ایٹمی ہتھیار جن کے کئی ملک ڈھیر لگائے ہوئے ہیں خدا نخواستہ کسی جنگ کی صورت میں پھٹ پڑےتو دنیامیں شاید ہی کوئی ذی روح سلامت رہے ،البتہ انکے مثبت استعمال میں کوئی قباحت نہیں جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک توانائی کے حصول کیلئے کر رہے ہیں۔ ایران کاایٹمی پروگرام ایک عرصہ سے اسرائیل اور چند عرب ممالک کی وجہ سے وجہ تنازع بنا ہوا ہے حالانکہ ایران برملا کہہ چکا ہے کہ اسکا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کیلئے ہے ۔ابھی پچھلے روز ایران نے کہا ہے کہ اس نے اپنی غیر اعلانیہ جوہری تنصیبات سے متعلق دستاویزات اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کو بھیج دی ہیں۔قبل ازیں5 مارچ کو ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے ایران کے دورے میں کہا تھا کہ بین الاقوامی ایجنسی اور تہران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ملک کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے اہم مسائل کے حل پر اتفاق کیا ہے۔ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ویانا میں 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت ہوئی ہے ۔اس معاہدے نے ایران کو اس کے جوہری پروگرام کو روکنے کے نتیجے میں پابندیوں میں ریلیف دیا تاکہ اس بات کی ضمانت دی جاسکے کہ تہران، جوہری ہتھیار تیار نہیں کر سکتا۔تاہم امریکہ نے یکطرفہ طور پر 2018 میں معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں جس کے بعد ایران نے بھی اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک دنیا میں دو عملی کا چلن رہے گا پائیدار قیام امن ممکن نہیں،یہ کیامنطق ہے کہ امریکہ ،اسکے اتحادی اور مخالفین تو ہتھیاروں کے انبار لگا لیں لیکن کوئی اورپرامن مقاصد کیلئے بھی یہ صلاحیت حاصل نہ کرے، یہی منافقانہ رویے دنیا میں امن کے بدترین مخالف ہیں ،جنہیں بدلنا ہو گا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998