• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بزرگ، ہم باپ، ہم بھائی، ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں، آپ لوگوں کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں، پہلے رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرتے ہو، سچے جھوٹے وعدے لیتے اور دیتے ہو، ہنستے ہوئے تالیاں بجاتے باہر نکلتے ہو اور پھر کچھ عرصہ کے بعد آپ سے کام ہوتا نہیں یا آپ کو کام کرنے نہیں دیا جاتا تو پھر روتے ہو، اور روتے بھی ایسے ہو کہ آپ کے رونے کی آواز تک نہیں نکلتی، اور پھر اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے جلسے جلوس کرتے ہوئے چیختے اور چلاتے ہوئے اپنا رونا ایسے روتے ہو جیسے آپ کو عوام کا بڑا دکھ ہے۔ حالانکہ آپ رونا اپنی ذات کا رو رہے ہوتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں اسلامی ٹچ آپ دیں اور پھر علماء سے کہیں کہ مذہبی جماعتوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے، علماء سیاست میں مذہب کا نام لیں تو غلط، آپ سیاست میں مذہب کا نام لیں تو درست، بار بار آپ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں، کبھی اسلامی سلوگن پر ہمیں استعمال کرتے ہیں، کبھی سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر استعمال کرتے ہیں تو کبھی مہنگائی مارچ کے ذریعے باہر نکلنے کا کہتے ہیں، کبھی اسلامی ٹچ دکھانے کے لیے ریلیوں، جلسوں، جلوسوں میں نکلنے پر مجبو ر کرتے ہیں، کبھی امریکہ مخالف خط، کبھی جعلی خط۔

