سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر قومی اسمبلی کو بحال کر دیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے ہدایت کی اوراِس عمل کے مکمل ہونے تک اجلاس جاری رکھنے اور ووٹ ڈالنے سے کسی رکن کو نہ روکنے کا فیصلہ دیا۔
یہ 8صفحات پر مشتمل مختصر لیکن جامع فیصلہ ہے جس میں 13نکات میں ریاستی اداروں کو پابند بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے سے جہاں آئینِ پاکستان کو تحفظ حاصل ہوا ہے وہاں آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کے لیے راستہ بھی کھل گیاہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی رائے یہ تھی کہ سپریم کورٹ ’’اطراف کی جیت‘‘ کے بارے میں فیصلہ دے گی لیکن سپریم کورٹ نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ دیا جس سے نہ صرف آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے بلکہ آئندہ کے لیے آئین شکنی کا راستہ بھی بند ہو گیا ہے۔
3اپریل 2022پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5کی آڑ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی بجائے اسے مسترد کرکے آئین کا مذاق اڑایا۔
عمران خان نے وزارتِ خارجہ کے دفتر میں ’’ری رائٹ‘‘ کیے گئے ایک خط کے ڈانڈے ’’عالمی سازش‘‘ سے ملا دیے، اس میں اپوزیشن کو ملوث کرنے کا ڈرامہ رچایا جو 5روز میں فلاپ ہو گیا۔
شنید ہے عمران خان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پوری پارٹی کے اراکین سمیت جمہوری عمل سے نکل جانے کا سوچ رہے ہیں، انہوں نے اگرکوئی مزید سیاسی غلطی کی جس کی اب کوئی گنجائش نہیں تو انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو نگران وزیراعظم کی تقرری پر جلدی تھی لہٰذا انہوں نے صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط بھجوا دیا لیکن اپوزیشن لیڈر نے صدر مملکت کے خط کو قابلِ در خور اعتنا نہ سمجھا جس پر اسپیکر اسد قیصر نے نگران وزیراعظم کے نام پر ’’اتفاقِ رائے‘‘ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر 8رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے نام خطوط لکھ دیے۔ اسپیکر نے یہ خطوط آئین کی شق 224اے ون کے تحت لکھے۔ وزیراعظم عمران خان کے ایما پر صدرِ مملکت اور اسپیکر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ’’پھرتیاں‘‘ سپریم کورٹ کو دکھانے کے لیے کر رہے تھے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکومتی عزائم پر پانی پھیر دیا اور فاضل عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر قومی اسمبلی بحال کر دی۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8مارچ 2022کو سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد تیزی سے ملکی سیاسی منظر تبدیل ہوا۔ آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے ایسا ’’دھوبی پٹکا‘‘ مارا کہ عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا۔ عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے پنجاب میں اپنے ’’منظورِ نظر‘‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قربانی دے ڈالی، تاحال چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ نہ بن سکے جبکہ ان کے مقابلے میں حمزہ شہباز 199اراکین پنجاب اسمبلی کیساتھ ایک ہوٹل میں موجود ہیں لیکن سرکاری مشینری نے پنجاب اسمبلی کی عمارت کو تالے لگا دیے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں بھی وزیراعلیٰ کے انتخاب سے راہِ فرار اختیار کرنے پر حمزہ شہباز نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
5روز سے وفاق اور نہ ہی پنجاب میں کوئی آئینی و قانونی حکومت تھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملک وزیراعظم کے بغیر ہی چل رہا تھا۔ صدر مملکت نے نگران وزیراعظم کی تقرری تک عمران خان کو وزیراعظم کے طور پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی لیکن صدر مملکت نے اس بارے میں نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے گریز کیا۔ وفاقی وزراء اسد عمر اور فواد چوہدری نام نہاد دھمکی آمیز خط بھجوانے میں لندن مقیم نواز شریف کو ملوث کرنے کی کوشش کرتے رہے۔دونوں وزراء نے دعویٰ کیاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط دکھا دیا جائے گا، چیف جسٹس نے خط دیکھا اور نہ ہی انہوں نے دکھایا اور نہ ہی اپوزیشن پر الزام تراشی کے حوالے سے کوئی ثبوت فراہم کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے دیکھا کہ ان کی جماعت کے 22، 24اراکین نے بغاوت کر دی ہے تو انہوں نے نہ صرف قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے کا اعلان کر دیا بلکہ ایک خط کے ذریعے پارٹی کے تمام اراکین کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت کارروائی کرنے کی دھمکی دے دی، جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کم و بیش تمام اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں تو ان کو ایک نئی حکمت عملی سوجھی اور انہوں نے اپنی جاری کردہ ہدایات کی نہ صرف خود خلاف ورزی کی اور 40،50اراکین کے جلو میں قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ 3اپریل 2022کو ان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آمد کا مقصد تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا نہیں تھا بلکہ ڈپٹی اسپیکر سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کروا کر قومی اسمبلی تحلیل کروانا تھا گویا ’’کھیڈاں گے نہ ہی کھیڈن دیواں گے‘‘ کے مصداق ’’گھتی‘‘ ہی خراب کر دی۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق سابق سفیر کے پیغام کو وزارت خارجہ میں ’’ری رائٹ‘‘ کر کے باقاعدہ ایک سازش کی شکل دی گئی۔ ڈپٹی اسپیکر جو پچھلے کئی ماہ سے ’’حکم امتناعی‘‘ پر چل رہے ہیں، کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 5کی آڑ لے کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کروا یا گیا۔ اس طرح وزیراعظم نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کروا کر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس جاری کر دی۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر پی ٹی آئی کا جشن منانا سمجھ سے بالاتر تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان اقتدار سے محروم ہوگئے، پنجاب میں ایک لطیفہ زبان زد عام ہے کہ کسی شخص کے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہو گئی لیکن اس کے بیٹے نے پھانسی سے قبل خود کشی کر لی جس پر اس شخص نے کہا کہ ’’شکر ہے میرا بیٹا پھانسی سے بچ گیا‘‘۔عمران خان کی حکومت بھی کچھ مختلف نہیں کر رہی تھی۔ عمران خان نے ایک نیا بیانیہ تخلیق کرنے کی کوشش کی کہ ان کے خلاف عالمی قوتوں نے ان کی جماعت کے ’’میر جعفروں اور میر صادقوں‘‘ کو ملا کر سازش تیار کی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس بیانیے کو اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دے کر فیصلہ کیا گیا۔ خط کا ڈرامہ رچانے سے قبل ہی اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو یہ باور کرا دیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کسی صورت ٹالی نہیں جا سکتی لہٰذا اسے غیر قانونی طور مسترد کرکے جگ ہنسائی کا موقع نہ فراہم کیا جائے لیکن اُنہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