ معدنیات کے حوالے سے یہ تحصیل نمایاں ہے قادن واری گیس فیلڈاور ساون گیس فیلڈ اسی تحصیل میں ہیں۔ یہ پہلے ایک آسٹرین ادارے کے تحت تھیں اب چین کے ادارے یو ای پی کے تحت ہیں۔ اس تحصیل میں راجڑ، منگریو اور بھنبھرو قبائل کے افراد کی اکثریت آباد ہے۔
سندھ کے بڑے ضلع خیر پور کی ایک تحصیل کا نام کوٹ ڈیجی ہے۔ کوٹ ڈیجی کا قلعہ بڑا مشہور ہے۔ اس قلعے کی تعمیر 1785ء اور 1795ء کے درمیان میر سہراب خان تالپور نے کرائی۔ کوٹ ڈیجی کے گرد مٹی کی وسیع دیوار ہے۔ اس شہر میں داخلے کے لئے ایک ہی راستے ہے اور داخلی دروازے کے طور پر لوہے کا ایک پھاٹک لگایا گیا ہے۔ کوٹ ڈیجی صحرا کے کونے پر ہے۔صوبھو دیرو تحصیل، ضلع خیرپور میں واقع ہے۔ اسی تحصیل میں رانی پور اور ہنگورجا ہے۔ رانی پور کو کسی دور میں ریاست کا درجہ حاصل رہا ہے۔ رانی پور میں مشہور درگاہ تو ہے ہی مگر یہ ایک تجارتی مرکز بھی ہے۔ یہاں شاہی بازار، کھیر بازار اور سبزی منڈی سمیت دیگر اہم تجارتی مراکز ہیں۔ سید عبدالقادر شاہ، سید فضل شاہ اور سید پیار شاہ کے نام سیاسی طور پر نمایاں ہیں۔ رانی پور شہر 16 ویں صدی میں آباد ہوا، یہ دو نہروں کے درمیان ہے۔ اس کا نام ٹھٹھہ کے حاکم دریا خان نے اپنی بیوی، رانی کے نام پر رکھا، اسے یہ جگہ بہت پسندتھی۔ یہ شہر بزرگان دین کے مزارات کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ رانی پور سے تین کلو میٹر دور صوفی شاعر سچل سرمست کا مزار ہے جبکہ صالح شاہ، ہاجران شاہ اور بادشاہ بودلہ کے مزارات بھی رانی پور میں ہیں۔ شہر کے پانچ دروازوں کو بزرگان دین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ان دروازوں میں باب دستگیر، باب سچل سرمست، باب بودلہ، باب صالح شاہ اور باب شاہ عبدالجبار شاہ شامل ہیں جبکہ شہر کی مرکزی شاہراہ کا نام سیاسی و سماجی شخصیت مٹھو محمد ہارون کے نام سے منسوب ہے۔
برصغیر میں رانی پور کے نام سے تین شہر بھارت میں اور ایک شہر بنگلہ دیش میں بھی ہے۔ ہندوستان میں اتر پردیش، اتر اکھنڈ اور بہار میں رانی پور کے نام سے شہر ہیں۔ہنگورجا تحصیل صوبھو دیرو کا اہم قصبہ ہے۔ یہ قصبہ بہت قدیم ہے۔ سید ناصر علی لکیاری، کاظم علی شاہ لکیاری، منشی عبدالرئوف سہتو، مخدوم غلام عباس صدیقی، مخدوم ہنگورجو، پروفیسر میر محمد سرمرو، نصیر سومرو، جسٹس زوار حسین جعفری، علامہ اصغر علی نقوی اور حاجی فقیر محمد سومرو یہاں کی قابل ذکر شخصیات ہیں۔(جاری ہے)