• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیوجیامسجد کا بیرونی منظر
نیوجیامسجد کا بیرونی منظر 

ڈھلتی شام کی دُھوپ میں اداس کر دینے والا پھیکا پن تھا۔ پتا نہیں کیوں، مجھے دوسرے مُلکوں کی شامیں ہمیشہ ہی افسردگی میں ڈوبی لگتی ہیں، حالاں کہ یہاں ، چِین میں تو جذبات کی یہ کیفیت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ بہت سے اپنوں اور پیاروں کے درمیان تھی، مگر بندہ اب اپنے اِن اُلٹے سیدھے احساسات و جذبات کا کیا کرے…!بالکونی میں ہردو گھنٹے بعد کھڑے ہونا، تیز ہوائیں پھانکنا،کہیں ماٹھی، کہیں چوکھی دھوپ بھرا آسمان دیکھنا اوراُوپر والے سے دل کی باتیں کرنا، میرے لیے چائے پینے جیسا ہی اہم کام ہوتا ۔ آج بھی یہی مشغلہ جاری تھا، جب میری بیٹی سعدیہ نے کمرے کے عقبی دروازے میں آکر کہا ’’امّی! آپ فوراً تیار ہو جائیں، نیو جیا مسلم اسٹریٹ(NiuJie Muslim Street)چلنا ہے۔ عصر وہیں پڑھیں گے۔

مسلمانوں کا محلّہ دیکھنے کے ساتھ پرانے بیجنگ کے کچھ سیرسپاٹے اور Hutongsکا دورہ بھی کریں گے۔‘‘ چلو جی، یہ سُنتے ہی میرے تو چہرے پر مُسکراہٹ پھیل گئی کہ وہاں جانے کی بڑی تمنّا تھی۔ پہلے دن جب عمران(میرا داماد) شہر سے طائرانہ سا تعارف کروا رہا تھا، تو جی چاہا کہوں ’’یہاں کی قدیم ترین مسجد میں تو لے چلو کہ سَر، زمین پر رکھ کر اپنے لیے نہ سہی،مُلک کے لیے ہی کچھ مانگ لوں۔‘‘پر چُپ رہی کہ جانے کتنا تھکا ہوا ہے،دفتر سے آتے ہی تو نکل کھڑا ہوا تھا۔ خیر جی،ہم نے گھومنے جانے کی تیاری میں کون سے گدھے گھوڑے جوتنے یا ہار سنگھار کرنے تھے۔ جو کپڑے پہنے ہوئے تھی، انہی پر کوٹ پہن لیا۔ چپّا بھر لمبے بالوں میں کنگھا پھیرا، ہونٹوں کو ذرا سا لال کیا اور بس، ہم تیار۔

باہر کی دنیا سہ پہر کی ماند ماند سی دُھوپ میں بڑی حسین نظر آرہی تھی۔ اللہ جھوٹ بولنے سے بچائے، صفائی سُتھرائی کا یہ عالم کہ جس کے لیے کہا جاتا ہے ’’پلیٹ نہ ملے، تو دال چاول فرش پر ڈال کر کھالو۔‘‘ ذہن میں تصویریں اُبھر رہی تھیں۔ عورتوں کے جتّھے،مَردوں کے پرّے سائیکلز پر پیڈل مارتے ہوئے۔ مگر وہ تصویریں 1970-80ء کی دَہائیوں میں اخبارات، رسائل اور ٹی وی پر دیکھی ہوئی اِک قصّۂ پارینہ بن چُکی تھیں۔ جب سائیکل چِین کی تمدّنی زندگی کا اشیائے خوردنی ہی کی طرح کا ایک حصّہ تھی۔سائیکل سواری کی مقبولیت کا یہ حال کہ چِین صرف اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر پوری دنیا میں مشہور تھا۔

