• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزنامہ جنگ نے ہر دور میں ہر شعبہ زندگی کی ممتاز شخصیات کے انٹرویوز شایع کیے، کیوں لوگ ان کی زندگی ،ان کے کام اور ان کے خیالات کے بارے میں جاننا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ سیاست دانوں کےضمن میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ ان کے انٹرویوز پڑھ کر حال اور مستقبل کی سیاسی صورت گری آسان ہوجاتی ہے، لہذا ’’جنگ‘‘وقتا فوقتا ان کی اشاعت کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ بعض ممتاز سیاست دانوں کےجنگ میں شایع ہونے والے انٹرویوز کے اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

عوام کا راستہ نہیں چھوڑوں گی، بے نظیر بھٹو

انٹرویو: محمود شام

تاریخِ اشاعت : 24 اکتوبر 2007

س:آپ 8سال بعد اپنے وطن واپس آئیں، شاندار استقبال ہوا۔ پھر یہ خونریز خودکش حملہ ہوگیا۔ اس کے بعد ملکی اور بین الاقوامی رہنمائوں سے فون پر بات ہوئی۔ مختلف شخصیتوں، کارکنوں دوسری جماعتوں کے رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ آپ کو اب پاکستان 1999ء کے پاکستان سے کتنا مختلف لگ رہا ہے؟

ج:پاکستان میرا وطن ہے۔ میری دھرتی ہے، اس لمحے خوشی بھی ہے، غم بھی۔ ایئر پورٹ سے شارع فیصل تک عوام فتح مند نظر آرہے تھے۔30لاکھ پاکستانی جمع تھے، ہم سب بہت خوش تھے۔ وہ گا رہے تھے، ہنس رہے تھے، انہیں اُمید تھی کہ مکمل جمہوریت آئے گی۔ عوامی راج ہوگا، عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ بیروزگاری کاخاتمہ ہوگا۔ ملک میں امن و سکون آئے گا۔ خاندان آئے ہوئے تھے، بچے، عورتیں ساتھ تھیں۔ ایک جشن کا سماں تھا، پھر شام ہونے لگی۔ رات کا اندھیرا ہوا تو ہم نے دیکھا کہ سڑک کی بتیاں بند ہیں۔ پہلے سے خدشات تھے، اس تاریکی میں تو خود کش حملہ آور آسانی سے نزدیک آسکتے ہیں۔ 

اتنا اندھیرا کیوں ہے، ہم سب فکر مند تھے۔ ۔۔۔۔پھر وہی ہوا جس کاڈر تھا۔ خوشی کا دن تباہی کی رات میں بدل گیا۔ایک بہت بڑا المیہ ہوگیا۔ ہر دور میں اپنی کربلا ہوتی ہے۔ اپنے یزید ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ عوام کے حقوق غصب کریں، عوام خوش نہ ہوں، عوام کے مسائل حل نہ ہوں، عوام ان کے غلام بن کر رہیں، لیکن وہ جان لیں کہ عوام سچائی کے راستے پر چل پڑے ہیں ،وہ اپنے حقوق حاصل کرکے رہیں گے۔مجھے ان بم دھماکوں سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ میں عوام کا راستہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی، انہیں ان کی منزل تک، آخری فتح تک لے کر جائوں گی۔

س:کہا جا رہا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے اور مکمل جمہوریت کے لیے صدر جنرل پرویز مشرف اورآپ کے درمیان اشتراک کار کے لیے مفاہمت کروائی ہے۔ اس خوفناک واردات کے بعد حکومت اور آپ کے جس قسم کے بیانات آرہے ہیں کیا اب بھی یہ آسان ہوگا کہ اس اشتراک کار کو جاری رکھا جاسکے؟

ج:مجھے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی اخبارات میں یہ بات آتی رہی ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے جنرل پرویز مشرف اور ہمارے درمیان کوئی مفاہمت کروائی ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے۔۔۔۔۔بین الاقوامی برادری بھی اس پر زور دے رہی تھی۔ اس لیے جنرل پرویز مشرف نے خود پہل کی اور پی پی پی سے مذاکرات شروع کیے۔ یہ مذاکرات اب نہیں 1999ء سے شروع ہوئے تھے۔ کبھی بند نہیں ہوئے۔ مختلف مراحل ،مختلف انداز میں ہوتے رہے ہیں اور یہ صرف ہم سے نہیں ،تمام سیاسی جماعتوں سے ہوئے ہیں ۔ 

