• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کتنے ارب ڈالر کا مقروض ہے ؟ ہمارا تجارتی خسارہ کتنا ہے ؟ ملک میں مہنگائی کی شرح کیا ہے ؟ گزشتہ پانچ برسوں میں ہماری برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ارب ڈالر ہیں اور اِس میں دوست ممالک کا کتنا حصہ ہے ؟چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہم نے کتنے ڈالر واپس کرنے ہیں ؟ ہمارے ملک کاتیل کی درآمد کا سالانہ بِل کتنا ہے ؟ جی ڈی پی کی سالانہ شرح کیا ہے؟گزشتہ پندرہ برسوں میں ہم نے کتنے ارب ڈالر کے قرضے لیے اور کتنے واپس کیے؟ ملک میں اِس وقت کتنے میگاواٹ بجلی کی کمی ہے؟پاکستان میں اِس وقت بیروزگاری اور غربت کی شرح کیاہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے لیکن میں چونکہ دودھ پیتا بچہ نہیں اِس لیے یہ اعتراف کررہا ہوں کہ اِن میں سے بیشتر سوالوں کے جواب مجھےمعلوم نہیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ یہ کون سی مشکل بات ہے،گوگل کرو اور سب جان لو۔ شاید ایسا ہی ہو مگر اِس بات کا انحصار آپ کی نظریاتی وابستگی پہ ہے، آپ جس قسم کی معلومات چاہیں گے اُس قسم کی معلومات آپ کو مل جائیں گے۔ انگریزی میں اسے Confirmation Bias بھی کہتے ہیں۔ یعنی بندہ جو نظریہ اپنانا چاہتا ہے وہ اسی کی تصدیق کے لیے من پسند حقائق اکٹھے کرتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ پندرہ برس میں کتنا قرض لیا اور کس حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا اور کس نے سب سے زیادہ قرض اتارا تو آپ کے جواب کا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ آپ کس حکومت کو پسند کرتے ہیں، پھرآپ کو اپنی پسند کی جماعت کے حق میں ہر قسم کے ’حقائق ‘ گوگل سے مل جائیں گے۔ یو ٹیوب نے یہ کام مزید آسان کردیا ہے، ہر بندے نے اپنا چینل بنا لیا ہے، اُس چینل کی مشہوری کے لیے یار لوگ چٹ پٹی سرخیاں (بینر) بناتے ہیں اور پھر اپنی وڈیو میں دنیا جہان کی افواہیں اکٹھی کرکے نشر کر دیتے ہیں، ایسی وڈیوز چونکہ بہت رش (ویوز) لیتی ہیں لہٰذا گوگل، جسے اب تک آپ کے من پسند بیانیے کا اچھی طرح علم ہو چکا ہے، اِس وڈیوا اور اس سے متعلقہ خبروں کو بھی ’تلاش ‘میں اوپر لے آتا ہے اور یوں ہم اِس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم نے گوگل سے درست اور مستند معلومات اکٹھی کی ہیں۔

ایک تجربہ کرکے دیکھیں۔ اپنی مرضی کا کوئی بھی سوال گوگل کریں اور دیکھیں اِس کا کیا جواب آتا ہے۔ آپ کے ایک کلک پر ہزاروں ویب سائٹس کھل جائیں گی، اُن میں ایسی بھی ہوں گی جہاں آپ کو اپنی مرضی کا جواب مل جائے گا لیکن مستندویب سائٹس صرف چند ہی ہوں گی اور انہیں چھانٹی کرنا ہی اصل کام ہے۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں، مثلاً اگر آپ پاکستان کے قرضوں کی تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کسی سیاسی بیان پر ایمان لانے کی بجائے اسٹیٹ بینک آف پاکستان یا وزارت خزانہ کی ویب سائٹ دیکھ لیں، مہنگائی کی شرح جاننا چاہتے ہیں تو ادارہ برائے شماریات سے رجوع کر لیں اور ملک میں بجلی کی پیداوار کے بارے میں حقائق اکٹھے کرنےہوں تو وزارت بجلی و پانی کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ ملک میں اِس وقت جعلی خبروں اور من گھڑت اعداد و شمار کا ایسا شور و غوغا ہے کہ کان پڑی سچائی سنائی نہیں دیتی۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ آئے دن سرکاری اداروں کی ویب سائٹس کوسوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جعلی خبروں اور اعداد و شمار کی تردید کرنی پڑتی ہے ۔ سچ پوچھیں تو اِس سارے کھیل میں اصل مجرم سوشل میڈیا کے اکھاڑے (پلیٹ فارمز) ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتو گوگل، یو ٹیوب، فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام پر امریکہ جا کر مقدمہ دائر کردوں۔ ایلون مسک نے 44ارب ڈالر کے عوض ٹویٹر خرید لیا ہےجبکہ فیس بک اور وٹس ایپ مارک زکر برگ کی ملکیت میں ہے۔ یہ کمپنیاں اور اُن کے ارب پتی مالک پیسہ کمانے کا تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر اِس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ اُن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کوئی گمراہ کن خبر یا من گھڑت اعداد و شمار نہیں پھیلائے جائیں گے۔ گزشتہ دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ نظر سے گزری جس میں مستند سرکاری ویب سائٹ کا حوالہ دے کر اُن بیشتر سوالوں کا جواب بتایا گیا تھا جوآج کل ہر بندے کی زبان پر ہیں۔ افسوس کہ پاکستانی میڈیا کی ایسی کوئی کاوش سامنے نہیں آئی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینل غلط اور گمراہ کن خبروں اور من گھڑت حقائق کو درست کرنے کا ایک سلسلہ شروع کریں۔ اخبارات میں ایک علیحدہ سیکشن بنا دیا جائے جس کا نام ہی ’فیکٹ چیک‘ ہو اور وہاں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کی پڑتال کرکے بتایا جائے کہ فلاں خبر کس طرح غلط ہے اور حقائق کیسے مسخ کیے گئے ہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے یہ سلسلہ شروع کیا ہوا ہے مگر پاکستان میں اِس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ یہاں جلسوں کی جعلی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں، جعلی سرکاری خطوط پر خبریں بنائی جاتی ہیں اور اگر کہیں سند کی زیادہ ضرورت پڑ جائے تو کسی چیتھڑا نمااخبار میں شریف آدمی کی تصویرلگا کر خرافات شائع کر دی جاتی ہیں۔ میرے والدصاحب خود ایسی گھٹیا کردار کشی کا شکار بن چکے ہیں۔ لیکن اِن تمام باتوں کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جعلی خبروں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اظہار رائے پر پابندی لگادی جائے، جعلی خبروں کی روک تھام کا حل ہتک عزت کے قانون کو مضبوط بنانے میں ہے، ہمارے ہاں چونکہ اِس قانون کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اِس لیے کردار کشی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اُس میں تو اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ جعلی خبروں کو درست سمجھ لیتے ہیں اور اُس پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسی کو اِس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ برٹرینڈ رسل بن کر اپنے تعصبات کو پرے رکھے اور محض حقائق کی چھانٹی کرکے رائے قائم کرے، قریباً نا ممکن ہے۔

کالم کی دُم:ابھی ابھی ایک ٹویٹ نظر سے گزری، کسی ستم ظریف نے ایلون مسک کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے :’’آل پاکستان انجمن آرائیں اتحاد کی جانب سے میاں ایلن مسک (امریکہ ) کو نیا کاروبار شروع کرنے پر مبارکباد۔‘‘خدا کو جان دینی ہے، ہم جس قسم کی بھی قوم ہیں، پر ہماری حسِ مزاح کا کوئی مقابلہ نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین