قدیم زمانوں میں ہیرو ورشپ کا نظریہ یا تصور دنیا بھرمیں چھایا ہوا تھا لوگ کسی نہ کسی اولوالعزم ہستی یا نجات دہندہ کی تلاش یا انتظار میں رہتے تھے ۔آج بھی قدامت پسندانہ اپروچ بالعموم یہی ہے اورلوگ اپنی من پسند کسی نہ کسی ’’ہستی‘‘کیلئے لڑ مر رہے ہوتے ہیں۔ عظیم امریکی دانشور صدر نے کیا خوب کہا تھا کہ فوت شدگان کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ زندوں پر حکومت کریں۔درویش اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ کسی بڑی سے بڑی مدبرو دانا زندہ ہستی کا بھی یہ استحقاق نہیں ہے کہ وہ عوام الناس پر شخصی حکمرانی کرے، فرد واحد نہیں جمہور کی آواز پر لبیک کہا جائے گا۔ البتہ یہ پیش نظر رہے کہ جمہور کی قیادت کرنے والی بھی تو کوئی نہ کوئی شخصیت ہی ہوتی ہے مگر صدیوں کے انسانی شعوری ارتقا نے انسانیت کو یہ سکھایا ہے کہ قیادت کرنے والی کوئی بھی شخصیت اعلیٰ آدرشوں کی مطابقت میں تشکیل دیئے گئے قواعدوضوابط کی پابندی کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لیکر چلے گی، شتر بے مہار بننے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہو گی ۔
مسلمانانِ جنوبی ایشیا کا المیہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی شخصیت کا طواف کرتے ہی نظر آتے ہیں، بت پرستی کا الزام ہمیشہ دوسروں پر دھرتے ہیں لیکن اپنا عملی رویہ یہ ہے کہ ایک ’’نجات دہندہ‘‘ سے جان چھوٹتی نہیں تو کوئی دوسرا فرستادہ بن کر ایستادہ ہو جاتا ہے، اندر سے وہ چاہے جتنا ہلکا یا کھوکھلا ہو لیکن اس کے گرد پروپیگنڈے کے زور سے عقیدت کا ایسا ہالہ بنا دیا جاتا ہے کہ جس کا تنقیدی جائزہ جیسے گناۂ کبیرہ ہو۔ اس کے علاوہ یہاں دو طبقات ایسے مقدس ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا تنقید نگار، سچا و کھرا دانشور ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناح صاحب نے یہ ملک انہی دو طبقات کیلئے بطور چرا گاہ بنایا تھا ۔
ان دنوں ہماری تاریخ کا جو تیسرا بڑا لاڈلہ ہم پر مسلط ہے، اس نے اس ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ہماری معاشی بدحالی کیلئے ہمارے پاس روز اول سے موجود دو سفید ہاتھی ہی کافی تھے اب اس نے اپنے لاڈلے پن میں پچھلے پونے چار برس میں قوم کی وہ معاشی ٹھکائی کی ہے کہ ہم پوری دنیا میں بھکاری کی نئی پہچان لے کر ابھرے ہیں بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اسے ہٹانے کے بعد یہ جو نئے تجربہ کار آئے ہیں یہ ہماری قومی معیشت کی بھنور میں پھنسی کشتی کو پار لگا دیں گے مگر یہ درویش ساون میں بھی سوائے خزاں کے کچھ نہیں دیکھ پا رہا، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں اتنی بڑھا کر غریب قوم پر اتنے مہنگائی بم گرا کر آپ لوگ آئی ایم ایف سے جتنے بھی ڈالر وصول کریں گے، کیا اس کے بعد اس قوم کی معیشت ہمالہ سے جا ٹکرائے گی؟ سچائی یہ ہے کہ ایسا کچھ ہونے نہیں جا رہا ، رسوائی و خواری اس قوم کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے تا وقتیکہ سچائی سننے اور اس کی مطابقت میں ڈھلنے پر لٹھ بردار آمادہ نہ ہو جائے، جتنی مرضی بڑھکیں مار لو اور شہباز شریف کے بیٹے سمیت پوتے کو بھی لے آئو مگر یہاں کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔
ناچیز نے کچھ عرصہ قبل تحریر کیاتھا کہ وہ موجودہ شہباز حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتا ہے مگر کیا کرے ایک لاڈلہ سابق کرکٹر ہر روز کوئی نہ کوئی نئی پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ادھر نظر التفات کرنی پڑتی ہے آج بھی ذہن یہی تھا کیوں کہ اس کی نظر میں یہاں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے او رسچے لکھاری کو کبھی پارٹی نہیں ہونا چاہئےحتیٰ کہ مذہب یا عقیدے جیسا حساس معاملہ بھی آ جائے تو اس کی نگاہ انسانیت کے وسیع تر مفاد پر ہونی چاہئے ۔نہ جانے یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو شخصیت پرستی کی بیماری میں گرفتار ہو جاتے ہیںاور اگر کوئی حاذق حکیم یا جراح ان کا علاج کرنا چاہے تو حملوں اور دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
حال ہی میں اسلام آباد میں سابق فوجیوں کی کسی تنظیم نے پریس کانفرنس کی جس میں کسی نجات دہندہ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے گئے مگر جی ہوشمند صحافی نے اس پر سوالات اٹھانے چاہے تو اتنے اہم عسکری عہدوں پر فائز رہنے والے نے اس پر شائوٹ کرتے ہوئے اسے نامناسب دھمکی دے ڈالی۔اگریہ جناح کا جمہوری پاکستان ہے تو یہاں کا جمہوری چیف ایگزیکٹو کس خوشی میں اس نوع کے ظالمانہ و آمرانہ ضوابط پر دستخط کر رہا ہے کہ یہاں سول افسران کی تعیناتی و ترقی میں چھان بین کا فریضہ فلاں ایجنسی کے سپرد ہو گا ،کیوں بھائی؟ اے طاہر لاہوتی ایسی وزارت عظمیٰ سے موت اچھی جس میں بلند پرواز کرنے والا کیڑوں کی طرح یوں رینگ رہا ہو۔
اس کے باوجود نجات دہندہ چلا رہا ہے کہ ان لوگوں کو اوپر لانے سے بہتر تھا کہ اس ملک پر ایٹم بم گرا دیتے یعنی اس قوم پر ایٹم بم مارے جانے کا اتنا نقصان نہیں ہونا تھا جتنا پنجاب اسپیڈ جیسی شہرت رکھنے والے اس تجربہ کار اور تابعدار کو وزیر اعظم بنانے سے ہوا ہے ’’نجات دہندہ‘‘ کی پارٹی کا کوئی عام کارکن نہیں، ایک رُکنِ قومی اسمبلی یہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر میرے لیڈر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم لوگ اس ملک اور اس کی اہم شخصیات کے خلاف خودکش حملے شروع کر دیں گے ایک اور ممبر اسمبلی وزیر داخلہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے گھر اور خاندان کا ایڈریس معلوم ہے وہ حشر کر دونگا کہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی خود نجات دہندہ بول رہا ہے کہ ’’تین ٹکڑے ہو جائیں گے‘‘ کہاں ہیں وہ طاقتور جنہوں نے اپنے خلاف معمولی اظہار پر ملک کے مقبول ترین لیڈر کی گفتگو نشر کرنے پر ابدی پابندی لگا رکھی ہے؟ بلاشبہ آزادیٔ اظہار نجات دہندہ سمیت سب کا بنیادی انسانی حق ہے لیکن یہ کانا انصاف بند ہونا چاہئے اور انصاف دینے والوں کو بھی یہ تمام تر دھمکیاں سنائی دینی چاہئیں لیکن ممکن ہے کہ دھمکیاں دینے والوں کا مقصد یہ نہ ہو، ممکن ہے اپنے تئیں وہ دعائیں دینا چاہ رہے ہوں۔