میاں نواز شریف سے بھی ہوئےجس کے نتیجے میں ہی وہ ملک سے باہر گئے۔ عمران خان سے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں ریفرنڈم میں باوردی صدر کی حمایت کی گئی۔ ایم ایم اے سے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں لیگل فریم ورک آرڈر میں انہوں نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اصولوں کی بنیاد پر مذاکرات کرتے رہے۔ کسی غیرآئینی، غیر جمہوری معاملے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ دنیا نے دیکھا کہ پی پی پی سے مذاکرات کے نتیجے میں ہی اب جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ آئندہ صدارتی حلف اٹھانے سے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیںگےاور وردی اتاردیں گے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری بڑی اصولی فتح ہے۔ ہمارے مذاکرات کا دوسرا مثبت نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی سطح پر مفاہمت ہوگی اور ایک ایسی پارلیمانی کمیٹی تشکیل پائے گی جس میں 50فیصد اپوزیشن ہوگی اور 50فیصد حکومت۔اس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کسی ممبر پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح ہم نے ہارس ٹریڈنگ یعنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو روکا ہے۔ پہلے 2002ء کے انتخابات کے بعد ہمارے دس ارکان قومی اسمبلی کو نیب کی طرف سے گرفتاری کی دھمکی دے کر الگ گروپ بنایا گیا ،اب یہ نہیں ہو سکے گا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ انتخابی یقین دہانی بھی حاصل ہوئی ہے کہ ریٹرننگ آفیسر اپنے پولنگ اسٹیشن کے نتائج کا وہیں اعلان کردے گا۔ اس سے نتائج میں ردوبدل کے امکانات ختم ہوں گے۔

حکومت غیر مستحکم کرنے کی کسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے،نوازشریف

جنگ پینل:محمود شام،بیدار بخت بٹ، پرویز بشیر، حامد جاوید ،سعدیہ قریشی،

تاریخِ اشاعت : 10مارچ 2008

سوال: سب سے پہلے توہم یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ مرکز میں پی پی پی کی حمایت تو کرنا چاہتے ہیں، لیکن سننے میںآرہا ہے کہ وزارتیں نہیں لینا چاہ رہے ، آخر ایسا کیوں ہے؟

جواب :اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ اس موضوع پرکھل کر نہ تو بات ہوئی ہے، نہ کوئی فیصلہ ہوا ہے، البتہ ججوں کی بحالی ہمارے منشور کا سب سے پہلا نکتہ ہے، اسی پر زیادہ ترہماری گفتگو ہوئی ہے اور اسی کے لئے ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ، آصف علی زرداری کے ساتھ بات کی ہے۔

سوال:58(2)B اور17ویں ترمیم کامستقبل کیا ہوگا؟ کیا آپ نے اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے بات کررکھی ہے؟

جواب:ہم تو بہت واضح ہیں۔ میثاق جمہوریت میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ اس ڈاکیومنٹ پر عمل کریں گے اور ان شاء اللہ ہوگا، پھر یہ سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن معاملات کو ٹھیک کرنے میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہئے۔۔۔۔ ہماری سوچ اس وقت ایک جیسی ہے۔ پیپلز پارٹی کی عددی برتری بہت زیادہ ہے ۔ ہم بہت خوش ہیں کہ پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کا عہدہ لے اور ہم اس ملک کو چلانے اور مشکلات سے نکالنے کےلیے ان کا ساتھ دیں۔

سوال:قوم کو درپیش بڑے مسائل جیسے مہنگائی ، اقتصادی ،بدحالی، دہشت گردی ، بے روزگاری، دوسرے ملکوں سے تعلقات، بجلی کی کمی، بڑے ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ، یہ سب وفاقی حکومت کے زیراختیار ہیں۔ آپ وفاقی حکومت میں شامل نہ ہو کر ان بڑے مسائل کے حل میں رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے۔؟

