عمران خان اپنی تحریک کا آغاز میانوالی سے کررہے ہیں۔ انہوں نے چھ مئی کو میانوالی میں پہلا جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیاہے اور کہا ہےکہ ’’میانوالی کے لوگوں نے پہلی بار مجھے قومی اسمبلی کی نشست دلائی۔اہالیانِ میانوالی !میں جمعے کو ان شاء اللہ آپ لوگوں کے پاس مغرب سے پہلے آرہا ہوں‘‘۔میانوالی عمران خان کا آبائی شہر ہے۔ میں اس وقت میانوالی میں جہاں ہوں، سڑک کے اس طرف عمران خان کا گھر ہے، یعنی میں عمران خان کا ہمسایہ ہوں۔ صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ حفیظ اللہ نیازی پوچھ رہے تھے۔ وہ بھی میری طرح عید پر لاہور سے میانوالی آجاتے ہیں۔ میں ان سے ملنے سڑک کے اس پار گیا یعنی عمران خان کے گھر ، عظیم منزل میں۔ یہ گھر عمران خان کے دادا ڈاکٹر عظیم خان کے نام سے عظیم منزل کہلاتا ہے۔ وہاں سب سے پہلے انعام اللہ نیازی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے مہمان خانے میں ہر طرف نواز شریف کی تصویریں آویزاں کی ہوئی ہیں۔ 2013 میں جب عمران خان نے انہیں میانوالی سے ایم این اے کا ٹکٹ نہیں دیا تھا تواس وقت انعام اللہ نیازی واپس نون لیگ میں چلے گئے تھے۔ وہ پہلے ایک مرتبہ نون لیگ کے ٹکٹ پر میانوالی سے ایم این اے اور ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں لیکن ایم این اے کی اس نشست پر نون لیگ کا ٹکٹ زیادہ تر عمیر حیات روکھڑی کے پاس رہا ہے۔ ان سے پہلے امیر عبداللہ روکھڑی اور ان کے بیٹے عامر حیات روکھڑی بھی مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔پہلے ان کا مقابلہ ڈاکٹر شیر افگن خان سے ہوتا تھا جو کبھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اور کبھی آزاد الیکشن لڑتے تھے۔ 2013 سے ان کا بیٹا امجد خان یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم این اے چلا آرہا ہے۔ میانوالی سے ایم این اے کی دوسری نشست پر خود عمران خان الیکشن لڑتے ہیں، ان کے مقابلے میں نون لیگ کےامیدوار عبید اللہ شادی خیل ہوتے ہیں۔ان کے والد غلام رسول شادی خیل ان سے پہلے مسلم لیگ کی طرف ایم پی اے کا الیکشن لڑا کرتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس مرتبہ عبیداللہ شادی خیل عمران خان کی بجائے امجد خان کے مقابلے میں نون لیگ کے امیدوار ہوںگے۔ یعنی وہ اپنا حلقہ ِ انتخاب بدل رہے ہیں کیونکہ انہیں لگ رہا ہے کہ عمران خان کے مقابلے میں الیکشن جیتنا ان کےلیے ممکن نہیں۔ وہ شاید میانوالی کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہیں۔ ان کے بھائی امانت اللہ شادی خیل اُس حلقہ سے ایم پی اےکے امیدوار رہ چکے ہیں۔
میانوالی میں نون لیگ کے کچھ اور گروپس بھی ہیں۔ ایم پی اے کی چار نشستوں میں سے ایک پر نون لیگ کی طرف فیروزسےجوئیہ الیکشن لڑتے ہیں۔ پہلے ان کے والد شبیر جوئیہ نون لیگ کی طرف سے امیدوار ہوتے تھے مگر یہاں سے زیادہ سبطین خان کامیاب ہوئے جو 2013 سے مسلسل پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیں۔ان کی عوامی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں۔ ایم پی اے کی دوسری نشست پر ایک آدھ بار نون لیگ کے امیدوار ممتاز بھچر اور علی حیدر نورکامیاب ہوئے مگر2013 سے مسلسل پی ٹی اے کے امیدواراحمد خان بھچر ایم پی اے چلے آرہے ہیں۔ 2018 میں وہ بلا مقابلہ جیت گئے تھے۔ شاید پنجاب میں یہ پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے جن کے مقابلے میں کسی نے بھی الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اب پھر ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اسی نشست پر الیکشن لڑنے والے علی حیدر نوربھی اپنی ذات میں میانوالی میں نون لیگ کا ایک الگ گروپ ہے۔ ان کی شریف فیملی کے ساتھ رشتہ داری بھی ہے۔ میانوالی کی ایم پی اے کی تیسری نشست پر اس وقت امین اللہ خان پی ٹی آئی کی طرف سے ایم پی اے ہیں۔ انہیں پہلی بار جنرل ثنااللہ نیازی شہیدکا بھائی ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملا تھا۔ ان سے پہلے یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ڈاکٹر صلاح الدین ایم پی اے تھے جو صرف پی ٹی آئی کے ورکر ہونے کی وجہ سے ایم پی اے بن گئے تھے مگر ان کے خلاف ہونے والی سازشوں نے انہیں 2018 میں ٹکٹ سے محروم کردیا تھا۔ 2018 میں اس نشست پر عامر حیات روکھڑی کے بیٹے عادل عبداللہ نے بھی پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ میانوالی سے ایم پی اے کی چوتھی نشست پرعبدالرحمٰن ببلی پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیں۔ ان کی بہن ذکیہ شاہنوازنون لیگ میں ہیں۔ وہ پنجاب میں وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ اگر حمزہ شریف میانوالی میں نون لیگ کے ان تمام گروپس کو متحد کرنےمیں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ کچھ نشستوں پر الیکشن میں مقابلے کی صورت بن جائے وگرنہ میانوالی مکمل طور پر عمران خان کے ساتھ ہے۔
ہاں تو میں عمران خان کے گھر میں تھا۔ حفیظ نیازی سے ملاقات ہوئی۔ خاصی دیر موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے رہے۔ مجھے یاد آیا کہ دوتین مہینے پہلے مجھے حفیظ بھائی نے لاہور اپنے گھر میں بلایا تھا اورکہا تھا ’’تم جانتے ہو میرےاورعمران خان کے تعلقات خراب ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ مشورہ دیا جائے کہ عمران خان کوسیاسی شہید بننے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ اگر ان کی حکومت وقت سے پہلے ختم کر دی گئی تو وہ بڑے بھرپور انداز سے واپس آئیں گے۔ انہیں آپ نہیں، میں جانتا ہوں‘‘۔ وہاں کافی لوگ اور بھی موجود تھے۔ یہ زیادہ تر انعام اللہ نیازی سے ملنے آئے ہوئے تھے، جن میں کچھ نون لیگ کے عہدہ دار بھی تھے۔ ان کی گفتگو بھی سنی اور اس نتیجے پر پہنچاکہ نون لیگ والے خودبھی عمران خان کو ہٹا کر خوش نہیں۔ پتہ چلا کہ نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے خلاف تھے۔ انہیں بڑی مشکل سے راضی کیا گیا۔ بہر حال عمران خان نے ایک با ر پھر میانوالی کے لوگوں کو آواز دی ہے۔ چھ تاریخ کے جلسے کی کامیابی عمران خان کی موجودہ تحریک کےلیے بہت ضروری ہے۔ میانوالی کے لوگ پھر امتحان میں ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