نعیم ہاشمی پاکستان کی ان فلمی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، جن کو پاکستان کی فلم انڈسٹری کا معمار قرار دیا جاتا ہے، بظاہر تو وہ ایک فلم اسٹار تھے، مگر ان کی ذات کے حصار میں ایک بلند فکر شاعر اور ایک جید قلم کار بھی محبوس تھا۔ وہ ایک جدت پسند ہدایت کار بھی تھے، جس کا ثبوت انہوں نے اپنی اُردو فلم ’’ نگار‘‘ کی ڈائرکشن سے فراہم کیا، وہ فلم18جولائی1957ء کو لاہور اور سرکٹ کے دیگر سینما ہاؤسز میں نمائش ہوئی تھی، شاہینہ اور امان ’’نگار‘‘ کے مرکزی کردار تھے، جبکہ ایم اسماعیل نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اس فلم کا دفتر رائل پارک لاہور کی شیخ بلڈنگ کے اس فلور پر تھا جس پر بعد ازاں پاکستان کے ممتاز لوک اور فلم گلو کار اور فلم اسٹار عنایت حسین بھٹی نے اپنا دفتر قائم کیا تھا اور وہاں سے ’’چن مکھناں‘‘، ’’سجن پیارا‘‘، ’’ظلم دا بدلہ‘‘ اور متعدد دیگر فلمیں نمائش کے لیے پیش کیں، جن دِنوں ’’نگار‘‘ کا دفتر اس فلور پر تھا ’’ نعیم ہاشمی‘‘ کے کمرے کے باہر ان الفاظ کی حامل ایک ’’تختی‘‘ آویزاں ہوتی تھی ’’ڈائریکٹر سردار نعیم ہاشمی‘‘ بلاشبہ ان کے شخصی انداز بھی ایک تصوراتی ’’سردار‘‘ سے مختلف نہیں تھے، ہماری ان سے پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی، جب ہم شیخ ایم شفاعت کے مقبول اخبار ’’مغربی پاکستان‘‘ مَیں ’’چیف رپورٹر‘‘ کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقبول فلمی ہفت روزہ ’’اُجالا‘‘ کو بھی ایڈٹ کر رہے تھے اور اپنے صحافیانہ فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں فلم اسٹوڈیوز کا ’’راؤنڈ‘‘ کرتے رہتے تھے، اس زمانے میں روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کے چیف نیوز ایڈیٹر حاجی صالح محمد صدیق ہوتے تھے اور اس اخبار کا دفتر اس بلڈنگ میں ہوتا تھا، جس کو گرا کر ’’واپڈا ہاؤس‘‘ تعمیر کیا گیا، اِسی بلڈنگ میں لاہور پریس
کلب بھی تھا، جس کے نیچے مال روڈ کی طرف دو شراب خانے بھی تھے، چنانچہ ناؤ نوش کے شوقین صحافی اوپر کے برآمدے سے رَسے کے ساتھ بالٹی باندھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے اور مطلوبہ اشیاء اوپر کھینچ لیتے تھے، اس ہوٹل کے ایک حصے میں اسمبلی بلڈنگ کی طرف میٹرو ہوٹل بھی قائم تھا، جس کے کھلے گراؤنڈ فلور پر رات کو کوئی نہ کوئی رقاصہ رقص کناں رہتی تھی اور ’’ہَوزی‘‘ بھی ہوتی تھی، اسی زمانے، یعنی 1960-61ء میں روز نامہ ’’ مغربی پاکستان‘‘ کے دفتر کے باہر والے کمرے میں بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر فلم ساز شیخ شوکت نے اپنی ایک فلم کا آغاز کرنے کے لیے دفتر قائم کیا تھا۔ علی سفیان آفاقی اسکرپٹ لکھ رہے تھے، جبکہ خلیل قیصر بطور ڈائریکٹر منتخب کئے گئے تھے انہی دِنوں خلیل قیصر کی ’’شہید‘‘ کا آغاز بھی ہو چکا تھا اور اس کے لیے منیر نیازی کی وہ غزل گلوکارہ نسیم بیگم کی آواز میں موسیقار رشید عطرے نے ریکارڈ کر لی ہوئی تھی،جس کا مطلع تھا:
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ایک روز نعیم ہاشمی ہمیں ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے نسیم بیگم کی آواز کی داد دی۔ اس زمانے میں وہ بطور ایک فلم اسٹار ایک ایسے مقام پر تصور کئے جاتے تھے کہ پوری فلم انڈسٹری میں ان کو تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ نعیم ہاشمی اپنے حسن وجمال کی وجہ سے مشہور تھے جب ’’پرنس آف لاہور‘‘ ایم ڈی کنور کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ ہم کیا خوبصورت ہوں گے، خوبصورت تو ایم ڈی کنور ہوتے تھے کہ انار کلی بازار لاہور میں جن کی ایک جمالیاتی جھلک دیکھنے کے لیے ہم ان کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے، وہ نعیم ہاشمی کو اپنے عالم شباب ہی سے جانتے تھے ۔ رفیق انور سےہمیں یٰسین چودھری نے ملایا تھا وہ وہی یاسین چودھری ہیں جو پاکستان کے ایک سابق سینیٹر طارق چودھری کے بڑے بھائی ہیں اور جنہوں نے بڑے اصرار سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو ان کی آخری علالت کے دور ان امریکہ میں علاج کرانے پر آمادہ کر لیا تھا،مگر ہوتا تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اور اس حقیقت کو نعیم ہاشمی بھی تسلیم کرتے تھے اور گفتگو کے دوران واضح کر دیا کرتے تھے کہ جب سب کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے تو مَیں کیوں اپنے اس طمطراق کو نظر انداز کروں جو قدرت کی طرف سے میری شخصیت کو ودیعت ہوا ہے،چنانچہ جب ہدایت کار ’’لقمان‘‘ کی فلم ’’ایاز‘‘ میں وہ ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے تو لقمان نے کہا کہ ہاشمی صاحب اپنے ڈائیلاگ ادا کرتے ہوئے اپنے’’ فٹ ورک ‘‘کی طرح کیمرے کو بھی ملحوظ ر کھا کیجئے تو نعیم ہاشمی نے کہا کہ ایک آرٹسٹ پر پرفارمنس کے دوران کیمرے کی مجبوریوں کا احساس کرنا ایک ناممکن کام ہے وہ تو ایک کیمرہ مین کا فرض ہے کہ آرٹسٹ کی موومنٹ کے مطابق اپنے کیمرے کو متحرک کرنے کی صلاحیت کا اظہار کرے، نعیم ہاشمی نے اپنے مکالمے خود ’’ری رائٹ‘‘ کر کے پُرشکوہ بنائے تھے، اِسی طرح خاور نعیم ہاشمی کے مطابق فلم نورِ اسلام کی وہ مشہور نعت بھی نعیم ہاشمی ہی نے تحریر کی جس کا مکھڑا ہے:
شاہِ مدینہ یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
مگر اس زمانے میں جو گراموفون ڈسک تیار ہوتے تھے ان پر تنویر نقوی کا نام تحریر ہو گیا اور پھر اسی طرح چلتا رہا، مگر بعض لوگ اس حقیقت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ فلم انڈسٹری میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں مثلاً جس زمانے میں، یعنی1968ء میں فلم ساز و اداکار اسد بخاری اپنی پنجابی فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ بنا رہے تھے تو اس کی مشہور دھمال
’’ہو لعل میری پَت رکھیو، بھلا‘
لکھنے کی کئی شاعروں نے کوشش کی، مگر فلم ساز اور موسیقار نذیر علی مطمئن نہ ہوئے تو پھر مجھے مدعو کیا گیا اور مَیں نے وہ دھمال مکمل کی، لیکن فلم ساز اور ہدایت کار اور موسیقار کی کوتاہی کے باعث اس فلم کے پروڈکشن منیجر سے ساز باز کر کے ایک اور نغمہ نگار نے گراموفون ڈسک پر اپنا نام لکھوا لیا اور وہ ایک مدت تک اِسی طرح چلتا رہا، گویا میرا کریڈٹ واقعاتی غلطی کی وجہ سے کسی اور سے منسوب ہو گیا۔