جواب:میں برملا کہتا ہوں کہ ہم ان شاء اللہ کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے ہم حکومت کو غیر مستحکم کریں۔ ابھی ہم اپنا ایجنڈا تیار کررہے ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہمار ی پیپلزپارٹی کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی۔ اس جذبے کا اظہار دونوں طر ف سے ہو رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جب انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی تو پھر یقینا ہم پاکستان کو منجدھار سے نکالنے میں اپنا پورا کردار ادا کریں گے ۔ہم پیپلز پارٹی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور پیپلز پارٹی کو ہی یہ چیلنج درپیش نہیں ہیں۔ بلکہ پوری قوم کو درپیش ہیں۔ ہم ان شا ء اللہ ایک دوسرے کے دست وبازو بنیں گے۔

سوال:1990ء کی دہائی کے مقابلے میں آج میڈیا زیادہ طاقتور ہے، جو لوگوں کے ذہنوں کو بدل رہا ہے تو کیا جب آپ اقتدار میں آئیں گے تو آپ میڈیا کی اتنی زیادہ آزادی کا سامنا کرسکیں گے یا پیمرا آرڈی ننس کی حمایت کریں گے، کیوں کہ حکومتیں تو میڈیا کی آزادی کو ا تنا پسند نہیں کرتیں۔

جواب:ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کاکردار قابلِ قدر رہا ہے اور میڈیا نے9؍مارچ سے اس معاملے کو اجاگر کیا ہے، قوم کی تربیت کی ہے۔ قوم کا پڑھا لکھا طبقہ آج سڑکوں پر ہے۔ حکومت میں جب آئیں گے تو اس پر بات کریں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارا رویہ مثبت پائیں گے اور ہم یہ بھی چاہیں گے کہ میڈیا بھی یقینا ایک مثبت کردارادا کرے، جیسے جمہوری ملکوں میں یہ ادارے چلتے ہیں،ویسے ہی چلنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا نے پاکستان میںجو نیاکردار ادا کیا ہے، اسے قبول کرنا چاہئے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔

ہماری جنگ غربت سے ہے، آصف زرداری

جنگ پینل:محمود شام،سلیم بخاری ،رانا طاہر محمود، راناغلام قادر،اظہر سید،عاصم یٰسین

تاریخِ اشاعت : 10مارچ2008

سوال :بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں پیپلزپارٹی کو جو تین بار حکومت کا موقع ملا، پہلی بار اس کا نعرہ تھا روٹی کپڑا اور مکان۔پھر عزت امن اور انصاف، اور اس کے بعد نیاعمرانی معاہدہ۔اب جب اکیسویں صدی کی بالکل بدلی ہوئی دہشت گردوں کے خطرناک عزائم میں گھری ہوئی دنیا میں آپ حکومت بنانے جا رہے ہیں تو آپ کا نعرہ کیا ہوگا؟ اور کیا پارٹی کی قیادت اس نئی دنیا میں مسائل سے نمٹنے کی پوری طرح صلاحیت رکھتی ہے؟

جواب:ہم دوستوں کو سمجھانا چاہ رہے ہیں ۔غریبوں کی خدمت کرنا چاہ رہے ہیں ہم بھٹو صاحب ، بی بی صاحبہ کی فلاسفی، ان کے نظریات کے نفاذ کے لیے نمائندے ہیں ۔۔۔۔ ۔ پیپلز پارٹی نے اس دفعہ یہ تہیہ کر لیا ہے کہ ہم قومی اسمبلی میں قوم سے معافی مانگیں گے اور تاریخ میں ایک نیا باب لکھوائیں گے کہ بھٹو صاحبکے ساتھ جو ہوا وہ عدالتی قتل تھا۔اس جمہوری سفر کو ہم وہاں سے شروع کرنا چاہ رہے ہیں ۔ہماری جنگ کس سے ہے ،غربت سے۔ بھٹو کی جنگ کس سے تھی ،غربت سے تھی ۔ بھٹو کی جنگ ایک طبقے سے تھی جو آج بھی قابض ہے۔ وہ اب ہماری جنگ ہے۔ بھٹو صاحب کو جو چیلنج درپیش تھا وہ انٹرنیشنل چیلنج تھا۔ آج بھی انٹرنیشنل چیلنجز در پیش ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو چیلنج تھا سرحدوں پر آج بھی سرحدوں پرچیلنج موجود ہے۔ اس وقت بھی سپرپاور اس علاقے میں موجود تھی۔ وہ وقت کی ضرورت تھی یا اس کا مفاد تھا۔ اس وقت کولڈ وار کا انٹرسٹ تھا، آج بھی کسی وار کا انٹرسٹ ہے۔ وہ سب چیلنج جو بی بی صاحبہ کو درپیش تھے ، پاکستان کو درپیش تھے، وہ آج بھی موجود ہیں اورکوئی بھی کام مکمل نہیں ہوا ۔نہ ہم انسانوں کی بہتری کرسکے ہیں نہ غربت ختم کرسکے ہیںاور نہ ہم آبادی پر قابو پاسکے ہیں۔ انسانیت کو آج بھی چیلنجز درپیش ہیں۔ ہم نے یہ سوچنا ہے کہ ہمیں چیلنجز کیا ہیں ۔

