رات سے موسم کے بدلتے تیوروں کے سبب اگلے دن کی صبح کچھ ملگجی سی تھی۔ آسمان پر تنی بادلوں کی چادر نے موسم کو حسین رنگ تو دے دیا تھا، مگر شہر میں اس حُسن سے محظوظ ہونے والا کوئی نہ تھا۔ مَیں بھی ان بے کیف لوگوں کی طرح موسم کی رعنائی کو نظرانداز کرتا معمول کے مطابق گھر سے باہر آکر ڈیوٹی پر پہنچنے کے لیے سواری کا انتظار کرنے لگا۔ بسیں آج بند تھیں اور رکشا، ٹیکسی بھی خال خال ہی نظر آرہے تھے۔ جب سواری کے حصول کی طویل تگ و دو سے تھک چُکا، تو کالونی کے محافظوں کی خالی کرسی پر بیٹھ کر ایک گارڈ سے سواری روکنے کی استدعا کی۔ تھکاوٹ کے سبب کرسی کے بازوئوں پر کہنیاں رکھ کر سر نیچے کیے انتظار کرنے لگا۔
’’آج آپ کیوں آگئے سائیں؟‘‘ یہ میری زمینوں کے رکھوالے نور چاچا کی آواز تھی۔ ’’آج تو یہ گھٹائیں بڑے دِنوں کا حساب چُکتا کرنے کو بے چین نظر آرہی ہیں اور اس حالت میں آپ کی گھر واپسی مشکل ہوجائے گی…‘‘ وہ مسلسل بولے جارہا تھا۔’’ہاں… ہاں نور چاچا! مجھے معلوم ہے۔‘‘مَیں نے اپنے لیے فکرمند ہوتے نور چاچا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ برسات کی صُورت میں باغات سے زائد پانی کی نکاسی کا انتظام ہو گیا ہے یا نہیں؟‘‘’’سائیں! سب ہوگیا۔‘‘ اُس نے بند مٹھی پر انگوٹھے کو اوپر کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مگر اب آپ واپسی کی راہ لیں۔‘‘’’نہیں ،نور چاچا،آج میں واپس نہیں جائوں گا۔ ایک مدّت بعد ایسی کالی بدلی امڈ آئی ہے۔ ایک حساب مجھے بھی چُکتا کرنا ہے اس سے۔
اور ہاں، علی محمّد تم ایسا کرو کہ مجھے اوطاق پر اتار کر وہاں تھان پر بیل کو گاڑی سے الگ کرلو، تاکہ یہ بھی موسم کا لطف اُٹھا سکے۔‘‘ مَیں نے حکم دیا۔ اوطاق کی طرف جاتے ہوئے مجھے بیل کے گلے میں پڑی گھنٹی کی ٹن ٹن جل ترنگ سی محسوس ہورہی تھی کہ یکایک اس جل ترنگ کے ساتھ ایک اور ترنّم بھی شامل ہوگیا۔ یہ آسمان سے اُترنے والی بوندوں کا ساز تھا۔مَیں اندر تخت پر بیٹھا انتہائی محویت کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ زمین کس پیار سے بوندوں کا استقبال کررہی تھی، کس چاہت سے انہیں اپنی آغوش میں سمو رہی تھی۔ ہزاروں فیٹ بلندی سے آنے والے قطرے اپنے محبوب سے بغل گیر ہورہے تھے۔ قطار در قطار ردھم میں گرتے برسات کے ان قطروں نے گویا ایک رقص کا سا سماں باندھ رکھا تھا۔
منظّم انداز میں برستے اس پانی میں نہ جانے کیا سحر پوشیدہ ہوتا ہے کہ ہر ذی روح اس کے ہالے میں پہنچ جاتا ہے۔ سو ،مَیں نے بھی اوطاق سے باہر آکر اس رِدھم رقص کو اپنے چہرے پر محسوس کرنا چاہا اور جیسے ماضی کے دُھندلکوں میں کہیں کھو سا گیا۔کبھی ایسی ہی برسات ایک نہیں، دو چہروں پر برسی تھی اور فرطِ مسرّت سے تمتماتے دونوں چہرے ایک دوسرے کے دل پڑھ رہے تھے۔ دِلوں کی دونوں تختیوں پر چاہت کے سوا کچھ اور تحریر نہ تھا۔ مگر پھر…پھر اس کے بعد، اس عکس میں کوئی منظر نہ رہا، بس اندھیرا ہی رہ گیا۔
