• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری والدہ نے مجھے کہا تھا کہ عارف تم فکشن پڑھنا چھوڑ کر فلسفہ پڑھو، یہ کہہ کر انہوں نے ہیرولڈ روبن کا ناول دی کارپٹ بیگرز مجھ سے لے لیا اور مجھے سقراط کے مکالمے پر مبنی کتاب دی ریپبلک تھمادی جسے افلاطون نے تحریر کیا تھا اور یہ کتاب ایک منصفانہ شہری ریاست کی تشکیل اور کردار سے متعلق تھی۔ سقراط نے اس کتاب میں اپنے نوجوان ساتھی گلائوکون سے گفتگو کرتے ہوئے سمجھایا تھا کہ منصفانہ ریاست میں جمہوریت کی کوئی قسم لازمی ہونی چاہیئے تاکہ مل جل کر اچھا فیصلہ کیا جاسکے، جہاں تجارت کے کھلے مواقع ہوں، جس میں اشیاء کی خرید و فروخت بھی شامل ہے۔ جس پر گلائوکون نے اس پر استفسار کیا کہ کیا یہ دو چیزیں کافی ہیں، سقراط نے اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کہا کہ منصفانہ ریاست تھائی موس یعنی جذبے کے بغیر نہ ہی تعمیر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح انہوں نے 375 قبل مسیح میں مکمل فرد اور منصفانہ ریاست کی سہ فریقی روح سمجھادی تھی۔ اس کے تقریباً دو ہزار سال بعد فرانسس فوکویاما نے اصرار کیا کہ تاریخ ختم ہوگئی ہے اور فرد کی دو خصوصیات ، ایک اس کے دماغ سے اور دوسری اس کے جسم سے سے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ روشن خیال جمہوریت نے بطور تمام اقوام کی حکومت اور انسانی چاہ اور ضروریات کے لیے آزاد مارکیٹ کیپٹلزم نے اس ارتقائی جنگ کو جیت لیا۔ سیموئیل ہنٹنگٹن نے فوکویاما کے اس دو نکاتی تجزیے کو چیلنج کیا اور واپس سقراط کی سہ فریقی روح کی بنیاد پر تاریخ کی جانب رخ موڑ دیا جہاں مذہب، زبان، نسل یا اشتراکی تاریخ کی شناخت ہی وہ جذبات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لہٰذا تہذیبوں کا تصادم ہے اور رہے گا، وہ گروہ جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ قوم کی تعمیر میں صرف مارکیٹ کی اچھی معیشت اور جمہوریت نہیں بلکہ انسانی جذبات کا کردار ہوتا ہے۔ قرآن مجید بھی طرز حکومت میں مشاورت اور ذریعہ معاش کے لیے تجارت کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ امت کی شناخت فراہم کرتا ہے جو ایسی عوام پر مشتمل ہوتی ہے جو یقین رکھتے ہیں اور پھر اس معاشرے کا دفاع کرتے ہیں جو منصفانہ ریاست کی بنیاد پر تعمیر ہوتا ہے۔ انسانی روح مختلف اجزاء کا مرکب ہے جس میں محبت، نفرت اور فوبیاز کے جذبات تمام فیصلہ سازی کی آبیاری کرتے ہیں۔ جس کے بعد فرد واحد، خاندان، قبائل اور اقوام کے سانچے میں ہماری زندگی کو ڈھالتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں مغرب کی متضاد پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مغربی تعصب اور دوہرا معیار انسانی سانحات اور بحران میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جیسا کہ جنگ اور ہجرت کی صورت حال میں جہاں انسانیت کو نسل، رنگ اور مذہب کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑی قوتیں حکمرانی کی بنیاد پر عالمی حکم نامے پر صرف زبانی کلامی ہی بات کرتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں جو عالمی ادارے تشکیل دیئے گئے وہ مغرب کے مفادات کا تحفظ کرنے کی جانب مائل ہیں۔ اس صورت حال میں مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر کی عوام کو انسانی اور اخلاقی بنیاد پر عالمی حکم نامے کی اشد ضرورت ہے، جو بندوق کی نوک پر زبردستی قابل عمل نہ ہو، یا مخصوص مذہب، نسل یا رنگ سے اس کا تعلق نہ ہو۔ اس صورت حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ کیا پاکستان اس ضمن میں قیادت کرسکتا ہے اور امت کو منصفانہ عالمی حکم کی جانب لے جاسکتا ہے؟ میرا یقین ہے کہ ایسا ممکن ہے لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک پاکستان اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہوجائے اور اپنے آپ کو اخلاقی، دانش مندی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے مضبوط نہ بنالے۔ موجودہ دور میں کامیابی کی سیڑھی طویل نہیں ہے بس جذبے، اتحاد اور انتھک کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایسا ملک جو کہ مغل سلطنت ختم ہونے، اپنی غداریوں اور نوآبادیاتی مظالم کے بعد سامنے آیا۔ 