بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اِس وقت شدید پریشانی اور تشویش کا شکار ہیں۔ جب بھی تارکینِ وطن سے بات کی جائے تو اُن کی زندگی میں پاکستان کی سیاست بھی بڑی اہم ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ 2018کے انتخابات کے بعد اُن کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ ان کی پاکستان سے محبت میں اضافہ ہی نظر آیا۔ جمہوریت کے نظریہ نے اُن کو بشارت دی کہ وہ پاکستان کی ریاست اور سیاست کے لیے اہم حیثیت میں اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم ہونے کی وجہ سے ان کو مکمل احساس ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں جب ملک میں اقتدار کیعمل میں آئی ہوئی، آصف علی زرداری کی دانش کی مددسے، ان کا خیال ہے کہ تارکینِ وطن ملکی سیاست میں اجنبی ہیں اور ان پر بھروسا کرنا مناسب نہیں اور ان کا آج کی بےبس جمہوریت میں کوئی کردار نہیں ہے۔
مخلوط اور مجبور سرکار کے وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف یہ کہتے نہیں تھکتےکہ معاشی بحران پاکستان کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔ دوسری طرف اس مخلوط سرکار کے اخراجات کی کوئی حد نہیں، کتنے ہی وزیر بیرونِ ملک مصروف نظر آ رہے ہیں، ان کی مصروفیت کا پاکستان کے عوام سے کوئی تعلق اور واسطہ نظر نہیں آتا اور وہ بیرونِ ملک نہ جاکر کچھ بچت کر سکتے تو سوچا جا سکتا تھا کہ یہ بھان متی کا کنبہ نہیں، ہمارے وزیر خارجہ پہلے سعودی عرب گئے وہاں ان کی مصروفیت سے پاکستان کو کیا ملا، یہ تاحال واضح نہیں ہوا اور امریکہ یاتراکے بعد وہ نائب وزیر خارجہ کے ساتھ کس ملک کی سفارت کے ساتھ مصروف ہیں، اس پر بہت سوال کیے جا رہے ہیں، ان کے والدِ محترم جو پاکستان کے سیاسی ڈرامے کے لکھاری بتائے جاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ملک میں عام انتخابات ہوں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر ہمارے ساتھی افتخار ملک کے سپوت ہیں اور وہ بھی کئی دن سے منظر عام پر نظر نہیں آ رہے۔ ملک بھر کا میڈیا اس وقت صرف اور صرف وزیر داخلہ کی توجہ کا طالب نظر آ رہا ہے، ان کی ہر میڈیا ٹاک میں ایک لفظ کی تکرار مسلسل نظر آ رہی ہے، اور وہ ہے انتقام، پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ نئے انتخابات سے ہی ملکی جمہوریت کا بھرم رکھا جا سکتا ہے۔کپتان عمران خان نے ایک بات کا فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں افواجِ پاکستان پر تبصرہ اور تنقید نہیں کریں گے۔ مخلوط سرکار نے عسکری انتظامیہ سے اجازت لینے کے بعد سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جس کی خبر عسکری دوستوں نے بروقت کپتان کو کر دی اور کپتان نے فوری طور پر صوبہ پختونخوا میں اپنی منڈلی جمالی اور وہاں سے جمہوریت اور انتخابات کی بات کرنے کے لیے ملک بھر میں اپنے متاثرین کو اسلام آباد آنے کا حکم دیا۔ ان کے اس قدم سے مخلوط اور مجبور سرکار کا ردِعمل بڑا ہی غیرجمہوری نظر آیا، ملک میں دفعہ 144لگا دی گئی اور پولیس کے علاوہ دیگر عسکری اداروں کو طلب کر لیا گیا اور جو لوگ پُرامن طور پر نکلے اور خصوصاً پنجاب میں ان کے ساتھ پولیس کا رویہ بہت ہی جابرانہ تھا اور پنجاب پولیس نے عوام میں اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگا دی، اس ساری صورتحال میں وزیر داخلہ کا کردار مناسب نہیں تھا۔
مخلوط سرکار کے وزیراعظم کا حالیہ دورۂ ترکی بڑے مشکل حالات میں ہو رہا ہے۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے کوئی نئی جہت دیتا نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم کی ترکی میں آؤ بھگت بھی بڑے معمولی انداز میں کی گئی۔ ترکی کی معیشت بھی مشکلات سے دوچار ہے، وہ یورپی یونین کا ممبر بننے جا رہا ہے۔ اس پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ہونے والا ہے اور اس ہی تناظر میں وہ اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے وہاں پر ہمارے وزیراعظم نے ترکی کے تاجروں کے اہم اجلاس میں جس انگریزی زبان میں خطاب فرمایا، وہ سفارتی طور پر شرمندگی کا باعث بھی بنا ۔آپ اپنی زبان میں بات کرتے اور زیادہ مؤثر طور سے پاکستان کی اہمیت کا احساس دلاتے۔ اس دورہ میں وہ خصوصی تحائف بھی لے کر گئے ہیں جبکہ ملک کو شدید مالی بحران کاسامنا ہے مگر غیر ضروری اخراجات پر کوئی بھی کنٹرول نہیں ہے۔
اس ساری صورتحال میں ہماری اعلیٰ عدالتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ملک کےسیاسی بحران کو احسن طریقے سے حل کرنے کیلئے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے ۔ ہماری عدلیہ پر جس قسم کا تبصرہ ہوتا ہے وہ مناسب نہیں ہے ،یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی دوسرے ادارے نے ان کو کچھ ایسا بتایا جس سے اس ادارے کا تشخص متاثر ہو سکتا تھا اور اعلیٰ عدالتوں نے ملک کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کیا مگر جب بات کھلی تو اعلیٰ عدلیہ کو اندازہ ہوا کہ ان سے غلط بیانی کی گئی تھی اب اس کا مداوا ایسے ہی ہوسکتا ہے کہ انصاف اور قانون سب کے لیے برابر ہو۔ اس وقت اداروں کے اندرملکی معاملات پر شدید تشویش نظر آ رہی ہے گو کہ اعلیٰ ترین عہدیدار اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ ان کومزید ملازمت کی ضرورت نہیں مگر جب عمران خان نے انتخابات کے لیے حکومت وقت سے وقت کا تعین کرنے کا کہا تو ایسا تاثر دیا گیا کہ انتخابات اس سال ہی ہو سکتے ہیں اور صدر پاکستان کو یقین دہانی بھی کروا دی گئی۔ یہ طفل تسلی ہے ہماری انتظامیہ اس وقت امریکہ کے بہت قریب ہے اور اس تناظر میں روس اور چین کو نظر انداز بھی کیا جا رہا ہےپھر عمران خان نے امریکہ کا جو چہرہ دکھایا ہے وہ پاکستان کے لیے ایک مہربان حلیف کا نہیں ہے ۔ اب لگتا یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خاں جمہوریت کو بچانے کے لیے جلدانتخابات کروانا چاہتے ہیں تاکہ ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف سے بچایا جا سکے۔عمران ڈٹ چکا ہے اس کے لیے تخت یا تختہ کچھ بھی اہم نہیں صرف پاکستان اہم ہے۔