پروفیسر خالد اقبال جیلانی
جیسے جیسے رمضان المبارک کا مہینہ قریب آتا جارہا ہے، ہمارے گھروں اور مساجد میں رمضان کی تیاریاں تیز سے تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ کہیں گھروں میں رنگ و روغن ہو رہا ہے ، درو دیوارکو چمکایا جا رہا ہے، پردوں کو صوفوں کے کشن کو تبدیل کیا ہے تو کہیں صرف جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی ہی سے کام چلایا جا رہا ہے، ہر گھر میں اس بات کا شور ہے کہ یہ سارے کام رمضان سے پہلے پہلے مکمل کر لئے جائیں، دوسری طرف خواتین خانہ گھر کے مردوں سے یہ مطالبہ کرتی نظر آ رہی ہیں کہ مہنگائی بہت ہے رمضان کا خرچ دو تین گنا بڑھا کر دیا جائے، گھروں میں راشن اور باورچی خانے کے دیگر سامان کی خریداری کا یہ عالم ہے کہ ہر مہینے جو راشن اور کھانے پینے کا وہی سامان ، لاکھ مہنگائی سہی ، رمضان کی سحر و افطار کی اضافی ڈشز کے لئے دو سے تین گُنا زیادہ خریداجارہا ہے، دوسری طرف مارکیٹوں ، بازاروں کا یہ عالم ہے کہ ہر چھوٹے بڑے دکاندار نے سامان کا پچاس پچاس گنا اسٹاک خریدنا اور جمع کرنا شروع کر دیا ہے ،تمام چھوٹی بڑی مارکیٹوں ، بازاروں ، سپر اسٹورز، شاپنگ مالز پر خریداروں کا ایک جمِ غفیر امڈ آیا ہے۔ ہر سپر مارکیٹ کے باہر تک خریداروں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں ۔’’کیوں کہ رمضان آ رہا ہے‘‘۔
لذّت ِ کام و ذہن کی اشیاء کی اس خریداری کے ساتھ ہر گھر میں اس بات پر بھی سوچ بچار ،مشورے اور تجاویز زیرِ غور ہیں کہ اس رمضان میں کیا نئے سے نیا، اچھے سے اچھے لذیز سے لذیز تر پکوان تیار کئے جائیں۔اس مقصد کے لئے نئی نئی Recipes سرچ کی جارہی ہیں۔ ہر روزے کی سحری اور افطاری کا Menu ابھی سے تیار کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مساجد میں بھی کچھ ایسی تیاریاں جاری ہیں ۔ مساجد میں رمضان میں نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر جہاں ممکن ہے توسیعی کا کام کیا جا رہا ہے، کہیں مسجدوں میں در و دیوار کو رنگ و روغن کرنے ، روشنی و سجاوٹ کرنے ،گرمی میں ہوا کی فراہمی کے لئے پنکھے یا ائیر کنڈیشن لگانے اور صفائی ستھرائی کا عمل جاری ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِن تمام کاموں ، گھروں اور مساجد میں رنگ و روغن ، صفائی ستھرائی ، کھانے پینے کی زیادہ سے زیادہ اشیاء کی خریداری نئی نئی لذت آمیز پکوان کی تراکیب اور تیاری میں سے کسی بھی بات کا رمضان کی تیاری سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ساری تیاریاں دراصل انسانی جسم کو نشو و نما دینے، ذائقہ کی تسکین پُر خوری یا آرام و سہولت دینے کی مادّی تیاریاں ہیں۔