سوال:ہمارے ملک، چیف صاحب اور زمینی حقائق کو دیکھیں تو جو نئی صورتحال سامنے ہے اس میں بھی ٹرائیکا بنے گا۔ صدرصاحب، پی پی کا وزیراعظم اورآپ کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف۔آپ کے خیال میں یہ ٹرائیکا کیسے کام کرے گا اورکیا چیف آف آرمی اسٹاف کا کوئی کردار ہوگا؟

جواب:اگر ترقی یافتہ ممالک یہ کہہ دیں کہ وہاںآرمی کاکردار نہیں ہے تو وہ آپ سے غلط بیانی کریں گے۔ اگر ہم اسے سیاست کی نذر کریں تو اور بات ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس بڑی فوج ہے اور ہمیں فوج کی ضرورت بھی ہے۔ جہاں تک ٹرائیکا سے متعلق سوال ہے تو میاں صاحب تو ہمارے ساتھ بیٹھیں گے انہیں ساتھ بٹھائے گا ہمار سلوک، اخلاق، باہمی رضا مندی سے آگے بڑھنا ۔جہاں تک ایوان صدر کا تعلق ہے وہ شخصیات نہیں، میں کسی شخص کو تو نہیں کہتا کہ وہ میری قائد کا قاتل ہے۔ میں کہتا ہوں نظام قاتل ہے۔ پریذیڈنسی اور پارلیمنٹ میں تصادم ہے۔ کبھی وہ غلام اسحاق خان کے چہرے میں آجاتاہے کبھی کسی اورچہرے میں ۔

سوال:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اور میاں صاحب کے درمیان ایسی کوئی حدود طے پاگئیں ہیں کہ 1988ء کا دور واپس نہیں آئے گا۔

جواب:امید اورکوشش کی بات ہے۔ ریلیشن شپ بڑھانا بڑا مشکل ہے توڑنا بڑا آسان ہے۔۔۔میں انہیں عزت اور پیار سے کچے دھاگے سے باندھے رکھوں گا۔

عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ بڑی تبدیلی ہے،ایئرمارشل(ریٹائرڈ) اصغر خان

جنگ پینل… احفاظ الرحمٰن،

رضوان احمد طارق، محمد اکرم خان

تاریخِ اشاعت : 17اپریل1996

س…آپ کی نظر میں پاکستان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیماریوں کے کیا اسباب ہیں اور آپ ان کا کیا علاج تجویز کرتے ہیں؟

ج…سارا نچوڑ اسی سوال میں ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ ہم نوآبادیات کی پیداوار ہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو لوگوں کو بڑی امیدیںتھیں۔ انہیں امید تھی کہ نظام بدلے گا اور عوام کی حالت بہتر ہوگی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو لوگوں میں مایوسی پھیلی اور جب مایوسی ہوتی ہے تو لوگ ان اداروں کی جانب دیکھنے لگتے ہیں جو منظم ہوتے ہیں مثلاً فوج! جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو اکثریت نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ہمارے ہاں سیاست دان قوم سے وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر جب حکومت میں آتے ہیں تو انہیں پورا نہیں کرتے چنانچہ عوام ان سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جلدی جلدی تبدیلی چاہتے ہیں۔ پاکستان کی پچاس سالہ تاریخ میں عوام فوج کو بھی دو تین بار آزما چکے ہیں۔ فوج جب آتی ہے تو وہ سختی کرتی ہے، اظہار رائے کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے۔ 

