• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا یہ عجب حُسنِ اتفاق ہے کہ 1903 میں اورنگ آباد کے سیّد گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ابوالاعلیٰ مودودی رکھا گیا۔ اُس نے آگے چل کر خیالات و افکار کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب پیدا کیا۔ اُس کی ولادت سے تین سال قبل یورپ کے ملک آسٹریا میں ایک یہودی عالم اور بیرسٹر کے ہاں ایک بچے لیوپولڈ وائس (Leopold Weiss) نے جنم لیا۔ جوانی میں اُس نے قرآنِ حکیم کے شعوری مطالعے سے اسلام قبول کیا اور اَپنی بلند پایہ علمی اور تحقیقی تصنیفات سے دینِ اسلام اور پاکستان کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیں۔ اُنہی کی بنیاد پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں یہ (محمد اسد) سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہیں‘‘۔

اُن کی تصانیف میں "Road to Maah" کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ یہ پہلی بار یورپ میں 1954 میں شائع ہوئی جو اُس سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرار پائی۔ مشرق اور مغرب کے نامور ناشرین اُسے بڑے اہتمام سے شائع کر رہے ہیں اور دُنیا کی شاید ہی کوئی ایسی بڑی زبان ہو جس میں اُس کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ علامہ محمد اسد کی مسحور کُن تحریر کی گہرائی اور دِلکشی کے پیشِ نظر اُسے ڈاؤٹی (Doughty) کے سفرنامے سے بہتر سمجھا گیا۔ اُس میں ہوشربا مہم جوئی کے واقعات اعلیٰ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں۔ اُس میں مسلمانوں اور بالخصوص عربوں کی حقیقی زندگی کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے اور حقیقت اور اَفسانے کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ جرمن شاعر گوئٹے کی خودنوشت کی یاد دِلاتی ہے جس میں سچائی اور اَفسانہ گندھا ہوا ہے۔ بہت سے نومسلموں نے تلاشِ حق کے سفر کے بعد ایمان افروز واقعات تحریر کیے ہیں، مگر شاذونادر ہی ایسا ہوا کہ اُنہیں پڑھ کر کسی اور نے اِس راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہو۔ یہ سعادت صرف محمد اسد کی ’’شاہراۂ مکّہ‘‘ کے حصّے میں آئی ہے جس کے مطالعے سے امریکی یہودی خاتون مریم جمیلہ اور سابق جرمن سفیر مراد وَلفریڈ مشرف بہ اسلام ہوئے۔

شاہراۂ مکّہ میں 1932 تک کے حالاتِ زندگی بیان ہوئے ہیں جن میں اسلام کے قبول کرنے کے حیات آفریں لمحات کے علاوہ اُن پانچ برسوں کا احوال بھی شامل ہے جن میں وہ سعودی عرب رہے اور عربی زبان پر کامل قدرت حاصل کی۔ سعودی فرماں روا جلالۃ الملک عبدالعزیز اُنہیں اپنا فرزند کہتے تھے۔ سعودی عرب سے وہ ہندوستان آئے، لاہور میں عبدالقادر قصوری کے ہاں مہمان رہے اور پورے ہندوستان کا مطالعاتی سفر کیا۔ جلد ہی اُنہیں احساس ہو گیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور ایک خوفناک تضاد ہندوستان کے سیاسی حالات میں ہر سطح پر دکھائی دیتا ہے جس کے مضر اثرات مستقبل پر لازماً پڑیں گے۔ ایک طرف بےڈھنگے شرک اور توہمات کا بول بالا ہے اور دُوسری طرف اللہ کی وحدانیت اور آخرت کا تصور جزوِ ایمان ہے۔ ہندومت میں اچھوت کا تصور ہےجبکہ اسلام کا مقصد انسانوں کے مابین حقیقی برادرانہ اخوت اور یگانگت کو فروغ دینا ہے۔ محمد اسد اپنی خودنوشت ’’بندہ صحرائی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ برطانوی عہد میں ہندوؤں نے ہر شعبۂ زندگی میں برتری حاصل کر لی تھی اور وہ کھلے بندوں ’’ہندوستان ہندوؤں کے لیے‘‘ کا نعرہ بلند کیا کرتے تھے، مگر وہ یہ تاریخی حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی صرف معمولی تعداد غیرملکی فاتحین کی تھی یا مہاجرین کی اولاد تھی جبکہ اُن کی اکثریت نے کئی صدیوں کے دوران ہندومت چھوڑ کر اِسلام قبول کر لیا تھا۔

