آزادی احتجاج، جلا دو، گھیر لو، مار دو، آگ لگا دو، غلامی نامنظور اور اِس طرح کے بہت سے نعروں کی بازگشت آپ کو خاکروبوں سے لے کر جامعات کے پروفیسرز تک کی تحریکوں میں سنائی دے گی، ان نعروں کا مقصد صرف سودے بازی ہوتا ہے اور پھر جب سودا ہو جائے تو آزادی پہلے سے بھی زیادہ بڑی غلامی بن جاتی ہے۔ احتجاج دم توڑ بن جاتا ہے اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ ہوتاہے۔ عمران خان کی موجودہ آزادی تحریک کو جاننے کے لیے قوم کو بھٹو نہیں بلکہ بانیٔ متحدہ کے کردارکو جاننے کی زیادہ ضرورت ہے۔ بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ عمران خان کے عزائم وہی ہیں جو بانیٔ متحدہ کے تھے یا بانیٔ متحدہ صحیح تھے یا غلط، نہ کسی کی تحریک پر تنقید کرنا مقصد ہے اور نہ ہی کسی کو مسیحا بنا کر پیش کرنا مقصود ہے بلکہ حال کو ماضی کے آئینے میں من و عن دکھانا ہے تاکہ قوم بہت کچھ جان سکے۔ بانیٔ متحدہ نے ایک پُرامن طلبا تحریک کا آغاز کیا جس کا نعرہ تھا کہ مقامی لوگ غلام نہیں ہیں، اُنہیں اُن کا حق دیا جائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نعرہ مقبول ہوتا چلا گیا اور لوگ جوق در جوق اِس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ شہرت اور نوجوانوں کی حمایت نے بانیٔ متحدہ کو طاقتور بنا دیا اور انہوں نے غلامی سے آزادی کا نعرہ ببانگ دہل لگانا شروع کردیا، رفتہ رفتہ اُن کا یہ نعرہ احتجاج میں تبدیل ہو گیا، خونریزی ایک معمول بن گئی اور یہ سب کچھ آزادی کے نام پر ہورہا تھا۔ اُن کی یہ جنگ تو اشرافیہ یا ملکی وسائل پر قابض قوتوں سے تھی مگر عام آدمی اِس میں اپنی جان گنوا رہا تھا۔ بانیٔ متحدہ کی ہر بات پتھر پر لکیر ہوتی تھی، یہ سلسلہ 30سال چلا، ہزاروں نوجوان اور بےگناہ مارے گئے، بیشتر جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے یا لاپتہ ہوئے، مائیں رُل گئیں، باپ زندہ درگور ہو گئے اور اولادیں بھیک مانگنے لگیں، سکون غارت ہو گیا مگر وہ نعرہ آج بھی وہیں موجود ہے جہاں پر تحریک کے آغاز میں تھا یا شاید اُس سے بھی کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔ غلامی مزید بڑھ گئی، مزید حقوق چھن گئے اور محرومی وہیں کی وہیں ہے، بحث یہ نہیں کہ بانیٔ متحدہ غلط تھے یا صحیح بلکہ بحث یہ ہے کہ اس سب کے بعد حاصل کیا ہوا؟ ریاست اور اداروں کے خلاف جو بغاوت کی گئی تھی اُس کے بعد آخر میں فتح یاب کون ہوا، ریاست یا بغاوت؟ جو دوسری جماعتوں کے خلاف نفرت پیدا کی گئی کیا وہ جماعتیں ختم ہو گئیں؟
اب دوبارہ ویسے ہی نعروں نے سر اٹھایا ہے، یہ صحیح ہیں یا غلط، یہ بحث نہیں مگر انداز وہی ہے، دوبارہ وہی انقلاب کی، احتجاج کی، آزادی کی، غلامی کی بات ہو رہی ہے۔ کوئی اس کو خونی کہتا ہے تو کوئی جنونی۔ اب تو بات ایک علاقے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے۔ اب اگر نقصان ہوا تو کئی گنازیادہ ہوگا جس کو روکتے روکتے شاید 30نہیں 60سال لگ جائیں اور تب تک ہم پتا نہیں کیا کیا کھودیں۔ اب پھر وہی کام ہورہا ہے کہ میں اچھا اور باقی سب برے، میں آزاد اور باقی سب غلام، تب اشرافیہ ہمارے وسائل پر قابض تھی اب امریکہ ہے، نوجوانوں کو پھر سے ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے، بانیٔ متحدہ کا بھی تو کوئی بھائی، بیٹا، باپ عہدیدار نہیں تھا، وہ بھی ساری زندگی ایک چھوٹے سے گھر میں رہے، آج وہی بانیٔ متحدہ اکثریت کیلئے ولن ہیں اور کچھ کیلئے آج بھی ہیرو۔ اگر عمران خان کی تحریک مزید طاقتور ہوئی تو وہ عمران خان جو بطور وزیراعظم اپنی ہی ناک کے نیچے اربوں کی کرپشن نہ روک سکے، کیا تحریک کو کنٹرول کر سکیں گے؟ آج عمران خان جس طرح نوجوانوں کو حکم دے رہے ہیں کہ مخالفین کو چھوڑنا نہیں ہے، کیا وہ اپنے ہر کارکن پر نظر رکھ سکیں گے، کہیں بھی پندرہ بیس نوجوانوں کو پی ٹی آئی کا لباس پہناکر غداری کا نعرہ لگواکر حملہ کروا دیا جائے گا، مافیا اپنا فائدہ اُٹھا لے گا اور بدنام تحریک ہوگی۔ اب اس سارے معاملے کو اگر آپ سمجھ جائیں تو آپ کو سب سے زیادہ مظلوم قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر آئیں گے جن میں سرِ فہرست پاک فوج ہے کیونکہ ہر انتشار پر آخر میں منہ فوج نے ہی قابو پانا ہوتا ہے۔ فوج احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو دوسری طرف سے الزامات کا سامنا کرتی ہے، خاموش کھڑی ہوتی ہے تو احتجاج کرنے والے الزامات لگاتے ہیں، دونوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو بیرونی دنیا الزام لگاتی ہے، اب یہ بات ہر ذی شعور کو سوچنا ہوگی اور فیصلہ کرنا ہوگا۔ امریکہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو روکنے والی فوج بُزدل اور فرانس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پکڑنے والی فوج بہادر، یہ کونسا انصاف ہے؟
آپ غلط بھی ہو سکتے ہیں، صحیح بھی ہو سکتے ہیں مگر خدا کے لیے اس کا فیصلہ ایک پُرامن تحریک کے ذریعے ہی کریں اور پورے ملک کو باور کرادیں کہ یہ گالم گلوچ کرنے والے، ڈنڈے، گولی، آگ و خون کے نعرے لگانے والے ہم نہیں اور اگر ایسا کوئی کرے تو وہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوگا، ہماری تحریک کسی صورت ذاتی فائدہ اُٹھانے والی، زمینوں پر قبضہ کرنے والی یا اپنے کاروبار کو بچانے والی مافیا کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی۔ اگر آپ نے فوری طور پر اپنے کارکنوں کی تربیت نہ کی تو آپ مانیں یا نہ مانیں، جلد آپ کی تحریک ایک ایسی ہی تحریک بننے والی ہے۔ جلاؤ، گھیراؤ، آگ لگاؤ کا کام اپنے اوورسیز پاکستانیوں کے ذمہ ڈال دیں تاکہ آپ کو اُن کی حقیقی ہمت کا آئیڈیا ہو اور آپ کے خلاف سازش کرنے والے مغرب کی مٹی مزید پلید ہو۔ نہ آپ دودھ کے دھلے ہیں، نہ آپ کے مخالفین، نہ آپ غدار ہیں نہ کوئی اور مگر زندگی نوجوانوں کی برباد ہورہی ہے جسے اب نوجوانوں نے ہی بدلنا ہوگا۔ فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہے کہ کیا آگ اور خون کی تحریک والے دور کا نوجوان بننا ہے یا پُرامن پاکستان کا۔آپ اگر احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں لیکن ریاست یا اداروں کیخلاف عوام کو کھڑا کر کے نہیں۔آپ اگر اپنے بیانیے کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں تو اُسے آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے آگے لے کر جائیں۔