ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
فخرِ دوعالم،سیّدِ عرب وعجم، رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ کے خصائص اور آپﷺ کے امتیازات میں سے ایک نمایاں ترین خصوصیت اور امتیاز آپﷺ کا خاتم النبیین ،امام الانبیاء اور سیّد المرسلین ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی ذاتِ گرامی پر سلسلۂ نبوّت و رسالت کو ہمیشہ کے لیے ختم اور دین کو مکمل کردیا۔ آپﷺ کو جو شریعت عطا ہوئی، وہ ایک کامل و مکمل اورابدی ضابطۂ حیات ہے۔ جس نے پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اسی طرح سلسلۂ وحی کے ذریعے آپﷺ پر جو کتابِ مبین قرآنِ کریم کی صورت میں نازل ہوئی، وہ بھی تمام آسمانی کتابوں کی سردار اور پچھلی تمام الہامی کتابوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ یہ کتابِ ہدایت دین و دنیا کی فلاح و سعادت کا سرچشمہ اور رشد و ہدایت کا ابدی خزینہ ہے۔
بائیس سال پانچ ماہ کی مدّت میں نازل ہونے والے پیغامِ رشد و ہدایت ، کلامِ مبین ، قرآنِ کریم جو تیس سپاروں ، سات منزلوں، ایک سو چودہ سورتوں، پانچ سو چالیس رکوع، چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ، چھیاسی ہزار چار سو تیس کلمات، تین لاکھ تئیس ہزار سات سو ساٹھ حروف پر مشتمل ہے،اس میں ایک ہزار آیاتِ وعدہ، ایک ہزار آیاتِ وحی ، ایک ہزار آیاتِ امر، ایک ہزار آیاتِ نہی،ایک ہزار آیاتِ مثال،ایک ہزار آیاتِ قصص، دوسو پچاس آیاتِ تحلیل، دوسو پچاس آیاتِ تحریم، ایک سو آیاتِ تسبیح، چھیاسٹھ آیاتِ متفرقہ، اور جملہ چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں، یہ ایک جامع اور کامل ترین دستورِ زندگی ہے۔
’’قرآنِ کریم ‘‘ دستورِ ہدایت اور آئینِ فلاح و سعادت ہے۔ یہ تمام گزشتہ آسمانی کتابوں اور الہامی علوم و معارف کا خلاصہ، نسخۂ کیمیا اور گنجِ گراں مایہ ہے۔ جس طرح سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، ختمی مرتبت، حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی میں تمام اعلیٰ اوصاف و امتیازات، خصائص و محاسن جمع کردیے گئے ،اسی طرح کتابِ مبین قرآنِ کریم بھی وہ سرچشمۂ ہدایت ہے،جس کی تعلیمات کی اثر انگیزی اور فیوض و برکات کا سلسلہ تا ابد جاری رہے گا۔ آپﷺ پر نازل کی جانے والی اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے بلند شان اور بلند مرتبے سے نوازا ہے۔ یہ تما م الہامی علوم کی جامع کتاب ہے۔ اس میں ہر دور اور ہر عہد کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔اس کی پیروی کامیابی اور نجات کی یقینی ضمانت ہے۔
مشہور مفسرِ قرآن امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں: ’’قرآنِ کریم تمام آسمانی صحیفوں کا خلاصہ اور ان کا نچوڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم پر ایمان لانا تمام آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کے مترادف ہے اور قرآن کا انکار (اس پر ایمان نہ لانا )تمام الہامی کتابوں کا انکار ہے۔‘‘(امام رازی /تفسیرِ کبیر، جلد اوّل)
قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: بلا شبہ ، یہ قرآن سب سے سیدھے راستے کی طرف نشان دہی کرتا ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل) ایک مقام پر پوری انسانیت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اے لوگو! تمہارے پاس ، تمہارے رب کی جانب سے نصیحت آئی ہے اور شفاء دلوں کے روگ کی اور یہ ہدایت و رحمت ہے مسلمانوں کے لیے ‘‘۔(سورۂ یونس) ایک اور مقام پر فرمایا گیا: ’’لوگو! یقیناً تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک بڑی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک صاف اور واضح نور نازل کیا ہے۔‘‘(سورۃالمائدہ)سورۂ ابراہیم میں فرمایا گیا :’’یہ کتاب ہے، جسے ہم نے آپؐ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپؐ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم وہ نورِ ہدایت ہے جو بنی نوعِ انسان کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے ایمان و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ یہ وہ نور ہے جو ہدایت کی راہ پر گام زن کرتا ہے ، ایسی راہ دکھاتا ہے جو واضح اور روشن ہے، جو صراطِ مستقیم اور دین کا راستہ ہے۔
حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضوراکرمﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں تو حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا: تقویٰ کا اہتمام کرو کہ یہ تمام امور کی جڑ ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی ارشاد فرمائیں، تو حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو کہ یہ دنیا میں نور ہے اور آخرت میں ذخیرہ۔ (ابنِ حبّان/الصحیح)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولِِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن ایسی شفاعت کرنے والا ہے کہ اس کی شفاعت قبول کی گئی اور ایسا جھگڑالو ہے کہ جس کا جھگڑا تسلیم کرلیا گیا، جو شخص اسے آگے رکھے (اس کی تعلیمات پر عمل کرے، اس کی ہدایات پر غور و فکر کرے اور اسے اپنا پیشوا اور امام بنائے)یہ اسے جنّت کی طرف کھینچتا ہے اور جو اسے پسِ پشت ڈال دے، یہ اسے جہنم میں گرا دیتا ہے۔‘‘(ابنِ حبان، حاکم /المستدرک)
حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآنِ کریم) کے ذریعے بہت سی قوموں کو اونچا اٹھاتے ہیں (بلند مقام پر فائز کرتے ہیں)اور دوسری قوموں کو اس (پر عمل نہ کرنے) کی وجہ سے نیچے گراتے ہیں۔(صحیح مسلم ۔مشکوٰۃ)
اس امر پر تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قرآن کی تعلیمات اور ارشاداتِ نبویؐ پر عمل پیرا رہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا عروج عطا فرمایا کہ تاریخ جس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ صحرا و دریا ان کی ٹھوکر سے دو نیم ہوئے، پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی بنے، فارس اور روم کی سپر پاورز ان کے قدموں تلے روندی گئیں، مشرق و مغرب ان کے زیرِ نگیں ہوئے ۔ دنیا میں علم کی روشنی پھیلی، ہدایت کا نور عام ہوا، توحید سے دنیا منور ہوئی، لیکن جب اس غالب قوم کے بعد آنے والوں نے قرآن اور اس کی تعلیمات سے منہ موڑا تو ذلت اور پستی ان کا مقدر بن کے رہ گئی۔ اقبال اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں، بے شک، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: اے لوگو! آگاہ ہوجائو، عن قریب ایک عظیم فتنہ برپا ہونے والا ہے ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہﷺ ، اس فتنے سے نجات اور بچنے کی راہ کون سی ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے حفاظت کا ذریعہ قرآنِ کریم ہے۔ اس کے اندر تم سے قبل کے لوگوں کے حالات کا ذکر ہے اور تمہارے بعد قیامت تک پیش آنے والے امور اور حالات کی خبر ہے اور تمہارے باہمی معاملات کے فیصلے کا حکم اس میں موجود ہے۔ قرآنِ کریم حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، اس میں کوئی بات مذاق نہیں۔ جو شخص غرور اور تکبر کی وجہ سے قرآن کو ترک کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہلاک اور برباد کردیتا ہے۔