یہی وجہ تھی کہ اسے ’’مملکتِ سائیکلز‘‘ (Kingdom of Bicycles)کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔اب حسرت سے کہتی ہوں ’’کیا قوم ہے…؟‘‘ ٹپوسی مار کرکوٹھے پر چڑھی، بیچ کی سیڑھیاں تو اُڑا کر رکھ دیں۔جیسے ہمارے ہاں سائیکل سے موٹر سائیکل، چھوٹی گاڑی پھر کہیں بڑی گاڑی کا سفر، وہ بھی نصیب سے ملتا ہے، یہاں تو افلاس سے افلاک تک کا سفر بس چار دَہائیوں پر محیط ہے۔ عمران نے بتایا’’سائیکل آج بھی استعمال میں ہے، مگر یہ مخصوص جگہوں پر پڑی ہوتی ہیں۔ استعمال کرنے والا خود ہی لاک اور اَن لاک کرتا ہے۔جہاں جانا ہوتا ہے، وہاں جاکر سائیکل وہیں چھوڑ سکتا ہے۔ چینی لوگوں نےتو 1975ء میں سابق امریکی صدر، جارج بش اور ان کی بیگم سے بھی، جب وہ چین میں امریکی سفیر تھے، سائیکل چلوا لی۔ 

دونوں میاں، بیوی بیجنگ کی سڑکوں پر تحفے کی سائیکلز خُوب خُوب دوڑاتے پِھرتے تھے۔‘‘ باتیں کرتے، قصّے کہانیاں سُنتے سناتے ہماری گاڑی یونگ دنگ من برج سے مُڑی، اُسی کے پہلو میں ندی بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ دائیں طرف ’’سائے شی کھاؤ اسٹریٹ‘‘ سے سیدھے مسلم محلّے پہنچ گئے۔کیشی کو(Caishi Kou) سڑک ہی سے سبز گنبد کے لشکارے نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ نیوجیا دراصل مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ مسجد کوئی 1966 ء کے وسط میں تعمیر ہوئی تھی، جس کا سنگِ بنیاد عرب عالمِ دین، ناصرالدّین نے رکھا تھا۔

بیجنگ کے اِس نیوجیا علاقے میں ہوئی( Hui)مسلمانوں کے بارے میں چینی تاریخ دانوں اور محقّقین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان میں دو نام، ڈاکٹروین فی وینگ((Wen Fei Wang اور شینگائی زول (Shangyi Zholl) بہت اہم ہیں۔ ڈاکٹر وین فی وینگ مشرقی ایشائی زبانوں اور تہذیب (East Asian Languages and Civilization)میں ایک محقّق اور تنقید نگار کی شہرت رکھتی ہیں۔ڈاکٹر شینگائی زول نارمل یونی وَرسٹی آف پیکنگ کے شعبۂ ریسرچ کے اُستاد ہیں اور(The Growth and Decline of Muslim Hui) پر اِن کا تحقیقی کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔

نیوجیا بہت ہی خُوب صُورت علاقہ ہے۔ فلک بوس عمارتیں، قطار دَر قطار شائستگی سے اِستادہ ہیں۔ سڑکیں کشادہ اور دُکانیں سُرخ اور پیلے رنگوں کے امتزاج سے چمک رہی تھیں۔ دو باتوں نے توجّہ کھینچی کہ چِین میں پہلی بارمانگنے والے دو افراد (ایک بوڑھی عورت اور ایک اَدھیڑ عُمر آدمی) یہاں، اسی مسلمانوں کےعلاقے میں نظر آئے۔ مانگنے والے یقیناً صُورت سے چینی ہی لگ رہے تھے۔ لیکن حیرانی اس بات کی تھی کہ مَیں نے اِن چند دنوں میں اس قوم کا جو مجموعی مزاج اور رویّہ دیکھا تھا، سعدیہ اور عمران سے جو باتیں سُنی تھیں، ان سے اتنا تو سمجھ آگیا تھا کہ ہاتھ پھیلانا، اس قوم کا شیوہ نہیں،تو پھروہ لوگ کیوں مانگ رہے، مَیں سمجھ نہ سکی۔ وہاں کی دُکانیں بڑی رنگ رنگیلی سی تھیں، جن کے باہر سُرخ رنگ کے گول پھندنے والے ڈیکوریشن پیسز، جو غالباً چِین کا برکت و خوش حالی کا علامتی نشان ہیں، کم و بیش اکثر دُکانوں میں جھومر کی طرح لٹکتے نظر آئے۔ 

