• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اجل کی زد پہ ہے میرا قبیلہ

میں قبریں گنتے گنتے تھک گیا ہوں

پچھلے دنوں تو صرف نوحہ خوانی ہی کی۔ کبھی کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والوں کا ماتم کیا توکبھی کوئٹہ کےکربلا پر نوحہ خوانی کی۔ کبھی کالم میں پاک فوج کے شہیدوں کی عظمتوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا تو کبھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے معصوم پاکستانیوں کے دکھ پربین لکھے۔ کسی بادشاہ کی موت پر یہ میرا پہلا کالم ہے۔ اس کا سبب صرف اتنا ہے کہ اس بادشاہ نےپاکستان میں بے شمار رفاہی کام کرائے تھے جو بروزحشر اس کی مغفرت کا سبب ہوں گے۔

یواے ای کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان سپرد خاک کر دئیے گئے۔ عجیب بات ہےمیت کو قبر میں اتارنے والوں کو یہ یقین نہیں آتا کہ ہم نے بھی ایک دن اسی خاک میں اترنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے جنرل ضیا الحق تک، محتر مہ بے نظیر بھٹو سے کسی اور تک۔ بڑے بڑے لوگ زمین میں اتار دئیے گئے۔

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

اب کچھ فرق پڑ گیا ہے مگر ماضی میں اشرافیہ کے قبرستان بھی الگ ہوتے تھے۔ جیسے اہرام مصر مصری اشرافیہ یعنی فراعین کا قبرستان ہے۔ تاج محل مغل بادشاہ شاہجہاں کی زوجہ کا مقبرہ ہے۔ لاہور۔ میں جہانگیر آصف جاہ کے علاوہ بے شماردوسرے مقبرے بھی موجود ہیں۔ لاہور میں نورجہاں کے مقبرے پر جب میانوالی کے شاعر تلوک چند محروم گئے تھے تو پکار اٹھے تھے ؛

دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے

کہتے ہیں کہ یہ آرام گہہ ِ نور جہاں ہے، حقیقت میں تو پورا بر صغیرہی اشرافیہ کا قبرستان ہے۔ جگہ جگہ مقبرے ہیں۔ ان مقبروں پر جا کر آدمی حیران رہ جاتا ہے لوگ یہاں سیر کرنے آتے ہیں۔ کسی قبرپر فاتحہ خوانی نہیں کرتے۔ عبرت نہیں پکڑتے۔ مقبرہ بھی قبر کے خاندان کا لفظ ہے۔ رفتہ رفتہ صرف اشرافیہ کی قبروں کے لیے مختص ہو گیا۔ زندہ قبر وں کو مقبرہ نہیں کہا جاتا اسے مزار یا روضہ کہتے ہیں اور یہ اعزاز صرف فقیروں کی قبروں کو نصیب ہوتا ہے۔ سلطان باہو نے کہا تھا ’’ نام فقیر تنہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو ‘‘۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اشرافیہ سے متعلق ایسی شخصیات جن پر ظلم کیا گیا، ان کی قبریں یا مقبرے بھی مقبرے نہیں رہتے، مزار بن گئے۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر آج کل لوگ منتیں بھی مانگتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جنرل ضیا الحق کی قبر ِمبارک فیصل مسجد میں بنائی گئی۔ اس توقع پر کہ شاید لوگ یہاں آئیں گے اور فاتحہ خوانی کریں گے مگر افسوس کہ وہ قبرمزار نہ بن سکی اور مقبرہ ہی رہی۔ اللہ جس کو کچھ چاہتا ہےمٹا دیتا ہےاورجس کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔

ہاں تو ایک بادشاہ اور دفن کردیا گیااور باقی قطار میں کھڑے ہیں، اسی قطار میں جہاں محمود و ایاز میں کوئی فرق نہیں۔ سب کو دوگز زمین کےحوالے ہونا ہے۔دنیا بھر کے محلات، آسائشات ِ زندگی کی انتہائیں، سب کچھ یہیں رہ جاتاہے۔ کوئی ساتھ لے کرنہیں جاتا۔ فراعین مصر جنہوں نے مقبروں میں بہت کچھ رکھوالیا تھا۔ وہ سب کچھ اس وقت عجائب گھروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ یقیناً آج کے حکمرانوں کے خزانے بھی یہیں رہ جائیں گے، یہ وہ گلی ہے جہاں کسی نے رہ نہیں جانا، سب نے یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ ہر نفس نے موت کا تلخ ذائقہ چکھنا ہے۔ سلیم شہزادنے کہا تھا؛

عمر بھر زندگی کا تعاقب کرے

موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح

آج کے زمانے میں بادشاہوں کااپنی سرزمین میں دفن ہونا بھی خوش قسمتی کی بات ہے۔ شہنشاہِ ایران کسے یاد نہیں مگر ان کی قبر ایران میں نہیں بن سکی تھی۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر رنگون میں دفن ہیں۔ ان کا شعر ہے؛

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کےلئے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بات شروع کی تھی کہ اشرافیہ کو اس بات کا یقین کیوں نہیں آتا کہ ہم نے مرنا ہے۔ سوچتا ہوں گورکن جو روز قبریں کھودتا ہے اسے اپنے مرنے کا یقین نہیں، اشرافیہ کا کیا قصور۔ کہتے ہیں گورکن کو اگر اپنے مرنے کا یقین ہوجائے تو وہ اللہ کا ولی ہوجائے۔

یہاں انسانوں کے علاوہ اشرافیہ کے جانوروں کے مقبرے بھی ہیں۔شیخو پورہ میںہرن مینار ایک شہزادے کے ہرن کا مقبرہ ہے۔مگر یہ قبریں کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ ان سے صاحبانِ نظر عبرت پکڑتے ہیں۔ عام لوگ بھی اس عبرت سرائے دہر کو تقریباً اسی نظر سے دیکھتے ہیں مگر اشرافیہ کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے۔ انہیں امیر سے امیر ہونے کی لگن غریب کو غریب تر کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ خزانوں کے دروازے پر یہی اشرافیہ سانپ بن کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس وقت بھی دنیا بھر کے وسائل چند ہاتھوں میں ہیں۔ رپورٹس کے مطابق دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف ایک فیصد لوگ ہیں۔ پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی نےغریبوں کا جینا محال کررکھا ہے۔ اوپر سے سیاسی عدم استحکام کے سبب معیشت روز بروز گرتی چلی جارہی ہے۔ دعا کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

تازہ ترین