• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوامی جلسے میں نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار کی بات کرکے عمران خان نے اداروں کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے سراج الدولہ اور میرجعفر کا نام لے کرجو مثال دی، اس سے بری حرکت ہو ہی نہیں سکتی، عمران خان نے کہا کہ سراج الدولہ کے سپہ سالار میر صادق اور میر جعفر غدار نکلے، عمران نیازی نے ادارے کے بارے میں جو زہر اگلا، وہ پاکستان کے خلاف سازش ہے، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو زبان استعمال کی، اگر اس کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر سختی سے نہ روکا گیا تو اس ملک میں بھونچال آسکتا ہے، یہ جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اس بات کا بھرپور نوٹس لیا جائے، اس معاملے کو کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ خدانخواستہ کچھ نہیں بچے گا، تاہم اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج کے بارے میں کچھ نہیں کہا، شہباز اور نوازشریف کو میر جعفر اور میر صادقکہا ہے تاہم شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ قوم تقسیم درتقسیم ہوچکی ہے،عمران خان جس بیانیے کو لے کر قوم میں آئے ہیں، وہ امریکی دھمکی کا ہے، اس بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف جو کل تک ایسی دھمکیوں کے قائل نہ تھے اور دھمکی آمیز مواد کی صداقت کا بھی مذاق اڑا رہے تھے، انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کو امریکی دھمکیوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے اس میں سازش کا عنصرکہاں سے نکلا؟

شہباز شریف کے ’اندیشہ ہائے دور دراز ‘ تھے کہ اگرعمران خان کو آئین و قانون کے ذریعے نہ روکا گیا تو خدانخواستہ یہ ملک لیبیا اور شام کی تصویر بن جائےگا، انہوں نے اس طرح یہ معاملہ ایک بار پھر عدلیہ کی کورٹ میں پھینک دیا اور خود کو اس معاملے سے الگ کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ از خود کیونکر اس معاملے میں عمران خان کو طلب کرکے ان کے بیان کی وضا حت طلب کرے گی، زمینی حقائق ایسے ہیں کہ جن سے صرفِ نظر کرناممکن نہیں ہے اور ملک میں خدانخواستہ کوئی ایسے آثار نظر نہیں آرہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان لیبیا یا شام کی عملی تصویر بنے، وہا ں اور پاکستان کے زمینی حقائق اورحالات و واقعات بالکل مختلف ہیں تاہم ان کا عمران خان سے یہ کہنا کہ ” آپ تو لاڈلے تھے آپ کو تو بچے کی طرح اس” ادارے “نے دودھ پلایا“، انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ 75سال میں کسی منتخب حکومت کو اس طرح سپورٹ نہیں کیا گیا جس طرح عمران نیازی کو کیا گیا لیکن اس کے باجود اس نے نہ کچھ سیکھا اور نہ کوئی کارکردگی دکھائی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میاں نوازشریف جنرل جیلانی کا ہاتھ تھام کر سیاست میں آئے اوروہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی صحیح معنوں میں پیداوار تھے۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہےکہ اس ادارے نے جو سپورٹ عمران خان کی، اس سے قبل میاں صاحب کو بھاری مینڈیٹ دے کر اُن کی بھی ایسی مدد کی جا چکی ہے ۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان دنوں عمران خان کی زبان تلخ ہوئی ہے تاہم وہ فوج کیخلاف ہر گز نہیں ہیں، امریکہ کے بارے میں بھی اور یورپی یونین کے بارے میں بھی اسی طرح ملک میں ہونے والی ماضی کی شرمناک لوٹ مار کے بارے میں ان کا بیانیہ شدت پسندی کی حد تک سخت ضرور ہے تاہم وہ اپنے دورِ اقتدار میں بے بس تھے اور عدالتوں سے منی لانڈرنگ گروپ کو سزادلوانا چاہتے تھے مگر اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور کسی ایسے بڑے کیس کا فیصلہ نہ آیا جس کو وہ اپنی کامیابی گردان سکتے۔

ملک میں کوئی بھونچال آتا نظر نہیں آرہا، البتہ عوام کا ”ٹھاٹھیں ‘ مارتا سمندر ضرور عمران خان کے بقول اسلام آباد کا رُخ کرنے والا ہے جسے وہ سونامی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اگر شرپسندی نہ کی گئی تو یہ لوگ پرامن رہیں گے۔کیا ہی اچھا ہو کہ یہ نوبت آنے سے قبل وزیر اعظم لندن یاترا کی بجائے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ملک کی واحد اسمبلی کے باہر پی ٹی آئی کی اکلوتی اپوزیشن سے مذاکرات و مکالمے کی ایک بیٹھک سجالیں، اطراف سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جائے اور کسی نتیجے پر پہنچ کر اٹھا جائے۔ بات تو نئے فوری انتخابات کے مطالبے کی ہے جن کا آج نہ سہی کل اعلان ضرور ہونا ہے۔ دوسری طرف ’جلد بازسجناں ‘ نے پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے فوج مخالف بیانات پر قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی، یہ بھی عجلت میں کیا گیا اقدام ہے۔ اس کی کیا ضرورت تھی معاملہ جب کھل کر سامنے آتا تو کوئی بات بھی تھی، محض خوشامد سے کسی کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین