• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان کی مثال ’’کچہ‘‘ کی ہے اور کچہ ’’بمدارِ خمار‘‘ یعنی ہینگ اوور میں ہے۔ جیسے جیسے وہ اس سے باہر آئے گا، طبیعت یا کیفیت کا صحیح اندازہ ہوگا۔ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ پچھلے دنوں فارسی کے ایک ناول کا اردو ترجمہ کرایا اس کا نام تھا ’’بمدارِ خمار‘‘۔ ہینگ اوور کا اردو میں چونکہ کوئی ترجمہ موجود نہیں اس لیے ترجمہ نگار نے تو کتاب کا نام ’’صبح کا خمار‘‘ رکھا ہے۔ اب دیکھتے ہیں پڑھنے والے کیا کہتے ہیں کہ ناول علامتی سطح پرکہاں تک ہمارے قومی ہینگ اوور کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔ مجھے بہت افسوس سے کہنا ہے کہ وہ ادبی تحریریں جو زندگی کے مسائل سے الجھتی تھیں خواب ہو گئی ہیں۔ تھوڑی سی گفتگو ’’بمدارِ خمار‘‘ کے بارے میں۔ فارسی زبان سے میری دلچسپی بہت پرانی ہے۔ بچپن میں جب مجھےدرسِ نظامی کے لیے جامعہ شمعیہ صدیقیہ میں داخل کرایا گیا تھا تو اس وقت میں نے سوچا تھا کہ بڑے ہوکر میں بھی گلستانِ سعدی جیسی کتاب لکھوں گا۔ جب میں نےسلطان باہوؒ کی فارسی تصانیف’’کلید ِتوحید (خورد )۔ کلیدِ توحید (کلاں )۔ الہاماتِ باہو اور دیوانِ باہو کے تراجم کا کام شروع کیا تومجھے ایسے احباب کی ضرورت محسوس ہوئی جو فارسی زبان کے عالم ہوں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی وساطت سےڈاکٹر اکبر ملک اور ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر اقبال شاہد سے دوستی ہوئی۔ ان کے توسط سے ڈاکٹر سلیم مظہر کے ساتھ ایک تعلق بنا۔ میرے یہ تینوں احباب فارسی زبان کے عالم ہیں، بلکہ فارسی بھی اہلِ فارس کی طرح بولتے ہیں۔ تینوں سے مختلف اوقات میں، میں نے ایک ہی سوال کیا کہ اس وقت فارسی زبان کا سب سے مقبول ناول کون سا ہے؟ سب نے ایک ہی نام لیا ’’بمدارِ خمار‘‘۔ سو میں نے سوچا کہ فوری طور اس کا اردو میں ترجمہ کرایا جائے۔ اس کام کے لیے کئی لوگوں سے بات کی۔ باقر علی شاہ نے ڈاکٹر شوکت حیات کا نام لیا اور یوں ایک اچھا مترجم اس ناول کو مل گیا۔ بمدار خمار ایک ناول ہے جو حاج سید جوادی کا لکھا ہوا ہے جو پروین کے نام سےمعروف ہیں۔ یہ 1995میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔ یہ ناول قدیم تہران کی اشرافیہ سے لے کر معاشرے کے نچلے طبقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک نوجوان بڑھئی کے ساتھ ایک لڑکی کی ناکام محبت کی غمناک کہانی۔ اس ناول کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سوزان باغستانی کا جرمن ترجمہ جرمنی میں اوسطاً دس ہزار کاپیوں کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔

اب آتے ہیں ’’کچہ‘‘ کی طرف۔ کچہ پروفیسر سرور خان نیازی کے لکھے ہوئے ناول کا نام ہے۔ پروفیسر سرور خان نیازی ہمیں گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ کالج کی ڈرامہ سوسائٹی کے بھی وہی سربراہ تھے۔ انہوں نے وہاں کئی ڈرامہ بھی کرائے تھےجو انہوں نے خود لکھے تھے۔ انہیں اس وقت بھی اردوادب سے گہری دلچسپی تھی۔ سو ایک نوجوان شاعر کی حیثیت سے وہ میرا خیال رکھتے تھے۔ کالج کےوقت کے بعد بھی ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ پروفیسر سلیم احسن، پروفیسر منور علی ملک، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر طاہر تونسوی بھی ان دنوں وہیں پڑھاتے تھے۔ یعنی ان دنوں میانوالی میں ادب کی شامیں آباد تھیں۔ فضا شاعری سے لبریز تھی۔ درختوں پر تخلیقی وفور کا بور آیا ہوا تھا۔ میانوالی میں سید نصیر شاہ اور فیروز شاہ جیسے شاعر بھی موجود تھے۔ گلزار بخاری بھی ان دنوں وہیں ہوتے تھے یا دکھائی دیتے تھے۔ فاروق روکھڑی کی لہکتی ہوئی آواز بھی فضا میں گونجتی تھی۔ کبھی کبھار ظفر خان نیازی بھی کوئٹہ سے آجاتے تھے۔ تقریبات سلسلہ در سلسلہ جاری تھیں۔

سرور خان نیازی نے ایک دن سوچا کہ ’’میانوالی کی ایپک‘‘ لکھی جائے اور قرعہِ فال میرے نام نکالا۔ طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ وہ اس ایپک کی کہانی نثر میں سنائیں گے اور میں اسے منظوم کروں گا تقریباً پانچ سو کےقریب اشعار پر مشتمل وہ ایپک ہم نے مل کر لکھی مگر کہانی کی طوالت دس ہزار اشعار مانگتی تھی۔ سو کہیں معاملہ راستے میں رہ گیا۔ان اشعار میں سے کچھ پنجابی ادب کے میانوالی نمبر میں شائع بھی ہوئے۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ کہانی سرور صاحب کی تھی مگر ان کا یہ مسئلہ نہیں تھا کہ بحیثیت کہانی کار ان کا نام آئے۔ انہوں نے مجھے کہا ’’میں تو صرف باتیں کررہا ہوں انہیں شاعری میں تو تم ڈھال رہے ہو۔ سو اس پر نام تمہارا آئے گا میرا نہیں‘‘۔

گزشتہ عید میں انہیں ملنے گیا۔ اپنا ناول ان کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ آخر کار میں نے بھی ایک ناول لکھ دیا ہے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ انہوں نے جو بھی لکھا ہوگا کمال ہوگا۔ میں نے فوراً کہا کہ اس ناول کو چھاپنے کا اعزاز مجلس ترقی ادب حاصل کرے گی اور پھر میں ناول کا مسودہ ان سے لینے میں کامیاب ہو گیا۔پڑھا تو ناول ویسا تھا جیسا میں نے سوچاتھا۔

اس ناول کا لینڈ اسکیپ میانوالی کا کچہ ہے۔ کچے کی تہذیب و تمدن کو پانی میں دفن ہوئے 50سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اب یہ ایک ایسی مردہ تہذیب ہے جو کاغذوں میں بھی موجود نہیں ہے۔ میری یادداشت میں کچہ سے متعلق صرف ایک نظم موجود ہے۔ سید نصیر شاہ کا تعلق بھی کچا سے تھااس میں گانگی ان کاگائوں تھا۔ انہوں نے ایک نظم کہی تھی ’’میڈے گانگی شار دی گلیاں‘‘۔ اس ناول نے جہاں کچہ کی تہذیب و تمدن محفوظ کر لیا ہے وہاں ایک شاندار ناول بھی اردو ادب کو عطا کیا ہے۔ اس ناول کا ایک کرشمہ یہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس نے دو لوگوں کو مرنے سے بچا لیا ہے۔ ایک سرور خان نیازی کو دوسرا ’’کچہ‘‘ کو۔ میراکچہ ایک جسم رکھتا ہے۔ وہ زرخیریوں کے لباس میں جب ملبوس ہوتا تھا تو میانوالی کی رونق ہی اور ہوتی تھی۔ یہ بھی بڑی سطح پر علامتی ناول ہے بظاہر بمدار خمار کی طرح سیدھی سی ایک کہانی لے کر چل رہا ہے مگر بباطن غلط فیصلوں سے نکلتی ہوئی برباد بستیوں کا مرثیہ ہے۔

تازہ ترین