سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی آج کی سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا، تحریری حکم نامہ 5 صفحات پر مشتمل ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اور نیب کو نوٹس جاری کردیا، نیب کے پراسیکیوٹر جنرل، ایف آئی اے کے ریجنل ڈائریکٹرز اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے۔
تحریری حکم نامے کے مطابق نوٹس کیے گئے تمام حکام اپنے متعلقہ عدالتی سوالات پر جواب جمع کروائیں، گزشتہ 6 ہفتے میں نیب اور ایف آئی اے پراسیکیوشن اور تحقیقاتی ڈپارٹمنٹ میں پوسٹ اور تبدیل کیے گئے افسران کے نام جمع کروائے جائیں۔
حکم نامے کے مطابق از خود نوٹس کی اگلی سماعت تک استغاثہ کسی عدالت سے کوئی کیس واپس نہیں لے گی۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کی تفصیلات پیش کی جائیں، بتایا جائے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے نئے طریقہ کار سے عدالت کو آگاہ کیا جائے، ای سی ایل سے نام نکالنے کے پرانےطریقہ کار میں کیا ترامیم یا رد و بدل کیا گیا، آگاہ کیا جائے، ای سی ایل میں موجود ناموں کو تاحکم ثانی نکالا نہیں جائے گا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نیب، ایف آئی اے میں موجود ہائی پروفائل کیسز کا رکارڈ چیک کرکے محفوظ کسٹڈی میں رکھا جائے، نیب، ایف آئی اے میں موجود ہائی پروفائل کیسز کے رکارڈ سے متعلق رپورٹ جمع کروائی جائے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرارز، اسپیشل جج سینٹرل، احتساب عدالتوں کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، عدالت آرٹیکل 4،10 اور 25 میں دیے گئےحقوق کے تحفظ کی گارنٹی کے لیے فکر مند ہے، آئین میں دی گئی گارنٹی فوجداری نظام انصاف کی سالمیت، تقدس اور شفافیت کے لیے ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالات کے جواب کے لیے مہلت طلب کی، شفاف، منصفانہ پراسیکیوشن کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں جواب جمع کروایا جائے، از خود نوٹس کا مقصد یکساں احتساب اور انصاف کی فراہمی ہے، کیس کی مزید سماعت 27 مئی کو ہوگی۔