اس کی گردن توڑ کر رکھ دیتا ہے اور جو شخص قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت ڈھونڈتا ہے، اللہ اسے گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی مضبوط ترین رسّی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو یاد دلانے والی کتاب ہے۔ حکمت و دانائی عطا کرنے والی ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے،یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی پیروی کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی حق سے ہٹا کر دوسری طرف مائل نہیں کر سکتیں۔ اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دوسری زبانیں مشابہہ نہیں ہو سکتیں۔
اس کے علوم سے علما کی تشنگی نہیں بجھتی، وہ کثرتِ استعمال اور بار بار تکرار سے پرانا نہیں ہوتا،اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔قرآن ایسا کلام ہے کہ جب جنّات نے اسے سنا تو بلا توقف کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے، جو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے۔ لہٰذا ہم اس پر ایمان لے آئے۔ جوقرآن کے مطابق بات کرے، اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور جو قرآن پر عمل کرے، اسے عظیم ترین ثواب دیا جاتا ہے اور جس نے قرآن کے مطابق فیصلہ کیا ،اس نے انصاف کیا اور جو قرآنِ کریم کی جانب لوگوں کو بلاتا ہے، اسے سیدھے راستے کی توفیق بخشی گئی ہے‘‘۔(ترمذی، مشکوٰۃ)
صاحبِ قرآن ، نبی آخر الزّماں ﷺ سے زیادہ قرآنِ کریم کا مزاج شناس اور اس کا رمز آشنا اور کون ہوسکتا ہے؟ آپؐ کے فرمان کے مطابق یہ کتابِِ ہدایت ماضی کی قوموں کے عروج و زوال کا روشن آئینہ بھی ہے اور مستقبل کا نشانِ راہ بھی ۔ یہ رشد و ہدایت کا واضح دستور العمل ہے ۔ خورشید گیلانی مرحوم کے الفاظ میں ’’یہ کتابِ ہدایت احساس، شعور و ادراک، زبان اور عمل سب کی محافظ اور نگہبان ہے۔ جو بندۂ مومن اس کی نگرانی اور راہ نمائی میں سفرِ حیات طے کرتا ہے ، نہ اس کا احساس بھٹکتا ہے، نہ خیال الجھتا ہے، نہ زبان لڑکھڑاتی ہے اور نہ عمل مجروح ہوتا ہے‘‘۔
قرآنِ کریم اہلِ ایمان و تقویٰ کو راہِ راست دکھا تا ہے، انہیں صراطِ مستقیم پر گام زن کرتا ہے، یہ ہدایت و راہ نمائی کا بنیادی سر چشمہ ہے، اس کافیض عام اورجاری ہے،ایک انسان اس سے ہدایت پاکر ایمان اور کردار و عمل کے اعلیٰ مقام و مرتبے ’’اعلیٰ العِلّیین‘‘پر فائز ہوتا ہے، جب کہ دوسرا فرد اپنی کج روی ، ہٹ دھرمی، گمراہی، نافرمانی اور سر کشی کی بدولت ’’اسفلُ السّافلین‘‘اور نارِ جہنم کا حق دار ٹھر تا ہے۔
اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں، یہ قلوب و اذہان کا معاملہ ہے ۔ جیسے بارش گل و لالہ، سبزہ و باغ، بے آب و گیاہ وادی ، چٹیل اور بنجر زمین سب ہی کو یکساں سیراب کرتی اور سب ہی پر برستی ہے ، مگر گل و لالہ کِھل اٹھتے ہیں۔ سبزہ جاگ پڑتا ہے، باغات مہک جاتے ہیں، اور چٹیل اور بنجر زمین ویسی کی ویسی رہ جاتی ہے۔ ’’ھُدیٰ للمتّقین‘‘ کا یہی مفہوم ہے، ورنہ قرآن کا فیض تو پوری انسانیت کے لیے عام ہے، بقولِ شاعر:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہ روِ منزل ہی نہیں
یہ صحیفۂ ربّانی ہدایت و راہ نمائی کا عالم گیر اور ابدی سرچشمہ ہے، صحیفۂ ہدایت اور نورِ بصیرت ہے۔ ’’سورۃ الزمر‘‘ میں فرمایا گیا :ترجمہ: یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘
قرآن بندۂ مومن کی روح، اس کی جان، اس کا ایمان ہے۔ یہ دین و دنیا میں فلاح اور کام یابی کا وسیلہ اور آخرت میں نجات کا ضامن ہے، یہ انسانوں کو ان کی حقیقت سے آشنا کرتا، قدرت کے نظام پر غور و فکر کی دعوت دیتا اور کائنات کے اسرار و رموز ان پر منکشف کرتا ہے۔