پاکستان کے مسائل کی ایک بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام بھی ہے۔ میرے خیال میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جاگیرداروں نے اہم کردار ادا کیا ۔ بنیادی طور پر وہ مشرقی پاکستان کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی چلا آرہا ہے۔پی پی پی کو عوام تین مرتبہ آزما چکے ہیں، مسلم لیگ کا دور حکومت بھی لوگ دیکھ چکے۔ نواز شریف صاحب دس سال تک حکومت میں رہے۔ اب لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے لیکن یہ سوچ غلط ہے کہ آسمان سے کوئی نجات دہندہ زمین پر اترے گا، اس طرح کوئی نہیں آتا۔ قوم میں جتنا شعور ہوگا، ویسی ہی حکومت آئے گی۔ ہم ارتقاء کے عمل سے گزر رہے ہیں، اس عمل میں ہم نے آدھا ملک گنوا دیا ہے، البتہ قوم میں کچھ سیاسی شعور پیدا ہوا ہے۔ سادہ لوح افراد فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ بہت غلط اور خطرناک سوچ ہے۔ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ عوام کی اکثریت نہیں چاہتی کہ فوج آئے۔

س…پاکستان کے سیاستدان ہر دور میں مفاد پرستی اور موقع پرستی کا شکار رہے ہیں۔ آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ آپ کی جماعت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے، آپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟

ج…پاکستان میں سیاست تجارت بن گئی ہے۔ سیاستدان مفاد پرست اور موقع پرست تھے اور ہیں۔ اب سیاست میں باقاعدہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔یہ سب سے بڑا بزنس ہے، چونکہ اس ملک میں احتساب کا عمل ہوتا ہی نہیں لہٰذا مفاد پرستی عام ہے۔ میرے خیال میں عوام بھی اس کے ذمہ دار ہیں، وہ احتساب کو اتنا اہم نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں لہٰذا احتساب نہ ہونے کے برابر ہے۔

س…اس وقت ہماری سیاست میں متعدد برائیاں در آئی ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات تک نہیں کراتی ہیں، رشوت عام ہے، وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہیں الغرض ہمارا سیاسی نظام آج بھی اسی پرانی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ اگر ملک کی زمام کار آپ کو دے دی جائے تو آپ ملک کے سیاسی نظام کی بہتری کیلئے کیا کریں گے؟

ج…میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے طریقہ انتخابات کو بدلنا چاہئے کیونکہ جب تک آپ صحیح لوگوں کے لیے راستہ نہیں کھولیں گے، اس وقت تک نظام تبدیل نہیں ہوگا اور اگر بدلیں گے بھی تو وہ کاغذی ہوگا اور زیادہ دیر تک چلایا نہیں جاسکے گا۔ اس کے لیے چند لوازمات ہیں ۔ انتخابی نظام کو صاف ستھرا بنانا ہوگا۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ غیر جانبدار حکومت قائم ہونی چاہئے، بنگلادیش میں ایسا ہوگیا ہے اور یہاں بھی یہی ہونا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انتخابی اخراجات پر سخت پابندی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے الیکشن میں ٹی وی استعمال کیا جائے۔ جب پوری قوم ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ سکتی ہے تو وہ رہنمائوں کی تقریریں بھی ٹی وی پر سن سکتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہونا چاہئے تاکہ مڈل کلاس کے افراد کو بھی موقع ملے اور سارے ٹکٹ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ کاروں ہی کو نہ دیئے جائیں۔

س…آپ صدارتی نظام کے حق میں ہیں یا پارلیمانی نظام کے؟

ج…میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ خواہ مخواہ ایک دوسری بحث چل پڑے گی۔ دونوں نظاموں میں خوبیاں ہیں لیکن اگر آپ کے زیادہ تر افراد ایماندار نہیں ہوں گے، چور، ڈاکو اور بدمعاش ملک کو چلائیں گے اور جاگیردار ہوں گے تو کوئی بھی نظام نہیں چل سکے گا لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ اس بارے میں کچھ کہوں حالانکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدارتی نظام میں بہت خوبیاں ہیں لیکن وہ بھی اس وقت چل سکتا ہے جب آپ کا انتخاب صحیح ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کئی اور باتیں بھی ہیں۔ زیادہ صوبوں کے بھی حق میں ہوں ۔

پاکستان میں انصاف مرچکا، قاضی حسین احمد

انٹرویو: سہیل وڑائچ

تاریخِ اشاعت : 19مارچ2006

جنگ…آپ پاکستان کی مجموعی صورتحال پر سب سے زیادہ دکھ کس بات پر محسوس کرتے ہیں؟

قاضی حسین احمد… یہاں عدالتوں کا صحیح نظام نہیں ہے، غرباء کے لیے کوئی جگہ ہی موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں انصاف مر چکا ہے، انصاف نامی کوئی چیز نہیں ہے۔

