• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنالوجی کی مدد سے اِنڈور کاشت کاری غذائی قلت کا مسئلہ حل کرسکتی ہے

رواں سال فروری کے اوائل میں 74لاکھ نفوس پر مشتمل ایشیا کے مالیاتی مرکز ہانگ کانگ کے شہریوں کو تازہ خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شہر کی سپر مارکیٹوں میں سبزیاں اور تازہ خوراک ذخیرہ کرنے والی شیلفس خالی تھیں، کیونکہ سرحد کی دوسری طرف چین میں کووِڈ-19کی سختیوں نے تازہ خوراک کی فراہمی کو بری طرح متاثر کیا تھا۔

ہانگ کانگ، ایک گنجان آباد شہر، جہاں زراعت کے لیے جگہ محدود ہے۔ وہ اپنی خوراک کے حصول کے لیے تقریباً مکمل طور پر بیرونی دنیا پر انحصار کرتا ہے۔ فلک بوس عمارتوں سے بھرے شہر کی 90 فی صد سے زیادہ تازہ خوراک، خاص طور پر تازہ پیداوار درآمد کی جاتی ہے اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ چین ہے۔

ہانگ کانگ میں عمودی کاشت کاری کی کمپنی فارم 66 کے شریک بانی اور سی ای او گورڈن ٹام کہتے ہیں، ’’وبائی بیماری کے دوران، ہم سب نے دیکھا کہ مقامی طور پر اُگائی جانے والی سبزیوں کی پیداواری استعداد بہت کم ہے۔ اس وجہ سے خوراک کی قلت کا سماجی اثر بہت بڑا تھا‘‘۔ ٹام، ہانگ کانگ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی سے سسٹین ایبل اَربن ڈیویلپمنٹ میں ماسٹرز ڈگری کے حامل ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ شہر میں صرف 1.5 فیصد سبزیاں مقامی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ فارم 66 جیسے عمودی فارمز، آئی او ٹی سینسرز، ایل ای ڈی لائٹس اور روبوٹس جیسی جدید ٹیکنالوجیز کی مدد سے ہانگ کانگ کی مقامی خوراک کی پیداوار کو تقویت دے سکتے ہیں اور اپنی اس قابلیت کو دیگر شہروں کو برآمد کرسکتے ہیں۔ ’’عمودی کاشت کاری ایک اچھا حل ہے کیونکہ اس طریقے سے شہروں میں سبزیاں اُگائی جا سکتی ہیں۔ ہم خود سبزیاں اُگا سکتے ہیں تاکہ ہمیں درآمدات پر انحصار نہ کرنا پڑے‘‘، وہ بتاتے ہیں۔

ٹام کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2013ء میں بلی لام ( سی او او) کے ساتھ مل کر، ایک ہائی ٹیک عمودی کاشت کاری کے علمبردار کے طور پر فارم 66 کی بنیاد رکھی۔ ’’ہماری پہلی کمپنی تھی جس نے ایک فارم میں توانائی بچانے والی LED لائٹنگ اور ’ویو لینتھ‘ ٹیکنالوجیز استعمال کیں‘‘۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’ہمیں پتہ چلا کہ روشنی کے مختلف رنگوں کی شعاعیں پودوں کو مختلف طریقوں سے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ ہماری دریافت تھی‘‘۔ مثال کے طور پر، سرخ ایل ای ڈی روشنی سے تنوں کو تیزی سے نمو ملے گی جب کہ نیلی ایل ای ڈی روشنی سے پودوں کو بڑے پتے اُگانے کی ترغیب ملتی ہے۔

فارم 66 پر کوالٹی کنٹرول اور 20ہزار مربع فٹ اِنڈور فارم کے انتظام میں مدد کے لیے IoT سینسرز اور روبوٹ کا استعمال کیا جاتا ہے، جس سے کمپنی کو کارکنوں کی بھرتی اور انھیں برقرار رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ’’روایتی کاشت کاری کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہنرمند افرادی قوت کی کمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے باقی رہ جانے والے کسانوں کے بچے کھیتی باڑی میں نہیں جانا چاہتے۔ ان کے خیال میں یہ بہت تھکا دینے والا کام ہے۔

ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، ہم کام کے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں تاکہ نوجوان کھیتی باڑی کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘، وہ کہتے ہیں۔ فارم 66 میں اس وقت 15 کُل وقتی ملازمین کام کرتے ہیں، جن میں ڈیٹا اینالسٹ، فوڈ سائنٹسٹ اور میکینکل انجینئرز شامل ہیں۔ فارم ایک ماہ میں سات ٹن سبزیاں پیدا کرتا ہے۔ فارم میں کام کرنے والے ملازمین ڈیٹا اینالیٹکس، روشنی کی حرارت، پانی کے بہاؤ اور ایئر کنڈیشننگ ، نیز فارمنگ مکینزم میں مہارت رکھتے ہیں۔

کمپنی مختلف سرمایہ کاروں اور سرمایہ کار اداروں سے 40لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کی فنڈنگ حاصل کرچکی ہے۔ فارم 66 میں کاشت کاری کی ایک پائیدار تکنیک Aquaponicاستعمال کرتے ہوئے پتوں والی سبزیاں، جڑی بوٹیاں اور پھل اُگائے جاتے ہیں۔ اس تیکنیک کے تحت پیداوار کو دیے جانے والے پانی میں مچھلیاں چھوڑی جاتی ہیں۔ مچھلیوں کو جب خوراک دی جاتی ہے تو وہ امونیا خارج کرتی ہیں۔ مچھلیوں سے خارج ہونے والی امونیا کو پہلے نائٹریٹ اور پھر نائٹروجن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ 

کسی بھی پودے کی نشونما کے لیے نائٹروجن ایک اہم جزو ہوتا ہے اور اس طرح نائٹروجن شامل پانی جب فارم میں زیرِ کاشت سبزیوں کو دیا جاتا ہے تو ان کی نمو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، اس زرعی تکنیک کے تحت تجارتی کھاد کی بجائے مچھلی کے فضلے سے غذائی اجزاء حاصل کرتے ہوئے پودوں کو اُگایا جاتا ہے۔ اس طرح فارم کے اندر ایک خودکار اندرونی ماحولیاتی نظام پروان چڑھتا ہے، جہاں زیرِ کاشت پیداوار اس پانی سے مچھلیوں کے فضلے کو جذب کرلیتی ہے اور پانی صاف ہوجاتا ہے۔ یہ پانی بعدازاں دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

کمپنی ان مصنوعات کو پیک کرکے سپر مارکیٹوں، ہوٹلوں اور اعلیٰ معیار کے حامل خوردہ اسٹورز پر فروخت کرتی ہے۔ کمپنی اب اسکولوں اور نجی اداروں کو ان کے باورچی خانوں اور محدود جگہوں میں پائیدار طریقے سے اِنڈور فارمنگ سکھانے لگی ہے۔ ’’ہم کھیتی سے کھانے کی میز تک کا ایک مکمل سسٹم پیش کرتے ہیں، تاکہ ہم خوراک کے لیے دوسروں پر انحصار کم کرسکیں۔

ہم اَربن فارمنگ اور انوائرنمنٹل، سوشل اینڈ گورننس(ESG)اصولوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ معیارِ زندگی کو بہتر بناسکیں۔ ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ایک چیز دور سے درآمد کرنے سے توانائی زیادہ خرچ ہوتی ہے اور کاربن کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ پائیدار صارفیت اسی میں ہے کہ مقامی پیداوار کو فروغ دیا جائے‘‘،ٹام بتاتے ہیں۔