بلاشبہ قرآنِ حکیم، کتابِ ربّانی، وسیلۂ شفاء، نسخۂ کیمیاء، اور ہدایت و بصیرت ہے۔ یہ وہ الہامی اور ربّانی کتاب ہے، جس نے دنیا سے کفر و ظلمت، شرک و بت پرستی ، اور ظلم و جہالت کے خاتمے میں کلیدی اور مرکزی کرادر ادا کیا۔ اسی کتابِ مبین قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کے فیض سے رشد و ہدایت کا سلسلہ عام ہوا اور دنیا ایمان کے نور سے منور ہوئی ۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل اور اس کی ہدایات نے تعقل ، تفکر، تدبّر، اور تذکر کے الفاظ کہہ کر عقل و خرد، فہم و شعور ، تفکر و تدبر اور اس کے نتیجے میں تسخیرِ کائنات کی راہیں ہم وار کیں۔
قرآنِ حکیم نے اپنے فکر و قالب میں ایسے لوگوں کو ڈھالا جو آنے والے ہر زمانے اور تاریخِ انسانی کے ہر دور کے لیے صداقت، شجاعت، عدالت، سخاوت، امانت، دیانت کا معیار اور انسانیت کے لیے روشن اور قابلِ تقلید مثال بن گئے۔ یہ کتابِ ہدایت گم کردہ راہ انسانیت اور قفل لگے قلوب کو فکر و شعور ، بصیرت و ادراک، اور ہداہت دینے کا سبب بنی، یہ ایمان کا سرچشمہ اور اعمال کا مرکز ہے۔
’’حجۃالوداع‘‘ کے موقع پر ختمی مرتبت ، رسالت مآبﷺ نے جو تاریخ ساز خطبہ دیا، وہ حقوق و فرائض کا ابدی منشور اور اسلامی تعلیمات کا عظیم چارٹر ہے ۔ اس مثالی خطبے میں آپؐ نے بطورِ خاص اور تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا : ترجمہ: میں تم میں ایک چیز چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ کیا ہے؟ کتاب اللہ (قرآنِ حکیم) آپؐ نے فرمایا : تم سے اللہ کے ہاں میری نسبت سوال کیا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا، اپنا فرض ادا کردیا ۔ (صحیح مسلم ، سنن ابو دائود)
اب پوری امّت کا یہ دینی اور منصبی فریضہ ہے کہ قرآنِ کریم کے پیغام، اس کی تعلیمات اور ابدی فیضان کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ہدایت کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ’’قرآن اور مسلمان ‘‘ یا’’ مسلمان اور قرآن ‘‘لازم و ملزوم ہیں۔
امّتِ مسلمہ کی عظمت و سربلندی، عزت و وقار، دین و دنیا میں کام یابی اور آخرت میں نجات اور سرخروئی کا راز صرف اور صرف قرآن و سنّت سے وابستگی میں مضمر ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے :ترجمہ: یہ کتاب ہے، جسے ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، تا کہ تم لوگوں کو(کفر و شرک کی) تاریکیوں سے نکال کر (دین و ہدایت کی ) روشنی میں لائو‘‘۔(سورۂ ابراہیم)
رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’اللہ تعالیٰ نے ہر امّت کو ایک شرف عطا فرمایا ہے، اس امّت کے لیے سب سے بڑا شرف اور سب سے بڑا سرمایہ ٔ افتخار قرآنِ کریم ہے۔‘‘ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآنِ کریم امّتِ مسلمہ کا عظیم سرمایہ ٔ افتخار ہے ۔
انگلستان کا نام ور مورخ ایڈورڈ گبن اپنی مشہور تصنیف ’’سلطنتِ روما کا انحطاط و زوال‘‘ میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے:’’قرآن کی نسبت بحرِ اٹلانٹک سے دریائے گنگا تک دنیا نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ یہ عظیم کتاب پارلیمنٹ کی روح ہے۔ ایک ابدی قانون ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شریعت سب پر حاوی ہے، یہ اپنی تعلیمات میں بڑے بڑے شہنشاہوں سے لے کر فقیر و گدا تک کے لیے احکام و مسائل رکھتی ہے۔ یہ وہ شریعت ہے جو ایسے دانش مندانہ اصولوں پر مرتّب ہوئی ہے کہ دنیا بھر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘
معروف ہندو دانش ور ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کا بیان ہے :’’وہ وقت دور نہیں کہ جب قرآنِ کریم اپنی مسلّمہ صداقتوں اور روحانی کرشموں سے سب کو اپنے اندر جذب کر لے گا ‘‘۔
کارلائل نے ایک موقع پر کہا تھا:’’ میرے نزدیک قرآن میں خلوص اور سچائی کا وصف ہر پہلو سے موجود ہے اور یہ بالکل کھلی اور سچی حقیقت ہے کہ دنیا میں اگر کوئی خوبی پیدا ہوسکتی ہے تو اسی (قرآن) سے پیدا ہوسکتی ہے‘‘۔