برسات آج بھی وہی ہے، مگر چہرہ بس ایک۔ آج مدّتوں بعد اس اندھیرے سے ایک ہیولا نکل کر دل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ اسی عالم میں آنکھوں سے اُمڈتے قطرے آسمان سے آتے قطروں میں شامل ہونے لگے۔دُکھ کہیں سانجھا ہورہا تھا، شاید بادل میرے ساتھ رو رہے تھے۔ ہم دونوں تھک چُکے تھے کہ اچانک بادلوں نے گھن گرج کے ساتھ انگڑائی لی اور اُسی آواز سے چونک کر مَیں نے آنکھیں کھولیں، تو سامنے نور چاچا کھڑا تھا۔’’سائیں! طبیعت تو ٹھیک ہے ناں…؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھنے لگا۔ ’’کیوں، کیا ہوا ہے مجھے؟‘‘مَیں نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔’’آپ کی آنکھیں سُرخ ہورہی ہیں، کیا آپ رو رہے تھے؟‘‘ نور چاچا نے ڈرتے ڈرتے جاننا چاہا۔’’نہیں،نہیں…مَیں کیوں روؤں گا۔ وہ دراصل بڑی دیر سے آنکھیں بند تھیں، تو شاید اس لیے سُرخ ہوگئیں۔
خیر، یہ بتائو، ندیوں کی کیا صورتِ حال ہے؟‘‘ مَیں نے اپنی چغلی کھاتی آنکھوں سے اس کی توجّہ ہٹانے کے لیے بات بدلی۔ ’’بڑی دیر سے برستی بارش کے تسلسل کے سبب گمان ہے دونوں ندیاں اپنے کناروں سے چھلک گئی ہوں گی۔‘‘ نورچاچا نے بتایا۔ایک مدّت سے زمینوں پر کام کرتے اس جہاں دیدہ شخص کے گمان اور مشاہدے نے مجھے بے چین سا کردیا تھا۔مجھے معلوم ہے کہ سالہا سال پُرسکون بہنے والی یہ ندیاں جب کبھی اپنا حیات بخش چولا اتار کر قہر کی علامت بنی، کناروں سے منہ زور گھوڑے کی طرح ٹکراتی ہیں، تو اپنے پیچھے الم کی ایک داستان چھوڑ جاتی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ مَیں ندی کے کنارے بسے اپنے پیاروں کے لیے فکرمند ہوگیا۔ ملیر سے لیاری تک کا بیس میل کا طویل سفر درکار تھا، جو ان حالات میں ناقابلِ عبور تھا کہ راستے کی ساری پگڈنڈیاں کیچڑ میں اٹی ہوئی تھیں۔ ایک امید کچھ اطمینان کا سبب بن رہی تھی کہ گورے افسران اپنے ماتحتوں کے ساتھ ضرور ان کی حفاظت کے لیے پہنچ گئے ہوں گے۔ بارش ابھی تک برس رہی تھی۔ مَیں واپس اوطاق میں جاکر بارش رُکنے کا انتظار کرنے لگا۔ علی محمد بھی بیل کو گاڑی میں جوت کر بس میرے اشارے کا منتظر تھا۔
اچانک مجھے اپنے کاندھے پر کچھ دبائو محسوس ہوا۔ ’’کہاں کھو گئے سر؟‘‘ یہ آواز کالونی کے محافظ کی تھی۔ ’’سواری آچکی ہے، تشریف رکھیں‘‘ اس نے مجھے آگاہ کیا۔’’سواری آچُکی…؟‘‘ چونکتے ہوئے مَیں نے اُس سے پوچھا۔ ’’تو کیا برسات رُک گئی؟‘‘ مَیں نےسخت حیرانی سےسوال کیا ’’نہیں سر…! برسات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔‘‘