ایک اور چیز ہماری مسلمانیت کی تسکین کرتی، جذباتی سا منظر پیش کر رہی تھی کہ کسی کسی دُکان کے دروازے پر کلمۂ طیّبہ چسپاں تھا، جو آنکھوں کی چمک بڑھانے اور قلب کو سرشار کرنے کا باعث تھا۔ سبزیاں دیکھیں، جہازی سائز مولیاں اور بینگن بھی…’’اُف میرے اللہ! پورے ٹبّر کے لیے ایک بینگن ہی کافی ہے‘‘، پھر چوں کہ یہاں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ہے، اس لیے بہترین حلال گوشت کے لیے بھی یہ علاقہ بیجنگ میں خاصی شہرت رکھتا ہے۔یہیں حلال گوشت کی قدیم ترین دُکان بھی ہے، جو شاید 1912ء میں قائم ہوئی تھی۔مزے کی بات یہ کہ یہاں بہترین چائے کی دُکانیں بھی تھیں، تو مٹھائی اور پیسٹری کی بھی، جہاں سے ہم نے ایک بَن 1.5 یون(Yen)کا خریدا، ہائے اتنا منہگا۔ 

نیوجیا مسلم اسٹریٹ
 نیوجیا مسلم اسٹریٹ 

ایک تو کم بخت ضرب، تقسیم کی گندی عادت کسی بھی مُلک جا کر جان نہیں چھوڑتی۔بیسن میں لُتھڑے چکن پیسز دیکھ کر تو گویا منہ پانی سے بَھر گیا تھا۔’’بھئی انہیں تو ہر صُورت خریدنا ہے۔‘‘یہیں ایک بڑے سے اسٹور میں جائے نماز، ٹوپیاں، تسبیحاں،حجاب اور احرام وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ عمران نے ایک دُکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ چاولوں کے لیے خصوصی شہرت کی حامل ہے۔‘‘ چلتے چلتے ایسا مَن موہنا سا منظر آنکھوں سے ٹکرایا کہ جس نے رُک جانے پر مجبور کیا۔ مَیں رُکی اور پلٹ کر ایک لمبی نظر اپنی پشت پر ڈالی، جہاں پانچ، چھے دُکانوں کی ایک قطار کی آرایش لاجواب تھی۔کتنی ہی دیر کھڑی انہیں تکتی رہی۔

حتیٰ کہ سعدیہ نے آواز دی۔ لمبی ملگجی سی دیوار کے ساتھ چلتے جس کے اندر سے جھانکتے درخت پر کِھلے سفید پھولوں کو مُسکرا کردیکھتے اور آگے بڑھتے ہوئے ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔یہ ایک انوکھا سا منظر تھا، قدامت کے دل کش چینی فنِ تعمیر میں ڈوبا، وہی پگوڈا نما چھجّے دار شیڈ والا۔ پہلی نظر میں تو ہرگز مسجد کا تاثر نہیں اُبھرا، اسلامی فنِ تعمیر کی بھی کوئی علامت بظاہر نظر نہیں آرہی تھی، مگر ذرا سا ہی غور کرنے پر اسی چھجّے دار پگوڈا اسٹائل کے نیچے عین محرابی صُورت ڈیوڑھی نما راستے پر کلمۂ طیّبہ لکھا نظر آیا، تو تسکین کی ایک لہر رگ و پے میں دوڑ گئی۔ اس کے اندر کے مختلف حصّوں کی زیارت کرنا میرے حسابوں بڑا ایمان افروز تھا کہ وہاں وہ سب کچھ تھا، جسے دیکھنے کی چاہت اور تمنّا تھی۔

