• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ان دنوں بریڈ فورڈ میں مقیم تھا ایک دن میرے پاس سائوتھ ہال لندن سے کسی دوست کی وساطت سے ایک سکھ ملنے آیا ۔ اس کا نام جسونت سنگھ ٹھیکیدار تھا ۔ بھارت میں اس پر چالیس آدمیوں کے قتل کے مقدما ت درج تھے ۔ اس نے کہا کہ ہم ایک ڈرامہ لکھوانا چاہتے ہیں ۔ خالصتان کی تحریک میں ایک لاکھ شہید ہونے والے مردوں اور عورتوں کےلئے ۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیں یہ کام کرکے دے سکتے ہیں ۔ تھوڑی سی گفت و شنید کے بعد معاملہ طے پا گیا انہوں نے اس کے عوض اتنی معقول فیس دینے کی بات کی کہ انکار مشکل ہو گیا۔ اب مسئلہ تھا کہ میں اسے اردو حروف تہجی میں لکھوں گا تو وہ پڑھیں گے کیسے ۔طے ہوا کہ لکھنے کے بعد میں اس اسکرپٹ کو اپنی آواز میں ریکارڈ کرادیا کروں گا اور وہ اسے گرمکھی میں لکھ لیا کریں گے ۔جب ان سے گفتگو مکمل ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنے مارٹرز کے لئے ’’شہید ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ یہ خالص اسلامی اصطلاح ہے تو انہوں نے کہا’’ سکھ مت پر اسلام کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ اگر ہم بھارت میں نہ رہتے تو مسلمانوں کا ہی کوئی فرقہ سمجھے جاتے ‘‘۔

انہوں نے اس حوالے سے مجھے بے تحاشا میٹریل دیا ۔ بلکہ میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سکھ مذہب کو بھی پڑھ لوں تاکہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔ طے ہوا کہ میں مہینہ بھرتمام چیزوں کا مطالعہ کروں گا اور پھر تین ماہ کےلئے بریڈ فورڈ سے سائوتھ ہال منتقل ہوجائوں گا اور وہیں رہ کر یہ تیرہ اقساط کا سیریل مکمل کروں گا ۔ اس ڈرامے میں بہت سے کردار تھے ۔ ایک اہم ترین کردار جرنیل سنگھ بھنڈرانولاکے قریبی ساتھی میجر جنرل شابیگ سنگھ کاتھا ۔ جو گولڈن ٹمپل میں بھارتی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئےماراگیا تھا ۔

اس ڈرامہ میں میجر جنرل شابیگ سنگھ کے دوگلٹ ایسے تھے جو اسے نیند میں سوتے ہوئے بھی جگا دیتے تھے ۔ ایک اجتماعی طور پر سکھوں کا گلٹ تھا کہ وہ 1947 میں ایک خداکو ماننے والوں کو چھوڑ کر بتوں کو پوجنے والوں کے ساتھ کیوں چلے گئے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سکھ صرف ایک خدا کو مانتے ہیں اور بتوں کی پوجا کو حرام سمجھتے ہیں ۔ دوسرا گلٹ ذاتی تھا کہ مشرقی پاکستان میں اس نے مکتی باہنی تیار کیے تھے اور انہیں گوریلا جنگ کی تربیت دی تھی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔ اس ڈرامے کے ایک سین میں وہ بھنڈرانوالہ کو بتاتا ہے کہ ’’مکتی باہنوں میں پچاس فیصد انڈین آرمی کےلوگ تھے اور تیس فیصد مشرقی پاکستان کے ہندو تھے اور بیس فیصد مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا تھا‘‘۔

میجر جنرل شا بیگ سنگھ کے متعلق جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔’’ 'کچھ دنوں بعد میجر جنرل شا بیگ سنگھ کو وہاں جنرل پاڈا کی جگہ تعینات کیا گیا۔ ان کا سلوک میرے ساتھ بہت دوستانہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ انڈیا میں سکھوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے مجھے خالصتان کا نقشہ دیا جس میں پورا مشرقی پنجاب شامل تھا۔ بعد ازاں سنہ 1984 میں جب انڈین فوجی گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوئے تو وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کے ساتھ لڑتے ہوئےمارے گئے‘‘۔

