پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دھمکیوں کے خلاف دن رات کام کر رہی ہیں۔
’’نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیئے میں سازش کا لفظ نہیں‘‘
انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیئے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، آج کی پریس بریفنگ کا مقصد قومی سلامتی کی صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے۔
’’ پاکستان کو کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو اس آنکھ کو نکال دینگے‘‘
ان کا کہنا ہے کہ 3 ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اس آنکھ کو نکال دیں گے۔
’’9 اپریل کی رات عمران خان سے آرمی چیف کی ملاقات نہیں ہوئی‘‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے 9 اپریل کی رات سے متعلق بی بی سی اردو کی اسٹوری کے حوالے سے بتایا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں، بی بی سی نے بہت ہی واہیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔
’’صدر کے چیمبر میں 2 افسران کی ملاقات کا علم نہیں‘‘
ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں۔
’’عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا‘‘
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیرِ اعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں۔
انہوں نے بتایا ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر 3 چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیرِ اعظم کا استعفیٰ، تحریکِ عدم اعتماد واپس لینا اور وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ تیسرے آپشن پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ قابلِ قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف نے پی ڈی ایم رہنماؤں کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔
’’آرمی چیف توسیع نہیں لینگے، اسی سال ریٹائر ہو جائینگے‘‘
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو مدتِ ملازمت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے، آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، فوج مستقبل میں بھی اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔
’’کسی کے پاس ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی ہے تو سامنے لائے‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی ہے تو سامنے لائے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو ہمارا جواب ’ایبسیلیوٹلی ناٹ‘ ہی ہوتا۔
’’پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے، پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جلسے جلوس جمہوریت کا حصہ ہیں۔
’’ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا‘‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بتایا کہ اس دن آرمی چیف کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ اس دن آفس بھی نہیں آئے تھے۔