1857 کے مظالم سے متعلق ولیم ڈیل رمپل نے لکھا ہے کہ دہلی کی گلیوں میں انسانی خون اور گوشت کی مہک کئی ہفتے تک قائم رہی تھی۔ ایسے دور میں جب سرسید احمد خان ابھر کر سامنے آئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کو علم کی جانب کھینچا، ان کے بعد علامہ اقبال نے امت میں خودی کی بات کی اور قائد اعظم نے ہمیں جغرافیئے میں ایک قوم کی شناخت دلائی۔ یہ باتیں قابل فخر ہیں کہ تاریخ میں ہم کیا تھے، علامہ اقبال کے اسلام میں مذہبی سوچ کی تشکیل نو سے متعلق لیکچرز اور ان کی گراں قدر شاعری کے ساتھ محمد علی جناح کی سوچ اور اپنی شناخت اور خودارادیت کا جذبہ، ان اجزاء میں شامل ہیں جو تاریخ کے دریچے میں موجود اور ہمارے خوابوں کے پاکستان کے لیے ضروری ہیں۔ آج پاکستان ایسے چوراہے پر ہے اور ملک میں جذبات عروج پر ہیں۔ ہم ان جذبات کا درست استعمال کرکے اور قوم کو متحد کرکے بحران سے نکل بھی سکتے ہیں اور عوام کو روک کر اپنے آپ کو تباہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے اور یہاں قیادت کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں بحران کا سامنا کرنے کے لیے قربانی دینا ہوگی، صرف غریبوں کو نہیں بلکہ طبقہ اشرافیہ کو بھی اس میں شامل ہونا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ رہنمائی اداروں اور سیاسی رہنمائوں دونوں کی جانب سے مل سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، اس سوال کا جواب جلد سامنے آنا چاہیئے۔ پاکستان اپنے قیام سے مسلسل اپنی شناخت پر بحث کررہا ہے بالخصوص مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے بعد سے ایسا کیا جارہا ہے۔ بھارت میں ہندواتوا کے اقدامات کے بعد دو قومی نظریہ ایک بار پھر اپنی اہمیت سمجھا رہا ہے۔ ہمیں آج بھی آزادی کے دشمنوں جس میں مذہبی، اقربا پروری اور کرپشن شامل ہیں کا سامنا ہے حالاں کہ ان کی نشان دہی جناح نے بھی اپنی تقاریر میں کی تھی۔ میں 75 برس کی جدوجہد کا تقابل حضرت موسیٰؑ کی قوم سے کرتا ہوں جو کہ وعدہ کی گئی زمین پر پہنچنے سے قبل 40 برس تک صحرا میں دربدر رہی۔ کیا ہم نے اس سے کچھ سیکھا یا ہم اس کے قریب بھی ہیں یا ہم اب بھی تذبذب کا شکار ہیں؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں بیداری کی چنگاری دیکھ رہا ہوں۔ جس چوراہے پر ہم آج کھڑے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو جذبے ملک میں نظر آرہے ہیں وہ خفیہ شعلوں کی طرح ہیں جو ہمارے متحد ہونے کی صورت میں بھڑکنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو محدود کرتے ہیں تو مسائل کو ازخود موقع مل جائے گا کیوں کہ یہ دو سمتی ہے یعنی مسائل کو بڑھا بھی سکتا ہے اور مسائل کو ختم بھی کرسکتا ہے۔ ہمیں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی اور ایسے ادارے تشکیل دینا ہوں گے جو محبت، ایثار، شفافیت، آزادی اور مساوات کو معاشرے میں فروغ دے۔ انسانی فطرت کی شناخت اور اس کے گرد اداروں کی تعمیر مکیاولن سوچ کی عکاس ہے۔ انسان کی فطرت اچھی بھی ہے اور لالچی بھی، جذباتی بھی ہے اور بری بھی۔ یہ ہماری جدوجہد ہے اور بلاشبہ تمام مذاہب کی بھی کہ ایسے ادارے تشکیل دیئے جائیں جو مذکورہ خصوصیات کو فروغ دیں۔ ایک ماہ بعد میری والدہ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دی ریپبلک پڑھ لی ہے؟ وہ منطق اور استدلال پر گفتگو کرنا چاہتی تھیں کیوں کہ وہ 16 برس کے بچے میں یہ علوم دیکھنا چاہتی تھیں۔ ہم نے کبھی فیصلہ سازی میں جذبات کے کردار پر بات نہیں کی۔ لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو وہ اس بات سے اتفاق کرتیں کہ جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ اماں منطق اور استدلال بغیر جذبے کے ایک خشک اور ادھوری زندگی کا سبب ہوں گے۔ اس کا درست وقت آج ہی ہے لہٰذا مجھے جذباتی اپیل کرنے دی جائے کیوں کہ بغیر جذبے کے امت اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل نہیں کرسکتی۔ میرے ملک کو اٹھائو کیوں کہ دنیا اس کے انتظار میں ہے اور ماضی کو موقع نہ دو کہ وہ تمھیں شکست دے۔

(صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان)

تازہ ترین