مجھے سائوتھ ہال کےجس مکان میں ٹھہرایا گیا تھا۔وہاں دو سکھ لڑکے بھی رہتے تھے جو چند برس پہلےانڈیا سے آئے تھے ۔ان کا کام میری خدمت کرنا تھا ۔ بے شک دونوں بہت اچھے تھے ۔ میرے لئے حلال ڈھونڈ کر لاتے تھے ۔پوری تحقیق کرتے تھے کہ کہیں حلال گوشت کے نام پر وہ مجھے جھٹکے والا گوشت نہ کھلا بیٹھیں ۔ایک دن ان کے ساتھ ایک لڑکا آیا جو ان کا نیا نیا دوست بنا تھا۔ اس نے اس ڈرامہ میں بڑی دلچسپی لی ۔مجھ سے ایک ایک بات تفصیل سے پوچھتارہا۔میں بھی یہ سوچ کر بتاتا رہا کہ انہی کا کوئی سکھ نوجوان دوست ہے مگر جاتے ہوئے جب اس نے بتایا کہ وہ لندن میں نہرو سنٹر میں کام کرتا ہے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی انڈین انٹیلی جنس کا آدمی تھا۔بہر حال ابھی ڈرامہ کی آٹھ قسطیں لکھی گئی تھیں کہ ایک دن جسو نت سنگھ ٹھیکیدار نےآکر کہا ’’یہ آپ کی باقی رقم ہے ۔ڈرامہ لیٹ ہوگیا ہے ۔آپ باقی اقساط بریڈفورڈ سے لکھ کر بھیج دیجئے گا ۔میں نے وجہ جاننے کی بہت کوشش کی مگر مجھے لگا کہ اس پر کوئی ایسادبائو آگیا ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہے ۔

اس عرصہ میں جسونت سنگھ ٹھیکیدار سے بہت باتیں ہوئیں ۔وہ بھارت سے فرار کے بعد کچھ عرصہ پاکستان بھی اپنے سکھ بھائیوں کے ساتھ رہا تھا۔ پاکستان کے بارے میں اس کے بہت اچھے خیالات تھے ۔یہ سارے واقعات مجھے آج کیو ں یاد آئے ۔دراصل میرے نزدیک اس وقت مودی سرکارنے جو توہینِ رسالت کی ہے اوروہاں جومسلمانوں کے ساتھ مسلسل زیادتیاں جاری ہیں ۔ان کا واحد حل یہی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کو ملایا جائےتاکہ خالصتان کی تحریک پھر سے طاقت پکڑے۔اس کےلئے ضروری ہے کہ برصغیر سے باہر موجود سکھ اور مسلمان میڈیا کی وساطت سے اپنی آواز کو بلند کریں ۔ خالصہ جیسے ڈرامے بنائے جائیں ۔ہندو حکومت کے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ گجرات کے فسادات میں جو ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور جو ایک لاکھ سے زائد سکھ مارے گئے ۔ان کے لہو کی داستانیں تاریخ کے ماتھےپر’’ سنہری حروف‘‘ سے لکھی جائیں تاکہ دنیا آسانی سےپڑھ سکے ۔دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت ابھی تک صدیوں پرانی ہندوتوا کے تاریک ترین دور میں ہے ۔آج بھی چھوت چھات کا نظام رائج ہے۔بیس بائیس کروڑ دلتوں کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور رشتہ داری کا معاملہ کرنا تو درکنار، انہیں عام مندروں میں داخلےکی بھی اجازت نہیں ۔اس ہندوتوا کی نظر میں توہین ِ رسالتؐ کرنے والےہیرو ہیں۔ چاہے وہ 1929میں توہین ِ رسالت کرنے والا راجپال ہو شیطانی آیات کا مصنف سلمان رشدی ۔تسلیمہ نسرین نے جب توہین کی تو ہندوتوا کی محبوب بن گئی ۔وہ آج تک بھارت کی پناہ میں ہے۔ہمیں ضرور کچھ ایسا کرنا ہے کہ پھرکسی ہندو حکومت کو دوبارہ توہینِ رسالتؐ کی ہمت نہ ہو ۔

تازہ ترین