• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین سیاست اگرچہ بتاتے ہیں کہ عمران خان کا دور ہماری سیاست کا تاریک ترین دور تھا۔ معیشت کے ماہر کہتے ہیں دورِ عمران میں معاشی اعشاریے نظر سے بھی نیچے گر گئے ۔ اخلاقیات کے اساتذہ کہتے ہیں کہ اس دورِ قبیح میں اخلاقیات زمیں بوس ہو گئیں۔ سماجیات کے دانشور کہتے ہیں کہ اس دور میں سماجی اقدار کا جنازہ نکل گیا۔ یہ دور اپنی تنزلی، لاقانونیت، فسطائیت اور اخلاقی انحطاط کی وجہ سے تاریخ میں جانا جائے گا۔ اس سب کے باوجود مجھے یہ کہنے دیجئے کہ عمران خان کے دور حکومت کے جتنے فوائد پاکستان کو نصیب ہوئے ہیں وہ ثمرات تو 74برس میں کسی حکمران کے نام سے منسوب نہیں ہوئے۔ اس دور سے بہت سے لوگوں، اداروں، جماعتوں نے بہت سے سبق سیکھے۔ اس دور نے ہمیں وہ درس دیئے کہ جس کی نظیر تاریخ پاکستان میں پہلے کبھی دستیاب نہیں تھی۔

اس دور الم ناک سے سب سے پہلا سبق اسٹیبلشمنٹ نے سیکھا۔ اب انہیں اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے کہ ہائبرڈ نظام کا تجربہ نہ صرف ناکام ہو گیا ہے بلکہ اس سے ہمیشہ کے لیےتوبہ میں ہی بہتری ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ نے تاریخ کی تابندہ روایات سے منہ موڑ کر ’’نیوٹرل‘‘ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت اس قدر شدت سے ناکام نہ ہوتی تو ہمارا اسٹیبلشمنٹ کے ’’نیوٹرل‘‘ ہونے کا خواب، ایک سپنا ہی رہتا۔

اس دورِ تاریک سے ایک سبق ہماری عدالتوں نے بھی سیکھا۔ انہیں ادراک ہوا کہ نظریہ ضرورت سے آئین کا قتل اور نظریہ جمہوریت سے آئین سربلند ہوتا ہے۔ انہیں سبق ملا کہ عدالتیں آئین کی حفاظت پر مامور ہیں۔ عدالتوں کو وہ فیصلے کرنے ہیں جو آئین ِپاکستان کی عظمت اجاگر کریں۔ عوامی اداروں کا تحفظ کریں۔ عدالتیں اب ثاقب نثار اور کھوسہ جیسے فیصلے کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اب آئین شکنی کی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آئین کی پاسداری کروانا عدالتوں کا کام ہے۔ چاہے اس کے لیے رات کے بارہ بجے ہی کیوں نہ عدالتیں کھولنی پڑیں۔ چاہے اسکے لیے قیدیوں والی وین کی فوٹیج ہی کیوں نہ چلوانی پڑے۔ اگر عمران خان کا دور نہ آتا تو ہمارا در انصاف آئین کے تحفظ کے لیے بند ہی رہتا۔ یہ اسی دورکا اعجاز ہے کہ عدالتوں نے وہ فیصلہ کیا کہ جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں۔

اس دور ستم سے سب سے زیادہ سبق ہماری سیاسی جماعتوں نے سیکھا۔ انہوں نے سیکھا کہ اگر ہائبرڈ نظام کے نام پر کوئی ڈکٹیٹر شپ ہمارے اوپر مسلط کر دی جائے تو اس کا مقابلہ تمام جمہوری جماعتوں کو مل کر کرنا ہے۔ ذاتی اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہے۔ نفرت اور نفاق کی سیاست کو بھول جانا ہے۔ چاہے آپ کی جماعت کا تعلق کے پی سے ہو یا سندھ سے، بلوچستان سے ہو یا پنجاب سے، متحد ہوکر، اس نظامِ جبر کے خلاف لڑنا ہے۔ ایک مشترکہ کوشش عوام کی نمائندہ جماعتوں کو کرنی ہے۔ استقلال اور ہمت سے طاغوتی قوتوں کو شکست دینی ہے۔ خود سوچئے یہ عمران خان کے دور حکومت کا کتنا بڑا ثمر ہے کہ آج تمام جمہوری جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ علاقائی اور لسانی سیاست سے بالاتر ہو کر سب ایک مشترکہ عفریت کے خلاف کمر کس چکی ہیں۔ یہ کتنے انبساط کی بات ہے کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے بلاول بھٹو مصر ہیں۔ بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنانے کے لیے شہباز شریف اصرار کررہے ہیں۔ کابینہ کی فہرست میں ایم کیو ایم بھی ہے، جے یو آئی بھی ہے، بلوچستان کی جماعتیں بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ان جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں۔ محسن داوڑ کابینہ کے ساتھ عمرے پر جا رہے ہیں۔ عمران خان نے اگرسب جمہوری جماعتوں پر ستم نہ کئےہوتے تو ہمیں یہ منظر کب دیکھنے کو ملتا۔

عمران خان کے دورِ المناک کا اعجاز یہ بھی رہا کہ میڈیا کو عقل آگئی۔ مثبت رپورٹنگ سے نوکری تو پکی ہو سکتی ہے مگر آزادیٔ اظہار کی طاقت سلب ہوتی ہے۔ ایک ایجنڈے پر عمران خان کے حق میں بولنے والوں کی قلعی عوام پر کھل چکی۔ اب لوگ زرخرید اینکروں اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کو نظر انداز کر کے یو ٹیوب پر سچ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے دورِ ہذیان اور ہیجان سے سب سے زیادہ سبق اس ملک کے عوام نے سیکھا۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جو شخص کہتا تھا وہ نوے دن کے اندر اس ملک کی تقدیر بدل دےگا وہ اپنی قسمت بدلنے کے چکر میں ہے اسکو عوام سے، اس ملک سے، اس وطن کے آئین سے، کوئی سروکار نہیں ہے۔ عوام کو درس ملا کہ نفرت کی سیاست کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ بے بنیاد الزام لگانے والے اکثر ملزم ثابت ہوتے ہیں۔ عوام کو سمجھ آئی کہ اس ملک کی اساس آئین اور جمہوریت میں پوشیدہ ہے اس سے مفر کرنے والے، کاذب اور کم ظرف تو ہوسکتے ہیں، قوم کے لیڈر نہیں ہو سکتے۔

تازہ ترین