• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن میں اپنے گھر کے پچھواڑے گلی میں دیکھا۔ دس بارہ بچے ایک سیدھی قطار میں چلے جارہے تھے۔ قریب سے دیکھا تو پتہ چلا کہ بچوں نے ایک ڈور کو پکڑ رکھا ہے جس کے اگلے سرے کو ایک خاتون نے اور آخری سرے کو دوسری خاتون نے سنبھال رکھا ہے۔ بچے نہ اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہیں، نہ شرارتیں کر رہے ہیں اور نہ اُس ڈور کو چھوڑ رہے ہیں جس کو تھام کر مہذب قومیں یوں چلا کرتی ہیں کہ قطار نہ ٹوٹنے پائے۔
اس طرح کے منظرآنکھوں میں سمانے سے زیادہ ذہن پر دستک دیتے ہیں۔ انسانی فکر میں ایک خیال کی لو اونچی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو کتنا عزیز جانتے ہیں، ان کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی نگہداشت کتنی عزیز ہے انہیں۔ ان کی زندگی سے کتنا پیار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہے کہ ان کے ننھے سے ذہن پر کوئی ایسا نقش ثبت نہ ہو جائے جو پھر عمر بھر ان کی شخصیت میں گھاؤ بن کر رِستا رہے۔
میرے گھر کے قریب ایک بڑا پارک ہے۔بے شمار لوگ وہاں اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچے کھلی فضا میں سانس لیں، کھیل کود سے جی بہلائیں اور اس طرح ان کی جسمانی ورزش بھی ہو۔ ساتھ میں گھر کا پالتوکتا بھی شریک ہو جاتا ہے اور مالک کی پھینکی ہوئی گیند اٹھا کر لانے کیلئے دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ اس منظر کی جو بات اہم ہے وہ یہ کہ ہر کنبے میں ماں اور باپ کے علاوہ عام طور پر دو بچے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی تیسرا نظر آجاتا ہے ورنہ انگریزی کی کہاوت ہے کہ دو ہوں تو ساجھے دار، تین ہوں تو مجمع۔ مجھے ایوب خان کے زمانے کا نعرہ یاد آتا ہے: بچے کم، خوشحال گھرانہ۔ اس نعرے میں تعداد پر زور نہیں۔ مطلب یہ کہ دس پیدا کرتے ہو، چار کر لو۔ بھارت والے بچوں کی تعداد کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ پہلے ان کا نعرہ تھا: اگلابچہ ابھی نہیں، تین کے بعد کبھی نہیں۔ وقت کے ساتھ یہ نعرہ بدل گیا: ہم دو ، ہمارے دو۔ کہتے نہیں لیکن یہ کہنے کیلئے بیتاب ہیں کہ بچوں کو چھوڑو،کتے بلی سے کام چلاؤ۔یوں بھی بھارت والے لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ وہاں کثرتِ اولاد کا مسئلہ نہیں ستائے گا۔ بس ایک ہی خطرہ ہے، جب لڑکیاں کم اور لڑکے زیادہ ہوں گے اور ایک لڑکی کے مقابلے میں پانچ چھ لڑکے پیدا ہوں گے تو آبرو ریزی جب بھی ہو گی، اجتماعی ہی ہو گی۔ اوباش لڑکوں کی ٹولیاں لوگوں کی عزتوں کو خاک میں ملایا کریں گی۔ یہ کوئی پیشگوئی نہیں، انتباہ ہے جو ہر دیوار پر لکھا ہے۔
اب میں آتا ہوں پاکستان کی طرف۔ ایسا تو کوئی امکان نہیں کہ قوم کو ایک ڈوری پکڑکر چلنا سکھایا جائے اور اب جب کہ زندگی میں دین اور مذہب کا دخل بڑھتا نظر آرہا ہے، یہ کہنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے کہ تین چار بچوں پر قناعت کریں ۔ پرانے زمانے میں دس بچے پیدا کرنا عام بات تھی۔ اوّل تو یہ کہا جاتا تھا کہ رزق کا وعدہ ہوچکا، اوپر والا کھانے کیلئے ایک منہ دیتا ہے تو کمانے کے لئے دو ہاتھ بھی تو عطا ہوتے ہیں۔دوسری بات یہ کہی جاتی تھی کہ جنگ، قحط، قدرتی آفات اور بیماریوں میں تین چار بچے مر ہی جاتے ہیں اس لئے دس بچے پیدا کرنے ہی میں عافیت ہے۔