جنگ…انصاف کی موت کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟

قاضی حسین احمد… فوج کی باربار مداخلت ہی اس کی ذمہ دار ہے۔ فوجی ایکشن ہونے کے بعد سب سے پہلے عدالتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جج صاحبان سے پی سی او کے تحت حلف لیا جاتا ہے اور انہیں اس کے آئینی حلف سے دست بردار کروا دیا جاتا ہے حالانکہ چیف جسٹس دوران حلف قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ آئین کی اتباع اور حفاظت کریں گے لیکن پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والا چیف جسٹس اپنی اس قسم اور ذمہ داری سے دستبردار ہوجاتا ہے اور دستور کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں رہتا لہٰذا فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دستور کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔

جنگ … جمہوریت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟

قاضی حسین احمد… ہمیں اس چیز کی ضرورت زیادہ ہے کہ عوام کی تربیت کریں اور انہیں اپنے ساتھ ملائیں۔ اگر سیاسی جماعتیں زیادہ بہتر طریقے سے منظم ہوجائیں اور ان کا عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔

جنگ… شکایت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو منظم ہونے ہی نہیں دیا گیا؟

قاضی حسین احمد… میں سمجھتا ہوں کہ اگر عوام کو ساتھ ملا کر کام کیا جائےاور زیادہ محنت کی جائے تو یہ شکایت دور ہوجائے گی۔

جنگ …پاکستان میں کرپشن کی کیا وجہ ہے؟

قاضی حسین احمد… جب انحطاط آتا ہے تو اس کے ساتھ کرپشن بھی آجاتی ہے۔ اخلاقی انحطاط ہمہ پہلو ہوتا ہے تو اس میں سب کچھ آجاتا ہے اور کرپشن تو اس کی بنیاد ہے۔

جنگ …سیاستدان زیادہ کرپٹ ہیں یا معاشرے کے دوسرے افراد؟

قاضی حسین احمد… مختلف اوقات میں لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہے۔

جنگ …پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں مختلف رائے ہے، کچھ لوگ اس پر فخر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت اچھی ہے اور کچھ اسے برا کہتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا لیاقت علی خان کا روس کا دورہ رد کرکے امریکا جانا صحیح فیصلہ تھا؟ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

قاضی حسین احمد… جو بنیادی تصور ہے وہ یہی ہے کہ انگریز نے پاکستان کو مکمل آزادی نہیں دی۔ انگریز نے ایک ایسے طبقے کی آبیاری کی اور انہیں اقتدار دیا جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ان لوگوں کے ذریعے ہمارا کلچر اور ہمارا معاشی مفاد محفوظ رہے گا۔ انگریز ریموٹ کنٹرول کے ذریعے یہ نظام چلا رہے تھے، ان کی مرضی کے مطابق حکمران کام کررہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی انہی کے ریموٹ کنٹرول سے ہمارا ملک کا نظام چل رہا ہے۔

جنگ ۰…کیا پاکستان میں کبھی صحیح معنوں میں جمہوریت رہی ہے؟

قاضی حسین احمد… نہیں رہی۔ (بہت سوچ کر)

جنگ :کیا صحیح معنوں میں بھی جمہوریت آئے گی؟

قاضی حسین احمد… انشاء اللہ ضرور آئے گی۔ اسی امید پر تو ہیں۔

جنگ ۰…کیا 1973ء کا آئین تمام مسائل کا حل ہے؟

قاضی حسین احمد… 1973ء کے آئین پر سب متفق اور متحد ہوچکے ہیں اس لئے یہ ہمارے درمیان مشترکہ اساس ہے۔ اس میں موجود صوبائی خود مختاری دی گئی ہے جس پر لوگوں کو اتفاق ہے۔ اس میں آزاد عدلیہ، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، صوبائی خود مختاری، بنیادی حقوق اور بنیادی مسائل کا حل دیا گیا ہے۔ اگر اس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کیا جائے، فوج اور مقننہ اپنا کام کرے، مقننہ اور عدلیہ آزاد ہو تو اس کے نتیجے میں بہتری آسکتی ہے۔