اُنھی دنوں انجمنِ حمایتِ اسلام کے منتظمین نے جناب محمد اسد سے رابطہ قائم کیا اور اِسلامی تہذیب اور یورپی تمدن پر اظہارِ خیال کرنے کی دعوت دی۔ اُنہوں نے تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں یہ حقیقت اجاگر کی گئی کہ قرآنی تعلیمات میں حیاتِ انسانی کے جس افادی پہلو کا ذکر آیا ہے، وہ ذاتِ خداوندی سے وابستہ ہے جو اِس مغربی تہذیب سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا جس کا محور و مرکز انسان اور صارف ہے۔ یہ تہذیب مدتوں پہلے روحانی اقدار سے رشتہ منقطع کر چکی ہے۔ اُن کے یہ خطبات "Islam at the Crossroad" (اسلام دوراہے پر) کے عنوان سے شائع ہوئے۔ یہی مایہ ناز تصنیف علامہ محمد اقبال سے ملاقات کا ذریعہ بنی جو ایک مسلم فلسفی اور قومی شاعر کے طور پر نہایت بلند مقام پر فائز تھے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا جن میں پاکستان کے امکانات پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا۔ علامہ محمد اسد نے اپنی سوانح عمری میں ایک بڑا غیرمعمولی واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’مَیں اُن سے مخاطب ہوا کہ آج مسلمانوں کو ایک پیغمبر کی ضرورت ہے جو اُن میں نئی زندگی کی روح پھونک سکے، مگر مشکل یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی خاتم الانبیا ہے جو مدینے میں مدفون ہیں اور ہم اُن کی آواز بھی نہیں سن سکتے۔’’اقبالؔ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ہم آج بھی اُن کی آواز سن سکتے ہیں بشرطیکہ ہم سننا چاہیں، یہ آواز زِندہ ہے اور اُسے ہر شخص سن سکتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کی آواز اُن احادیثِ مبارکہ میں گونج رہی ہے جسے ہم مستند مجموعوں میں پڑھ سکتے ہیں‘‘۔اُنہوں نے مزید فرمایا ’’اسد! آپ کچھ احادیث کا ترجمہ انگریزی زبان میں کر سکتے ہیں، مثلاً صحیح بخاری کا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ انگریزی جانتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں، تو اُن تک حضورِ اکرم ﷺ کی آواز پہنچا سکتے ہیں۔’’اقبالؔ کے اِس مشورے کے بعد مَیں نے اپنا پیشہ صحافت قربان کر دینے کا فیصلہ کیا اور صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے مع حواشی پر کام شروع کر دیا‘‘۔

اِس غیرمعمولی واقعے کے نتیجے میں پہلی بار صحیح بخاری اور صحاح ستہ کا انگریزی ترجمہ منظرِعام پر آیا جسے بلاشبہ بیسویں صدی کے بہت بڑے علمی کارنامے کی حیثیت حاصل ہے۔ اِن عظیم الشان خدمات کے پیشِ نظر عالمِ اسلام نے محمد اسد کو علامہ کے خطاب سے نوازا۔ اُنہوں نے پاکستان کو اسلامی اور آئینی بنیادیں فراہم کرنے، کشمیر کے مسئلے پر یورپی دنیا میں آواز اُٹھانے اور بھارت کا مکروہ چہرہ بےنقاب کرنے میں جو تاریخی جدوجہد کی، وہ زریں حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ (جاری ہے)


تازہ ترین