• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان شدید مصائب و مسائل کے کرب سے دوچار ہے۔ اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار کی بھرمار ہے۔ چند روز قبل ہی روشنیوں کے شہر کراچی میں خودکش حملے میں تین چینی شہری اور ایک پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں۔ ایک ماہ میں پاکستانی فوج کے 25افسروں اور جوانوں نے اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ عوام کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔ مشرقی سرحد پہ دشمن ہمہ وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی تاک میں ہے۔

عدم برداشت اور مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی مخاصمت کے الاؤ کی تپش میں شدت پیدا ہو رہیہے۔ عمران خان اقتدار سے علیحدگی کے شدید قلق سے دوچار ہیں۔ برا فروختہ ہیں۔ ان کے جلسے، احتجاج اور دھمکیاں فضا کو مکدر کر رہی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مقتدر اداروں پہ رکیک اور تضحیک آمیز حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس بےلگامی اور درشت کلامی سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی بقا سے بڑھ کر حبِ جاہ ہی مطمح نظر ہے۔ اتنی بےحسی اور خود پرستی، الاماں!

انہیں لحظہ بھر ٹھہر کر یہ سچ قبول کرلینا چاہیے کہ اقتدار آنی جانی شے ہے۔ ملک قائم و دائم رہنا چاہیے۔دراصل مسئلہ کی جڑ یہاں پہ رائج سیاسی نظام ہے۔ سیاست ایک کاروبار کا روپ دھار چکی ہے جہاں سیاسی پارٹیاں لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح چلائی جاتی ہیں اور رہنما ان کمپنیوں کے مالکان ہیں جو محض حصولِ اقتدار کے لیے کوشاں ہیں۔ پارٹی ورکرز جبری غلام ہیں۔ کمپنیوں کی کوشش، کُشتی اور کشت و خون کرسیٔ اقتدار کیلئے ہے۔

بھارت کا وزیرِاعظم نریندر مودی اپنے والد کے چائے کے کھوکھے پر بطور ٹی بوائے یعنی چھوٹے کے طور پر گاہکوں کو چائے پیش کرتا تھا۔ یعنی عسرت و غربت کی زندگی گزارتا ہوا، بغیر مال و متال اکھٹا کیے اپنی پارٹی میں محنت کے بل بوتے پر گجرات کا وزیراعلیٰ بنا اور پھر وزیراعظم ہندوستان کی مسندِ جلیلہ پہ جلوہ افروز ہوا۔ پاکستان میں وزیراعظم تو کیا ایم پی اے یا ایم این اے بننے کا تصور تین قسم کے افراد ہی کر سکتے ہیں، مالدار ہو، رشتہ دار ہو یا ناز بردار ہو۔ بااثر غیر ملکی حلقوں کے سفارشی ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ متوسط طبقے کا تعلیم یافتہ صاحبِ کردار خار زارِ سیاست میں ذلیل و خوار تو ہو سکتا ہے کامیابی کا تو سوچے بھی نہ۔

اگر نظام میں تبدیلی کی تجویز پیش کی جائے تو بلاتخصیص حکومت اور اپوزیشن کو گراں گزرے گی۔ ان کے بند کانوں پہ گر کر پھسل جائے گی۔ استحصال اور زوال کے کھیل میں سب مرکزی کردار گونگے، بہرے اور اندھے ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان سے دست بستہ درخواست تو کر سکتے ہیں کہ خدارا انتشار و خلفشار سے بچیں۔ انہیں لاکھ سمجھائیں ملک، عوام اور آئین کو فوقیت دیں۔ اگر باہم دست و گریباں ہونے سے نہیں بچیں گے تو بچیں گے نہیں۔ معاشرت و معیشت بری طرح متاثر ہو گی۔ دشمن تو فائدہ اٹھائے گا ہی، یہ خود بھی ملک سے دشمنی کے مرتکب ہوں گے۔ امیدِ واثق ہے کہ یہ ایک نہ سنیں گے۔

موجودہ نظام استحصال و زوال کا نظام ہے۔ یہ حبِ شاہ اور حبِ جاہ کا نظام ہے۔ یہ ساہو کاروں اور سیہ کاروں کا نظام ہے۔ خود ساختہ، خود پرست اور خود نما رہنما اس ناکامی کے رسیا اور دلدادہ ہیں کیونکہ اس نظام میں ان کی ذاتی کامیابیاں مضمر ہیں۔ ان کی سیاست اپنی شہرت، طاقت اور نمود کے لیے ہیں۔ اس میں حساب اور احتساب عنقا ہے۔ محض مخالفوں کے خلاف کارروائی کا نام احتساب رکھ دیا گیا ہے۔ وہ اس ناکارہ نظام میں دھنس گئے ہیں۔ لیپا پوتی سے کام نہیں چلے گا۔ اس نظام کا انہدام ناگزیر ہے تو ایسے میں حل نظام کی تبدیلی ہی ہے۔ چہرے بدلو، نظام بدلو۔

ایک ایسا نظام وضع کیا جائےجس میں مالدار اور دلدار نہیں بلکہ اہل افراد، خاص طور پر نوجوانوں، کو لیڈر شپ کی سیڑھی چڑھنے کی اجازت ہو۔ ایسا نظام ہو جہاں مزدور، کسان، محنت کش اور عام شہری بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکے نہ جائیں۔ وہ اپنے فیصلوں میں خود شامل ہوں۔ حقیقی نمائندوں کو اوپر لایا جائے۔ اسلام بھی ایسے جمہوری نظام کا داعی ہے جہاں مال و زر نہیں بلکہ اہلیت نظامِ حکومت کی بنیاد ہے۔ سیاسی کمپنیوں، ان کے مالکان اور ان کے ملازمین کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ نظام نہیں چلے گا۔

تازہ ترین