سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔
آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید دلائل مکمل کریں گے۔
دورانِ سماعت مخدوم علی خان نے کہا کہ میں نے اٹارنی جنرل کے سوالات پر جواب تیار کیے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آج آپ سے سوالات نہیں ہوں گے، اپنے دلائل مکمل کریں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعظم سے عدالتی سوالات پر بات ہوئی ہے، ان کے توسط سے عدالت میں بیان دینا چاہتا ہوں، وزیرِ اعظم سپریم کورٹ اور ججز کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے کمالیہ کے جلسے میں 1997ء میں ججز کو ساتھ ملانے کی بات کی تھی، وزیرِ اعظم ججز کی غیر جانبداری اور عدالت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ ہاؤس پر حملے کے ملزمان کی گرفتاری کی رپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
’’پرویز خٹک نے کہا سندھ ہاؤس پر دوبارہ حملہ کرینگے‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر مندو خیل کا سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے سندھ ہاؤس پر حملہ کیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر دوبارہ حملہ کریں گے، ہمارے تمام کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عبدالقادر مندو خیل کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس اب بھی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی ہدایت پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں عدالتوں پر اعتماد ہے اور قانون ہاتھ میں نہیں لیں گے، ہمارے پاس 169 ممبرز پورے ہیں، 3 بندے بھی پورے کر لیں گے۔
’’عدالت کا حکم پولیس کو ماننا چاہیے‘‘
سماعت شروع ہونے سے قبل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو عدالت کا حکم ہے، پولیس کو اسے ماننا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ امیر ہو یا غریب پارلیمنٹیرینز ہو یا نہ ہو، قانون سب کے لیے برابر ہے، جس نے قانون کو ہاتھ میں لیا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سرپرائز کا جواب زرداری صاحب خود دیں گے، آہستہ آہستہ چیزیں واضح ہونا شروع ہو گئی ہیں، 31 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سب واضح ہو جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئین اور قومی اسمبلی کے قوانین واضح ہیں، 3 دن نہیں تو 7 دن کے اندر ووٹنگ کرانا لازم ہے۔