انسان صرف ،مادی یا جسمانی وجود ہی نہیں رکھتا ، بلکہ وہ ایک غیر مادی یا روحانی وجود بھی رکھتا ہے۔ انسان ،جسم اور روح کے مجموعہ کا نام ہے، نہ خالی جسم انسان ہے اور نا ہی صرف روح انسان ہے، انسان کے خالق نے ان دونوںکے مجموعہ کو انسان کہا ہے، جسم کی نشوونما اور اسے پروان چڑھانے کے لئے غذا یا خوراک کے کھانے پینے کا نظام بنایا ہے اور روح کی نشوونما اور اُسے موت کے بعد اگلی منزلوں کی جانب سفر کرنے کے قابل بنانے کے لئے اپنی یاد یعنی ذکرِ الہٰی ، عبادت و اطاعت اور احکام و قوانین یعنی ہدایت ربانی پر عمل کرنے کا نظام تشکیل دیا ہے۔ اسی نظام کا ایک رکن ’’روزہ‘‘ بھی ہے۔ روزہ کا فلسفہ ہی کم کھانا، کم سونا ، کم بولنااور کم ملناہے ۔ غور کیجئے کہ اس نظام میں وہ تیاریاں جو ہم مادّی اعتبار سے رمضان کے لئے کر رہے ہیں۔ کہیں مناسبت رکھتی نظر آتی ہیں۔
انسانی جسم کے اندر حقیقی انسان ہے جو موت کے بعد کی اگلی منزلوں کی جانب سفر کرتا ہے اور یہ اندر والا انسان غیر مادّی ہے۔ اب آپ اسے چاہے نفس کہہ لیں یا ضمیر ، قلب کہہ لیں یا روح۔ یہ اس اندر والے حقیقی انسان کے مختلف نام یا کیفیات ہیں۔ قرآن کریم میں اسے ’’نفس ‘‘ ہی کہہ کرپکارا گیا ہے اور اسی نفس کے لئے موت ہے۔ ’’کل نفسِِ ذائقۃ الموت۔‘‘ ہر نفس کو موت کا مزا چھکنا ہے۔(سورۃ الانبیاء 35)
انسانی جسم میں نفس کوئی ایسا مادی وجود نہیں جیسے دل ، جگر ، گردے وغیرہ۔ لہٰذا انسانی جسم میں اس کی جگہ کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔انسان کے اندر یہ کیفیت یعنی نفس تین اقسام رکھتا ہے پہلی کیفیت نفس امّارہ کی ہے ۔ یہ ہرنوعیت کی خواہشات کا منبع ، مرکزاور محرک ہے۔ جب اس کی خواہشات حدودِ خداوندی سے باہر جانے لگتی ہیں تو اسی کو ’’شیطان‘‘ یا شیطان کی پیروی کہا گیا ہے۔جب نفسِ امارہ یا خواہشات انسانی ’’حدود اللہ‘‘ کو پامال کرتی ہیں تو ایک اور کیفیت انسان کو اندر سے جھنجھوڑتی ہے کہ اللہ کی حدود کو پامال کرنے سے باز آجا اور گناہ کی زندگی کو ترک کر دے اس کیفیت کو ’’نفسِ لوّامہ‘‘کہا جاتا ہے ۔ یعنی یہ انسان کو گناہ کرنے پر ملامت کرتا ہے کہ شیطانی حرکتیں چھوڑ دے اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر ، اسی کیفیت اور جنگ کو اقبال نے بہت ہی خوبصورتی سے سمجھایا ہے کہ ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
اگر نفس امارہ نفسِ لوّامہ کی ملامت سے گناہ سے رُک جائے اور حدود اللہ میں واپس آ جائے تو اسے توبہ کہتے ہیں اس کیفیت کو ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے خوشخبری دی کہ’’اے نفسِ مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف آ ، تو اُس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش‘‘لہٰذا تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا‘‘۔(سورۃ الفجر : 27-30)
اسی اندر والے انسان کے تزکیہ یعنی تربیت ، نشوونما، پروان چڑھانے اور اسے حدود اللہ کی خلاف ورزی گناہ سے پاک صاف کرنے کے لئے ایک مہینے کا سالانہ تربیتی نظام روزہ ہے اور جس پیریڈ میں یہ کورس کیاجاتا ہے اس پیریڈ کا نام رمضان ہے ۔رمضان نفسِ امارہ یعنی اللہ سے سرکشی اختیار کرنے اور نفس کے منہ زور بے لگام گھوڑے کو جو گیارہ مہینہ خوب شکم سیری اور بسیار خوری کرتا اور اللہ کی نافرمانی پر دندناتا ہے اسے قابو کرنے اور اللہ کی اطاعت پر لانے کا طریقہ روزہ ہے۔
