پاکستان اس وقت داخلی اور خارجی طور پر کئی مشکلات سے دو چار ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا نظام حکومت چل رہا ہے جبکہ فوجی قیادت ملکی سلامتی کو سب چیزوں پر فوقیت دے رہی ہے۔اس صورتحال کا بڑا فائدہ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم نواز شریف کو ہوا ہے یعنی امریکہ کے ڈرون حملوں کی نئی حکمت عملی سے پاناما لیکس کا ایشو پردے کے پیچھے چلا گیا۔ اب اس حوالے سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو کچھ بھی ہوگا وہ محض عوام کو بے وقوف بنانے کی کارروائیاں ہوں گی ا ور رسمی بیان بازی اور مخالفت برائے نام ہوگی۔ اس حکمت عملی کا سہرا میاں نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے بڑی سمجھداری سے اپنے سارے کارڈز صحیح طریقے سے کھیلے ہیں۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے ، دوسری طرف بھارت اور ایران کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدے کے تحت چاہ بہار پورٹ کی ڈیویلپمنٹ ہے جو کافی عرصے سے غیر فعال تھی۔ اب بھارت نے اسے فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد گوادر پورٹ کی بجائے چاہ بہار سے اپنے مخصوص اقتصادی مقاصد حاصل کرنا ہے۔ حقیقت میں تو چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ کا بظاہر کوئی مقابلہ نہیں لیکن اگر بھارت اورایران میں دوستی مزید بڑھ گئی تو اس سے پاک ایران گیس کا منصوبہ بھی متاثر ہوسکتا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ان مسلمان اور غیر مسلمان ممالک کی سپورٹ کم ہوسکتی ہے جو ایران کے اتحادی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک مستقل وزیر خارجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے پاکستان کو خطے کی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر اقتصادی مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے اور امریکہ سمیت ساری دنیا کے ساتھ ڈیل کرنے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر اپنا دبائو مزید بڑھانے والا ہے جس کے تحت فوجی قیادت کے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی قیادت اور حکمراں امریکہ کی کافی ساری شرائط مان سکتے ہیں جس سے علاقے میں پاکستان کی پوزیشن مزید کمزور اور بھارت اور افغانستان کی پوزیشن مضبوط ہوسکتی ہے۔ شاید اس پس منظر میں بھارت نے چاہ بہار پورٹ کے منصوبے میں ایران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ وہاں بھارت کا اسٹیل کنگ، اسٹیل مل کے ایک منصوبے کا آغاز چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ا سٹیل بزنس وہاں ہوگا۔ تو میاں نواز شریف فیملی کی سوچ اور رویئے میں بھارت کے خلاف وہ سختی نہیں رہے گی جو قومی مفادات کے تحت ہونی چاہئے۔ اس وقت تو حالات کا تقاضا ہے کہ ہر سطح پر ذاتی اور سیاسی مفادات کو نظر انداز کرکے قومی سلامتی کی فکر کی جائے۔ اس کے لئے فوجی قیادت سے مشاورت اور اعتماد سازی میں اضافہ کیا جائے جو اس وقت کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ دوسرا یہ کہ چین کے ساتھ دوستی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ گوادر پورٹ کے بعد کیا ہوگا ہم تو ہر چیز اور رعایت چین کو دئیے جارہے ہیں مگر اس کے عوض قوم پر قرضوں کے بوجھ میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کا کیا ہوگا؟ موجودہ حالات یہ بھی تقاضا کررہے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاملات کس طرح ٹھیک کئے جائیں اس کے ساتھ دوطرفہ تجارت بڑھانے کے لئے سیاست سے زیادہ معاشی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ بعض حلقے تو اس حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران بھارت دوستی ہماری کئی خامیوں کا نتیجہ ہے۔ دوسراایران اس وجہ سے بھی بھارت کے قریب ہوتا جارہا ہےاور ہم امریکہ سے دور ہوتے جارے ہیں۔ ویسے تو امریکہ سے دور ہونا کوئی برا نہیں ہے ہمیں ہر وقت اپنی سلامتی اور خود مختاری کو مدنظر رکھ کر اپنے قومی مفادات کے ساتھ خارجہ امور چلانے ہوں گے۔ اس سے داخلی طور پر حالات خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بھارت ہر سطح پر یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کسی طرح دنیا سے الگ رہ جائے اور ایسا نظر بھی آرہا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ داخلی طور پر اقتصادی اور دفاعی حالات اتنے اچھے بنائے جائیں کہ بیرونی دنیا سے امداد اور قرضوں کی بجائے اقتصادی تعاون ملے جیسے بھارت حاصل کررہا ہے، حالانکہ بھارت کے داخلی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں مگر اپنی بہتر خارجہ پالیسی کی وجہ سے دنیا کو صرف مثبت صورتحال دکھا کر اپنے مقاصد حاصل کررہا ہے جبکہ پاکستان کے پاس اپنے استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بنتا جارہا ہے، تاہم جہاں تک گوادر پورٹ کا تعلق ہےچاہ بہار میں بھارتی مفادات بڑھنے کے باوجود گوادر پورٹ کی اہمیت سینٹرل ایشیا اور پھر بین الاقوامی سطح تک برقرار رہے گی۔ اس کے لئے بال ا ب حکمرانوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا اقتصادی اور انتظامی پالیسی بناتے ہیں کہ جس سے نہ تو بھارت لوکل بلوچوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکے اور نہ ہی عالمی سطح پر پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرسکے۔ بھارت گوادر پورٹ بننے سے بین الاقوامی سطح پر کئی مسائل سے بھی دو چار ہوسکتا ہے۔