• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میں یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔ سقراط کا یہ قول ہم سب نے پڑھ رکھا ہے۔ جدید علمی روایت کا آغاز اسی جملے سے ہوتا ہے۔ اس میں علم کے محدود ہونے کا اقرار ہے، اس امکان کا اعتراف ہے کہ ہم سب سے رائے اور علمی تجزئیے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس سب سے بڑھ کر اس بیان میں علم کی جستجو موجود ہے۔ یہی انکسار دانش کا نشان ہے۔ وطن عزیز میں عجب چلن شروع ہوا ہے کہ جو بوٹا چمن میں گل سرسبد ہونے کی آرزو پالتا ہے، دانش کی فصیل پر چڑھ دوڑتا ہے۔جاننا چاہئے کہ دانش کی رعونت سراسر غلط ہے لیکن جہالت پر گھمنڈ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ سیاسی اصطلاحات کا ہمارے ہاں عجب حال رہا ہے۔ سو برس پہلے جب یورپ کی سرزمین پر فسطائیت کا اکھوا پھوٹ رہا تھا تو ہمارے ہاں تحریک خلافت کے مقامی رہنمائوں کو ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ڈکٹیٹر کسے کہتے ہیں۔ ایک اصطلاح تھی جو مغرب میں استعمال ہو رہی تھی، بس اسی کو اختیار کر لیا۔ معنی سے ہمارا تعلق روایتی طور پر کمزور رہا ہے۔ جنون ہمیں پسند ہے بشرطیکہ اس کی راکھ کسی دوسرے کے آنگن میں گرے۔تفکر کا حکم دیا گیا تھا مگر غوروفکر کریں ہمارے دشمن، ہمارے لیے تو ’’ہے جذبہ جنوں…‘‘۔
ضیاالحق نے اکتوبر 1979ء میں سیاسی عمل، سیاسی جماعت اور سیاسی کارکن کو کالعدم قرار دیا تو سرکاری ذرائع ابلاغ میں ایک اصطلاح ’’علمائے کرام اور مشائخ عظام‘‘ نے خاص طور پر رواج پایا۔ سیاست کالعدم قرار پائی اور پارسائی کے نقارے پر چوٹ پڑی۔ انہی دنوں میں مرد مومن ضیاالحق نے دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دے کر ان پر وطن کی ہوا، چاندنی اور پانی حرام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آمریت کے خیر خواہوں نے سمجھ لیا اور کیا خوب سمجھا کہ دانشور ایک نئی گالی ہے اور ان لوگوں کو دی جاتی ہے جنہیں سی آئی ڈی کی فائلوں میں ’’حکومت مخالف‘‘ لکھا جاتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن نے جو پرچہ نویس بھرتی کئے تھے ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ دو صدی پہلے نپولین نے بھی مانٹیس کیو اور رابس پیئر کو Ideologue قرار دے کر زبان طعن دراز کی تھی۔ انسانی تاریخ میں حریت کی روایت قدیم ہے تو جہالت کا شجرہ بھی گنجلک ہے۔
دانشور کی پہچان یہی ہے کہ وہ معاشرے میں اقتدار اور رسوخ کے نصابی بیانیے سے انحراف کرتا ہے۔ دانشور کا مسلک ترک رسوم ہوتا ہے۔ اسے ہجوم طفلاں کی گریز پائی سے نبردآزما ہونے کی پاداش میں دشنام اور تعزیر کا سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ؎آنے والی نسلیں اسے اپنے عہد کا ضمیر قرار دیتی ہیں۔ دانشور بارہویں صدی کے ہسپانیہ میں ہو تو اسے ابن رشد کہتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں پیدا ہو تو اسے والٹیئر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے فرانس میں ہو تو اسے ژاں پال سارتر کہا جا تا ہے۔ خروشچیف کے سوویت یونین میں ہو، تو اس کا نام سخاروف ہوتا ہے ۔ جارج بش کے امریکہ میں دانشور کو نوم چومسکی کہتے ہیں۔ دانشور پاکستان میں ہو تو اس کا نام خالد احمد ہوتا ہے۔ دانشور کوئی مخصوص ہیئت کذائی اختیار کرنے سے وجود میں نہیں آتا، دانشور علم اور کردار کے امتزاج سے ترکیب پاتا ہے۔
