اعلیٰ حکومتی شخصیات کیخلاف ہائی پروفائل کیسز میں مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت نے 54 صفحات پر مشتمل تحریری موقف سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔
تحریری جواب میں حکومت نے ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کا دفاع کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ بیرون ملک سفر اور آزادانہ نقل و حرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب تحقیقات یا کسی ایجنسی کی تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالاجاسکتا، وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور الزامات کا جائزہ لیتی ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ ان کا اطلاق ماضی سے ہوگا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے، وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادانہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے۔
حکومتی جواب میں مزید کہا گیا کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے، ایف آئی اے میں افسران کے تبادلے و تقرریاں ماضی کی حکومت میں ہوئیں، سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بھی جواب دے چکے ہیں، سابق حکومت مقدمات بنانے کے لیے مداخلت کرتی رہی، تقریباً وہ تمام بھرتیاں جو ماضی کی حکومت نے کیں وہ اب بھی برقرار ہیں، فوجداری نظام انصاف کو کمزور کرنے سے متعلق لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔
تحریری جواب میں ای سی ایل سے نکالے گئے سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں، جن میں شاہد خاقان عباسی، احد خان چیمہ، وزیراعظم شہباز شریف، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شرجیل میمن، مفتاح اسماعیل اور آصف زرداری کے نام بھی شامل ہیں۔ فہرست میں 20 اپریل 2022 کو ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں کی تفصیلات شامل ہے۔