جلسوں میں نعرے ہم لگائیں لیکن حکمرانی کے مزے آپ لیں۔ قرضوں کی دلدل میں ہم نے نہیں آپ نے ملک کو دھکیلا تو قصور وار آپ ہیں، ہم نہیں۔ بینکوں سے قرضے ہم نے نہیں معاف کرائے، آپ نے ہمیشہ اپنے ذاتی قرضے معاف کرائے۔ الیکشن سے پہلے مراعات نہ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور الیکشن کے بعد آپ وی آئی پی کلچر کی عملی مثال بن جاتے ہیں۔ قرضہ آپ لیں اور ٹیکس عوام دیں۔ آپ لوگ ووٹ ہم سے لیتے ہیں اور عدم اعتماد اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ لوٹے آپ بنتے ہیں، بدنام حلقہ ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو حلقے کی وجہ سے عزت ملی، آپ خود جھکنے کی بجائے ہمیں جھکانے پر لگ جاتے ہیں۔ کیا ایسا کوئی قانون نہیں بننا چاہیے کہ جب آپ عدم اعتماد کریں تو پہلے حلقے میں ووٹ سسٹم کے ذریعے ہم سے پوچھیں کہ ہم بھی عدم اعتماد چاہتے ہیں یا نہیں۔ جب ہم عدم اعتماد چاہتے ہوں تب آپ عدم اعتماد کریں۔ عوام کو فیصلہ سازی میں کب شامل کیا جائے گا تاکہ ملک کے حالات ایسے نہ ہوں جیسے آپ نے بنا دیے ہیں۔ آپ لوگوں نے پارٹیوں میں جتنی شخصیت پرستی پر توجہ دی ہے، اتنی عوام پر توجہ کیوں نہیں دی؟ اولادیں آپ کی باہر پڑھتی ہیں، ہماری نہیں۔ سرکاری اسکولوں میں آپ اپنے بچے پڑھاتے تو سرکاری اسکولوں کا بیڑہ غرق نہ ہوتا، سرکاری اسکولوں کا سسٹم بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا تھا۔ آئیں عہد کریں، آئیں قانون بنائیں، سیاستدانوں کی اولاد سرکاری اسکولوں میں پڑھے گی۔ آئیں قانون بنائیں، عوامی جلسہ وہی منعقد کر سکتا ہے جس کےاپنے تمام بچے بھی جلسوں میں شریک ہوں۔ شدید گرمی میں ہونے والے جلسوں میں ہمارے بچے پسینہ بہائیں اور آپ کے بچے اے سی میں کمبل اوڑھ کر سوتے رہیں۔ سردی میں ہمارے بچے ٹھنڈ میں مار کھائیں اور آپ گرم کمروں میں سوتے رہیں۔ حلقوں میں لڑائیاں آپ کی وجہ سے ہوتی ہیں، ہماری وجہ سے نہیں۔ ہر گائوں، ہر قصبہ، ہر شہر، ہر تحصیل اور ہر ضلع میں آپ نے اپنے چاہنے والوں کو حد سے زیادہ نواز دیا ہے۔ ہمیں وہ آپ کا نام لے کر بلیک میل کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے۔ تھانہ کچہری میں آپ کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، ہمارے نہیں۔ ڈی سی آپ کے، اے سی، تحصیل دار حتیٰ کہ پٹواری بھی آپ کے۔ ڈی پی او آپ کے، آر پی او آپ کے۔ آئیں عہد کریں سرکاری ملازمین ایم پی اے، ایم این اے اور وزرا کے حکم پر نہیں لگائے جائیں گے بلکہ اُن کی تقرری قابلیت کی بنا پر عمل میں لائی جائے گی۔ بجلی آپ کو مفت ملتی ہے، علاج آپ کا مفت میں ہوتا ہے تو پھر عوام کا علاج کیوں مفت نہیں ہو سکتا، جو سہولت آپ کو ملتی ہے وہ ہمیں دستیاب کیوں نہیں؟ کرپشن آپ کے چیلے کرتے ہیں، ہم نہیں۔ ٹیکس چور آپ کے یار ہیں، ہم نہیں۔ اچھی تجارت اچھی حکومت کی طرف کب آئو گے؟ جن درختوں کے نیچے بیٹھ کر سایہ لیتے ہو، جن کے پھل کھاتے ہو، جن سے آکسیجن حاصل کرتے ہو، اُن کی اچھی دیکھ بھال کیوں نہیں کرتے؟ ووٹ بھی ہم سے لیتے ہو، مارتے بھی ہمیں ہی ہو، ہمارے پاس پینے کو صاف پانی نہیں، علاج کے لیے معیاری اسپتال نہیں، معیاری سٹرکیں نہیں، ٹرانسپورٹ نہیں، عوام کے خلاف کب تک پولیس کو استعمال کرو گے؟ پولیس وہی رہتی ہے لیکن پولیس کو استعمال کرنے والے بدلتے رہتے ہیں۔ سیاست میں آکر بھی اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہو، ہمارے کاروبار کمزور کرتے ہو، یہ ہمارا قصور ہے کہ ضرورت، ضرورت کی کزن ہوتی ہے؟ کم ظرف ہم ہیں اور صاحب ظرف آپ؟ آمریت کو آپ نے ہمیشہ خوش آمدید کہا، ہم سے کبھی آپ نے نہیں پوچھا کہ ہم عوام کیا چاہتے ہیں؟ آپ بھارت سے دوستی کریں، ان کے بچے ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھیں، ہمارے بچے ان کے ہاں پڑھنے کے لیے جائیں۔ نمک وہ ہمارا کھا سکتے ہیں تو ہم ان کی گائے سستے داموں کیوں نہیں خرید سکتے؟ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ آپ میں اچھی نیت اور احساسِ ذمہ داری کی کمی ہے۔ جھوٹے وعدوں کی بنا پر امیدیں ہمیں لگواتے ہو، آپ دھوکہ ہمیں دیتے ہیں جس ملک کے مزدور کی کم از کم تنخواہ 18یا 20ہزار ہو وہاں مجھے اس قلیل رقم میں ایک چھوٹے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ شاید عوام کو آپ اس شعر کی مانند ہی سمجھتے ہیں؛

میں خود میں برائیاں ڈھونڈتا رہ گیا

اُس نے جب کہا تھا تو میرے لائق نہیں

تازہ ترین