چوبی منقّش ستون، محرابیں اور قرآنی آیات سے سجی دیواریں۔اس وقت شام تھی،اندر کی اِس خاموش شام نے پورے ماحول کے حُسن کو متاثرکر رکھا تھا۔ ہم نے سوچا، سب سے پہلے اس کے بقیہ حصّے دیکھ لیں۔ گو، چہل پہل اور گہماگہمی والی فضا نہ تھی۔ پتا نہیں اللہ کے گھر رونق دیکھنا کیوں اچھا لگتا ہے۔مسجد کے مردانہ اور زنانہ حصّوں کو دیکھ کر مرکزی جگہ پر جب واپس آئے، تو دیکھا کہ صحن میں کافی لوگ موجود تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ تین خاندان، تین مختلف ممالک سے تھے۔ 

ایک کا تعلق چین کے شہر لانچو سے، دوسرے کا انڈونیشیا اور تیسرے کا ملائیشیا سے تھا۔ لانچو سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی سے بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ وہاں مسلمان کافی تعداد میں ہیں۔یہ علاقہ دنیا کی بہترین چائے کے لیے بھی خصوصی شہرت کا حامل ہے۔ انڈونیشیا سے آنے والا خاندان بہت محبّت کرنے والے، ملن سار لوگوں پر مشتمل تھا، جب کہ ملائیشیا سے آیا جوڑا،خوش اخلاق، تعلیم یافتہ تھا۔ شوہر نیوی میں ملازم اور بیوی کوالالمپور میں سیکنڈری اسکول میں ریاضی کی اُستاد تھی اور ان کے ساتھ دو چھوٹی بچیاں تھیں۔ 

تاہم، عجیب سی بات یہ تھی کہ بچیوں کے جسم پر گرم کپڑے نہیں تھے۔ گو، مارچ کا اواخر تھا، مگر ٹھنڈ تو خاصی تھی۔ ہواؤں میں وہ تیزی تھی، جو تندی کی طرف جاتی ہے۔ بڑے بڑے رک سیک ساتھ تھے۔ قریباً تمام سیاح تام جھام کے ساتھ لدے پھندےتھے۔ ملائشین فیملی تین دن مرکزی بیجنگ کے کسی منہگے ہوٹل میں رہائش کے بعد اب کسی سستے ہوٹل کی تلاش میں تھی اور پوچھتے پاچھاتے یہاں تک آگئی تھی، اب رہنمائی کی طالب تھی۔ داہنے ہاتھ انتظامی دفاتر موجود تھے۔ 

مختلف ممالک کے سیاحوں کے ساتھ یادگار تصویر
مختلف ممالک کے سیاحوں کے ساتھ یادگار تصویر

عمران نے اُنہیں وہاں جانے اور اُن سے مشورہ لینے کو کہا۔ مرد نے بیوی، بچیوں کو وہیں مسجد کے پہلے داخلی دروازے کے پاس، جہاں ہم سب کھڑے تھے چھوڑا اور خود کھوج کے لیے چلا گیا۔ ہم نے بھی سوچا کہ عصر کی اذان سے پہلے پہلے ہمیں مسجد کا ایک تفصیلی چکّر لگا لینا چاہیے۔ مسجد کے مختصر سے لان کے جھاڑ جھنکار نے دل کو ملال سے بھردیا ’’ہائے اِسے تو سرسبز رکھنا ضروری تھا۔ چلو مانا کہ موسم کی انتہائی شدّت نے اس پر اپنے اثرات چھوڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ہم منہ ہی منہ بڑبڑائے۔ 

بہرحال اِس ساری افسردگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے سامنے کی طرف بڑھے۔ کتب خانہ کشادہ بھی تھا اور کتابوں سے بھرا بھی تھا۔شیشے کی بند الماریوں سے آنکھیں لڑا لڑا کر دیکھا، مگر وہ یا تو چینی میں تھیں یا پھر عربی میں۔ کمرے کی فضا میں نیلگوں اور ارغوانی رنگ نمایاں تھا۔ جس کے امتزاج نے ماحول میں ایک بے نام سی اُداسی اور کچھ کچھ تاریکی کا سا احساس نمایاں کر رکھا تھا۔ عورتوں کا حصّہ خاصا قابلِ رحم تھا۔ فائبر گلاس کے لمبے مستطیل نما سبز شیڈ کی چھت کچھ اچھا تاثر نہیں پیش کر رہی تھی۔ کمرے کا سارا فرش دریاں ٹائپ غریبڑے سے قالینوں سے ڈھانپا ہوا تھا۔ 