پاکستان کے دانشوروں کا تازہ جرم یہ ہے کہ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کی قلعی کھولی ہے اور طالبان کے درپردہ حامیوں کو بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے۔ پاکستان کے دانشور وطن دوستی میں مصلوب ہونے کا یہ جرم بہت پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ تب انہیں ہندو نواز ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ اہل دانش نے سیٹو اور سینٹو میں شرکت کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے دانشوروں نے ایوب آمریت کی اس وقت مخالفت کی جب بنیادی جمہوریتوں کے گن گانا حب الوطنی کا معیار ٹھہرا تھا۔ ان سرفروشوں نے بنگالی بھائیوں پر گولی چلانے کی اس وقت مخالفت کی جب خرد مند لکھتے تھے کہ مشرقی بنگال میں ’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘۔ پیپلزپارٹی نے بھارت دشمنی کا پرچم اٹھایا تو ان دور اندیشوں نے انتباہ کیا تھا کہ ریاستی تنازعات کو اتنی ہوا نہ دو کہ یہ اپنے ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن جائیں۔ پاکستان کے دانشوروں نے ایک غیر ملکی شہری معروف الدوابی کے زیر نگرانی مرتب کئے گئے حدود قوانین کی مخالفت کی، انہوں نے صنفی مساوات کا نعرہ بلند کیا، اقلیتوں کے حقوق کی دہائی دی۔ دانشوروں نے اس وقت افغان جہاد کی مخالفت کی جب ڈالروں کی گنگا بہہ رہی تھی۔ انہوں نے غلام اسحاق خان کی چیرہ دستیوں کے خلاف اس وقت آواز بلند کی جب کچھ ’’محب وطن حلقے‘‘ اپنے پسندیدہ سیاست دانوں میں کروڑوں روپے بانٹ کر جمہوریت کی بنیادیں کھود رہے تھے۔ انہوں نے طالبان کے خطرے کی نشاندہی اس وقت کی جب بے نظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کو طالبان اپنے بچے نظر آتے تھے۔ ان عاقبت نااندیشوں نے 12اکتوبر1999ء کو پرویز مشرف کی مخالفت کی تھی۔ یہ دوڑ لگا کر 2007ء کی بس پر سوار نہیں ہوئے تھے۔پاکستان میں سیانوں کی ایک بڑی تعداد تاریخ کا چہرہ مسخ کرتی رہی ہے لیکن کچھ مٹھی بھر دیوانے وطن کی مانگ میں آنے والے کل کے خواب سجاتے رہے ہیں۔ یہ جرم کل معاف کیا گیا اور نہ آج اس پر عفو و درگزر کا کوئی امکان ہے۔ اہل دانش پر تازیانے برسانے میں خاص اہتمام یہ کیا جاتا ہے کہ تقدیس کی منڈیر پر چڑھ کر چاند ماری کی جاتی ہے۔ حسب موقع امن، انصاف اور انسانی مساوات وغیرہ کے ترکش سے مناسب تیروں کا انتخاب کر لیا جاتا ہے۔ دلیل کے بجائے اشتعال کا ہتھیار آزمایا جاتا ہے۔ ’’بسم اللہ کے گنبد‘‘ کا محاورہ نہیں جانتے لیکن گالی گفتار کی قرولی بھونکنے کو دوڑتے ہیں ۔ ان شاہین بچوں نے جن بزرجمہروں سے تعصب اور تنگ نظری کی لغت سیکھی ہے، کاش ان سے اردو کا محاورہ اور روزمرہ بھی سیکھ لیا ہوتا۔ ، خیر گزری کہ یہ گرم خوں خدائی فوجدار مولانا رومی، سعدی اور حافظ کی روایت سے نا آشنا ہیں، ورنہ ’’ملائے مکتب‘‘ کی ترکیب پر برافروختہ ہوتے۔ یوں ان کے لیے میر تقی میر کا فرمودہ بھی کافی ہے
گھاس ہے مے خانے کی بہتر ان شیخوں کے مصلے سے
پائوں نہ رکھ سجادے پہ ان کے، اس جادے سے راہ نہ کر
کچھ ذیلی معروضات بھی سن لیجئے۔ اسلام آباد سے برادرم ضیا کھوکھر نے شکوہ کیا ہے کہ خاکسار نے ہفت روزہ ویو پوائنٹ کا ذکر کرتے ہوئے محترم آئی اے رحمن اور جناب امین مغل کے اسمائے گرامی نہیں گنوائے۔ ان دونوں اصحاب کا علمی اور شخصی رتبہ اس قدر بلند ہے کہ یہ کسی سرسری تذکرے کی تنگنائے سے ماورا ہو چکے۔ گزشتہ کالم شخصی یادوں کی ایک اجمالی باز آفرینی تھا۔ فہرست سازی مقصد نہیں تھا۔ یہ دو نام تو پاکستان کی اس حقیقی تاریخ کا لاینفک حصہ ہوں گے جس میں جمہوری پاکستان کیلئے جدوجہد کااحوال رقم ہو گا۔
علی افتخار جعفری ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والے اردو شعرا میں نہایت بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’مٹی ملے خواب‘‘جدید غزل میں رجحان ساز اہمیت رکھتا ہے۔ علم، ذہانت اور اعلیٰ ادبی شعور سے متصف ہونے کے علاوہ ایک نہایت فرض شناس پولیس افسر ہیں۔ علی افتخار ان دنوں صاحب فراش ہیں۔ قارئین سے دست بستہ التماس ہے کہ اپنے عقائد کے مطابق ان کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں۔
تازہ ترین