اب جب کہ طب کے علم کی بدولت بچوں کی اموات کم ہو گئی ہیں لوگ اب بھی آٹھ آٹھ دس دس بچے پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ ایسی اولادوں کا کیا حشر ہوتا ہے، کسی قسم کی روک تھام کیلئے تیار نہیں اور مسلسل کہے جاتے ہیں کہ قدرت کے کام میں دخل اندازی کی تو گناہ پڑے گا۔اب کوئی ایسا جیالا نہیں جو جبری نس بندی کرائے۔ سنا ہے عورتیں کوئی ایسا انجکشن لگوا سکتی ہیں جس کے بعد کچھ عرصے اولاد نہیں ہوتی۔غضب یہ ہے کہ شوہر کو اس بات کا علم ہو جائے تو بیوی کو مارتا ہے، گھر سے نکال دیتا ہے اور شوہر پن زیادہ زور مارے تو منہ پر تیزاب پھینک دیتا ہے۔
ایسے میں اگر بچوں کے غول کے غول نکل کر باہر گلی کوچوں میں اُدھم مچائیں گے اور گھر کے اندر روٹیاں تھوپنے والی ماں کو ہوش بھی نہ ہوگا کہ کون سا بچہ کس گلی میں اچھل کود کر رہا ہے تو کیا ہوگا، بچے اٹھا کر لے جانے والے یوں نہیں کریں گے کہ جو بچہ ہاتھ لگے اسے اٹھا لیں بلکہ پھر تو وہ چھانٹ کر اپنی پسند اور اپنی مرضی کا بچہ لے جائیں گے اور ان کے اندر کا وحشی اپنی ہوس کاری کے جوہر دکھائے گا۔
کراچی کے ایک ایف ایم ریڈیو اسٹیشن سے اعلان ہوا کرتا تھا کہ دیکھ لیجئے ، آپ کے گھر کا دروازہ کھلا تو نہیں رہ گیا۔اطمینان کر لیجئے، بچے کھیلتے کھیلتے باہر تو نہیں نکل گئے۔ اگر بچے گھر کے سامنے کھیل رہے ہیں تو گھر کا کوئی بڑا ان کی نگرانی کر رہا ہے ؟صبح شام بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ وہ کسی اجنبی سے بات نہ کریں، کسی سے مٹھائی یا کھلونے نہ لیں، ان کے ساتھ ہر گز نہ جائیں اور بھاگ کر گھر کے اندر آجائیں۔
یہ بہت سنگین دن ہیں، قانون صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ وہ مخلوق جس کا نام پولیس ہے خدا جانے کس دنیا میں رہتی ہے، تفتیش کے فرسودہ طور طریقے، مجرم کو تلاش کرنے کے انیسویں صدی کے ڈھنگ، نہ دور بین، نہ خورد بین، نہ لیبارٹری نہ رصد گاہ، نہ سائنس کا علم نہ فارنسک کی سمجھ، وہی دادا پردادا کے زمانے کے تھانے لئے بیٹھے ہیں جہاں آنکھوں پر موٹا چشمہ لگائے ایک بد خط محرر الٹی سیدھی رپٹ لکھ کر کیس کو کمزور کرنے کے اپنے کمالات دکھا رہا ہے۔ ایک حالیہ کیس میں پانچ آدمی گرفتار کرنے کے بعد تفتیش کو کمزور کر کے پانچوں کو چھوڑ دیا گیا۔ آخر ایک اے ایس آئی معطل ہوا اور وہ پانچوں دوبارہ گرفتار ہوئے۔کیا ایسی پولیس سے یہ امید باندھیں کہ یہ ملک میں قانون کا بول بالا اور جرائم کا منہ کالا کرے گی؟