ایک کمرے میں مقامی دست کاری کی چیزیں تھیں، کمرا بند تھا۔ مسجد کا مردانہ حصّہ پھر بھی بہت بہتر تھا۔ فضا میں اذان کی آواز گونجی، مگر وہ تاثر پیدا نہ کر سکی، جو ایک خوش الحان موذن کی رسیلی آواز کرتی ہے، اور سُننے والے پر جادوئی سے احساس کا تاثر چھوڑتی ہے۔ سیاہ پینٹ، لمبے سیاہ شیروانی ٹائپ کوٹ پر سفید عمامہ پہنے ایک ادھیڑ عمر چینی عقب سے آیا۔ مسجد کے صحن میں کھڑا ہوا، چھے بندے اُسی طرح کے لباس میں آئے اور عین امام کے پیچھے اور دائیں، بائیں پھیل گئے۔ پھر ’’اللہ اکبر‘‘ کے ساتھ ہی صحن میں نماز ادا ہونے لگی۔ 

ہاں، البتہ ایک بڑا دل چسپ سا منظر بھی دیکھنے کو ملا ۔ اقامت اور رکوع کے دوران دو،تین نمازیوں کو اِدھر اُدھر بھی دیکھتے ہوئے پایا تو 1969 ء یادوں میں اُبھر آیا، جب مَیں ڈھاکا یونی وَرسٹی میں تھی اور رمضان کے آخری دنوں میں عید منانے کے لیے اپنی کلاس میٹ اور ہوسٹل میٹ، ریبا کے ساتھ باریسال سے صاحب رائے جا رہی تھی، تو سفر فیری لانچ پر تھا۔ عصر کی نماز لوگوں کو پڑھتے دیکھا تو ہنسی آگئی تھی۔ تاک جھانک کا بس ایسا ہی سلسلہ جاری تھا۔ ہم ابھی وہیں تھے، جب کوئی بارہ تیرہ لوگ اندر آئے،سر پر چینی ٹوپیاں اور لمبی داڑھیاں۔ 

یہ بیجنگ کے چینی تھے اور سب کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا۔ عمران سے جب وہ باتیں کرتے تو چینی زبان کی بجائے انگریزی بولتے۔ لہجہ گو اچھا نہ تھا، تاہم بات چیت میں روانی تھی۔ انہوں نے رائے ونڈ کا ذکر کیا، جس کے سالانہ اجتماع میں وہ اکثر جاتے رہتے ہیں۔ ملائی خاتون کا شوہر ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ اس تبلیغی گروپ سے باتیں کرنے لگی۔ گفتگو سے پتا چلا کہ ملائیشیا اور چین کا ایک گہرا تعلق ہے۔ ملائیشیا میں چینیوں کی خاصی تعداد آباد ہے۔ مسجد کے سیر سپاٹے اور لوگوں سے بات چیت میں وقت کا تو احساس ہی نہ رہا۔ اب مغرب سر پر کھڑی تھی، تو سوچا نماز پڑھ کر ہی جائیں گے، وگرنہ قلق رہے گا کہ عین وقتِ نماز اللہ کے گھر سے نکل آئے ۔ Hutongدیکھنے کا تو سوال ہی نہیں تھا، تو وہیں ایک ریستوران سے ہم نے کافی لی اور ساتھ چکن اور بن کا تیاپانچا کیا۔ جب ہماری واپسی ہوئی تو شام گہری ہورہی تھی۔سو، ہوٹانگز ( Hutongs)کا سیر سپاٹا پھر کسی وقت پر اٹھا رکھا۔ (جاری ہے)