سپریم کورٹ کے حالیہ تاریخی فیصلے کے بارے میں مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بے لاگ تبصروں کا سلسلہ گزشتہ چار رو ز سے زور و شور سے جاری ہے، وہ لوگ جو آئین اور قانون سےنابلدہیں وہ بھی اس حساس موضوع پرطبع آزمائی کر رہے ہیں۔ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا مگر قانون کے ایک طالب علم اور وکیل ہونے کی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر تبصرے کرنے والے اناڑی لوگوں کی کچھ رہنمائی کر دوں تاکہ ان کے ذہن میں اگر کوئی تحفظات ہیں تو وہ صاف ہو جائیں۔ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ ججوں کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال صاحب کر رہے تھے جبکہ اس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔ کارروائی کا آغاز نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی اسمبلی کےفلور پر 3اپریل کو پرائم منسٹر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کے خلاف رولنگ کی تھی، اِس رولنگ کے تحت آئین کے آرٹیکل 5 کا سہارا لیتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا گیا اور وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کر دی۔ صدر نے آناً فاناً عمل درآمد کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم صادر کردیا جو کہ آئین کے تحت وہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ گویا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی اور آئین کے منافی تھی اور اس کے بعد پرائم منسٹر کی ایڈوائس جو آئین کے آرٹیکل 58(1) کے تحت وہ دینے کے مجاز نہیں تھے، صدر پاکستان نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم دے دیا جس کا وہ اختیار نہیں رکھتے تھے۔ ان غیر قانونی اقدامات کا سوموٹو نوٹس جناب چیف جسٹس صاحب نے خود لیا اور یہ ازخود نوٹس نمبر 1/22 کے تحت رجسٹر ہوا اور اس کے ساتھ ہی تمام متاثرہ فریقین کی طرف سے پٹیشن داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس میں آئینی درخواستیں نمبر 3 تا 7 داخل ہوئیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بذریعہ صدر سپریم کورٹ بار، پاکستان مسلم لیگ نواز بذریعہ ملک احمد خان، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بذریعہ جنرل سیکرٹری سندھ بار کونسل کیس داخل کیا گیا۔ ان تمام درخواستوں کی سماعت مقرر کی گئی۔ تمام درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل اپنی درخواستوں کے حق میں دیئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں 28 وکلا کے نام لکھے ہوئے ہیں جو فریقین کی طرف سے سماعت کے دوران پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے پیرا گراف نمبر 4 میں لکھا ہے کہ پرائم منسٹر کی صدر پاکستان کو دی جانے والی ایڈوائس آئین کے منافی تھی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 58(1) کے تحت پرائم منسٹر ایسی ایڈوائس جاری کرنے کے مجاز نہیں تھے لہٰذا صدر پاکستان کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔فیصلے کے پیرا گراف نمبر 5 میں لکھا گیا کہ صدر پاکستان کا 3اپریل کا اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم آئین کے منافی ہے، اسمبلی کا وجود قائم ہے اور صدرِ پاکستان کے 3اپریل کے حکم کے تحت عمل میں آنے والے تمام اقدامات غیر قانونی ہیں اور کالعدم قرار دیے گئے۔ اب عام لوگ اور اینکر حضرات بغیر آئین کے آرٹیکلز کو پڑھے اپنے من پسند تبصرے کرکے عوام کو کنفیوژکر رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کا مشترکہ فیصلہ آئین کے عین مطابق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع تو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی نہیں کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے بغیر کسی کوسنے ایک منٹ میں آئین کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیتے ہوئے عدم اعتماد کی قرار داد کو رَد کردیا اور فوراً ہی پرائم منسٹر نے صدرِ پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے دی اور صدر پاکستان نے بھی فوراً عملدرآمد کردیا۔ یہ تمام کارروائی ایک اسکرپٹ کے تحت چند منٹوں میں مکمل ہوئی۔ ہم عوام جو ٹی وی کی اسکرین پر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ اور اپنے کانوں سے سن رہے تھے کہ اراکین نے کمال صبر سے کام لیا اور کسی قسم کا کوئی ہنگامہ کھڑا نہ کیا۔ یہ اچھا ہوا کہ اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں نے قانون کاسہارا لیا اور فوری طور پر سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ بھلا ہو چیف جسٹس آف پاکستان کا کہ انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کےبعد اپنا پہلا سوموٹو اختیار پاکستان کے آئین کی بقا کے لیے استعمال کیا اور کیس کی فوری سماعت کرکے جلد اور بروقت فیصلہ کرکے جمہوریت کی بقا ممکن بنائی۔ اس تاریخ ساز فیصلے پر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن دم بخود رہ گئے ہیں، انہوں نے اب سوشل میڈیا پر ایک مذموم قسم کے پراپیگنڈے کا آغاز کردیا ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر اب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں جناب عمران خان صاحب اس ملک کے وزیراعظم نہیں رہے مگر شرپسند عناصر اب بھی باز نہیں آ رہے۔ میں نے یہ کالم ریکارڈ درست رکھنے کیلئے عوام کی آگاہی کیلئے لکھ دیا ہے۔ بطور وکیل میری رائے میں یہ بالکل درست، عمدہ اور بروقت فیصلہ ہے۔ فیصلے کی خوبی یہ ہے کہ مشترکہ ہے، آئین کے عین مطابق ہے اور قانونی حلقوں میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی ہے۔ اس کیلئے ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان خراجِ تحسین کےمستحق ہیں۔ ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور پوری قوم سپریم کورٹ کی شکر گزار ہے۔ان تمام واقعات میں اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج نے بھی اہم کردار ادا کیا وہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتہائی مدبرانہ طریقے سے وکلا اور سپریم کورٹ کے آئینی اقدامات کا جائزہ لیتے رہے اور کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔ اگرچہ شرپسندوں نے مارشل لا لگنے کی افواہیں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پاک فوج نے اپنے آپ کو اِس معاملے سے الگ رکھا جس پر وہ بھی خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔ (صاحب تحریر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ہیں)