لاہور میں پانچ سال کی ایک بچّی پر مجرمانہ حملہ ہونے کی دیر تھی، ہر روز ہر طرف سے خبریں آنے لگیں کہ جگہ جگہ بچیوں یا جوان لڑکیوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ یوں لگا جیسے آبرو ریزی کی لہر سی آگئی ہے مگر یہ کوئی نئی لہر نہیں۔ یہ وحشیانہ کارروائیاں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ سب کو خبر ہے تو ان سب میں پولیس سر فہرست ہوتی ہے۔ مگر وہی بات ہے کہ جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت جھلنگی کھاٹ جیسی ہو وہاں ایک کسی ہوئی ادوائن والا مستحکم نظام کہاں سے آئے گا۔
اب سب سے اہم بات جس کا تعلق سزا کے نظام سے ہے ۔رہی سہی کسر اس نظام نے پوری کی ہے۔ سزا کا مقصد اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجرم کو تکلیف پہنچائی جائے۔ حالانکہ سزا کا واحد مقصد جرم کا توڑ فراہم کرنا ہے یعنی سزا کا نظام اس آن بان سے موجود ہو کہ لوگ جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔ ان کی حوصلہ شکنی ہو، ان پر خوف طاری ہو اور اچھی طرح احساس ہو کہ دھر لئے گئے تو کیا درگت بنے گی۔
سوچتا ہوں کہ برصغیر میں میرے دادا پر دادا کے زمانے میں سزا کا جو تصور تھا وہ اتنا ناقص تو نہ تھا کہ یکسر ترک کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر حوالات کی کوٹھڑیاں سڑک کے کنارے اس طرح بنائی جاتی تھیں کہ آتے جاتے راہگیر قیدیوں کو دیکھ سکیں، انہیں پہچانیں، ان پر طنز کریں، محلے کے لڑکے انہں ستائیں اور آتی جاتی خواتین انہیں شرم دلائیں۔ سزا کا یہ ڈھنگ ترک ہوا۔ مجرموں کو توپ دم کرنے یا ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کو مانا کہ بہت ہی بے رحمانہ طریقے تھے لیکن سر عام پھانسی پر لٹکانے کا چلن تو آج تک کئی ملکوں میں ہے۔ پرانے وقتوں میں تو برصغیر میں لوگ کئی کئی دن پھانسی پر لٹکے رہتے تھے تاکہ دنیا انہیں دیکھے اور عبرت پکڑے۔ اسی طرح کالے پانی کی سزا تھی۔ لوگوں کو منظر سے ہٹا دیا جاتا تھا ۔ دنیا انہیں بھلا دیتی تھی اور اس سرزمین سے ان کا نقش تک محو ہو جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ جو سزا دنیا کیلئے عبرت کا سبب نہ بنے، بہتر ہے اسے کوئی دوسرا نام دے دیا جائے۔ ہم کہا تو کرتے ہیں کہ کمسن بچیوں پرمجرمانہ حملے کرنے والوں کو نشان ِ عبرت بنا دیں گے مگر کیسے بنادیں گے جب کالے کوٹ والی مخلوق انہیں چھڑا لے جانے کے سارے حربے جانتی ہے اور اُس وقت حیران کرتی ہے جب درندہ صفت وحشیوں کے حق میں ایسے ایسے دلائل دیتی ہے جیسے کٹہرے میں کوئی انسان نہیں، کوئی فرشتہ کھڑا ہو جس کے سر پر نور کا ہالہ ہو۔ مجھے اس وقت اور بھی حیرت ہوتی ہے جب ایسے مقدمے ہارنے والے وکیل کو جھوٹا کیس لڑنے کی سزا بھی نہیں دی جاتی۔ اسے کچھ بھی نہیں کہا جاتا، اس سے غریب فریادی کے اخراجات بھی نہیں دلوائے جاتے۔
قانون کا یہ نظام وقت سے کٹ چکا ہے۔اس کا آج کے دور سے تعلق ہی نہیں رہا۔ صاف بات یہ ہے کہ جب تک انصاف کی بالادستی نہیں ہو گی، گھر کے سامنے کھیلنے والی بچیاں اٹھائی جاتی رہیں گی ۔ہم ان کا سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھتے رہیں گے۔یہ منظر خود کو اتنی بار دہرائے گا کہ ہماری آنکھ سے بس ایک آنسو ٹپکے گا، تپتے ہوئے رخسار پر آکر کچھ دیر ٹھہرے گا، وہیں بھاپ بن کر اُڑ جائے گا اور کسی کا دامن تر نہیں ہو گا۔
تازہ ترین