روزے کے پورے سسٹم میں کھانا پینا کم سے کم کرنا ہے صرف اتنا جتنا اس جسم کے سسٹم کو جاری یعنی زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے اگر روز چار روٹی کھاتے ہو تو روزے میں دو روٹی بلکہ اس بھی کم کھانا، روزانہ جو ذائقہ اور لذت کام و ذہن تلاش کرتے پھرتے ہو رمضان میں اس سے دستبرداری اختیار کر لیناہے۔ رات کو جتنا سوتے ہو ،رمضان میں نیند کو کم کر کے ایک چوتھائی یا اس بھی کم پر لے آنا اور رات کے آخری ایک گھنٹے میں اپنے رب کے سامنے عاجزی و انکساری سے کھڑے ہو کر اور سجدے کر کے اس سے اُس کی رحمت ، مغفرت اور نفسِ مطمئنہ مانگتے رہنا کہ وہ رات کے اس آخری حصہ میں نفسِ مطمئنہ رکھنے والے اپنے تابعدار بندوں کو جنت بانٹ رہا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رمضان اور روزے کی یہ تیاری رجب سے ہی شروع ہو جاتی ہے اور شعبان میں بھی جاری رہتی ہے، تاکہ ہم ان دو مہینوں میں اپنے نفس امارہ کو اس قابل بنا سکیں کہ وہ رمضان کی جنت میں داخل ہونے کے قابل ہو سکے، سیرت النبی ﷺ میں ہمیں یہی اسوۂ حسنہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ رجب ہی سے روزے رکھ کر رمضان کی تیاری شروع کر دیتے تھے اور شعبان میں تو اس کثرت سے روزے رکھتے کہ شعبان کو رمضان سے ملادیتے تھے اور رمضان کی یہی تیاری ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی رجب کے آغاز کی دعا کے مفہوم میں پنہاں ہے کہ ’’اے اللہ، ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما یعنی ان دو مہینوں میں ہمیں اپنے تزکیہ نفس کے اعتبار سے اس قابل یعنی اپنا ایسا اطاعت گزار بنا دے کہ ہم رمضان کی رحمتوں برکتوں مغفرتوں سعادتوں اور جنتوں کے قابل ہو سکیں۔
رمضان میں ہمیں کم کھانے، کم سونے، کم بولنے اور کم ملنے کے اصولِ تربیت و تزکیہ کو اختیار کرتے ہوئے اس کے بہترین اور اعلیٰ نتائج حاصل کرنے کے لئے قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت ، روزانہ ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے ، تہجد کا خصوصی اہتمام کرنے، تراویح کی پابندی کے ساتھ، ہر وقت باوضو رہنے ، تحیتہ الوضوء، تحیتہ المسجد ، فرض نمازوں سے پہلے کی سنتوں اور فرض کے بعد کی سنت و نوافل کے ادا کرنے کے اہتمام کے ساتھ سب سے زیادہ تگ و دو اور جستجو تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز باجماعت کاخصوصی التزام کرنا چاہئے ،یہ رمضان کا مختصر ترین پروگرام ہے جس کی ہمیں رمضان سے پہلے بھر پور تیاری کرنی ہے اور اس تیاری کانام ’’نیت‘‘ اور اخلاص ہے۔
رمضان آگیا ہے…!
دنیائے دیں سجانے ، رمضان آگیا ہے
مومن کا دل بڑھانے ، رمضان آگیا ہے
تلقین صبر کی ہے اور درسِ اِستقامت
اعمال جگمگانے ، رمضان آگیا ہے
ہے موج میں بہ ہر سُو دریا سخاوتوں کا
کھُلنے لگے خزانے ، رمضان آگیا ہے
ہوتی ہے پھر سے تازہ ایمان کی حرارت
مومن ہمیں بنانے ، رمضان آگیا ہے
یہ دن ضیا لٹاتا یہ رات جگمگاتی
لے کر حَسیں زمانے ، رمضان آگیا ہے
ہے بخششوں کا پیہم گویا نزول جاری
بس رحمتیں لٹانے ، رمضان آگیا ہے
دل ہیں ندیمؔ شاداں، چہرے ہیں سب کے روشن
دن آگئے سہانے ، رمضان آگیا ہے (ریاض ندیمؔ نیازی)