• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


سندھ پولیس کے سابق سینئر پولیس افسر راؤ انوار کی جانب سے بینظیر بھٹو قتل کیس سے متعلق اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔

سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ راؤ انوار نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اُنہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل پر جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط اس لیے کیے تھے کہ ان پر اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا دباؤ تھا کہ قتل میں جنرل مشرف کو ملوث کیا جائے۔ 

پولیس افسر راؤ انوار نے اپنے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کا بیان یا ان سے پوچھ گچھ کیے بغیر ان کا نام مطلوب تھا، دباؤ ڈالنے پر میں نے ثبوت مانگا تھا اور ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔

سابق پولیس اہلکار نے رحمٰن ملک کے کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، راؤ انوار نے بتایا ہے کہ بینظیربھٹو کے 2 بلیک بیری فونز 3 سال رحمٰن ملک کے پاس رہے، بینظیربھٹو کے ان فونز سے ان کی موت کی تحقیقات میں مدد مل سکتی تھی۔

ایک بار وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملنے گئے اور ان سے بلیک بیری فونز کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے مجھے رحمٰن ملک کے پاس بھیجا، جب میں نے رحمٰن ملک سے فونز کے حوالے سے سوال کیا تو اُنہوں نے صاف انکار کر دیا کہ اُن کے پاس کوئی فونز نہیں ہیں، پھر اُنہوں نے طیش میں آ کر سوال کیا کہ آخر میں زرداری صاحب کے پاس کیوں گیا؟

راؤ انوار کا مزید کہنا ہے کہ اُس وقت رحمٰن ملک سیکیورٹی کے سربراہ تھے، تحقیقات ان سےشروع ہونی چاہیے تھی، اس معاملے پر حلف کے تحت بھی بیان دینے کو تیار ہوں۔

راؤ انوار نے کہا ہے کہ مشرف کی بگڑتی صحت کا سن کر کچھ حقائق آن ریکارڈ لانا چاہتا ہوں۔

راؤ انور کے انٹرویو پر پی پی کا ردِ عمل

فرحت اللّٰہ بابر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی راؤ انوار کے بیان پر قانونی معاملات کا جائزہ لے کر تفصیلی جواب دے گی۔

پی پی رہنما فرحت اللّٰہ بابر نے کہا ہے کہ کیس میں قانونی معاملات ہیں، لطیف کھوسہ سے بات کر کے جواب دوں گا، راؤ انوار کی بات پر کس طرح یقین کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ راؤ انوار کا بیان پرویزمشرف کو مقدمات میں ریلیف دلانے کی بھی کڑی ہو سکتی ہے، معلوم کریں گے کہ کوئی ممبر جے آئی ٹی پر دستخط نہ کرے تو اس کی کیا قانونی حیثیت ہوتی ہے۔

بینظیر بھٹو کے قتل کا پسِ منظر 

واضح رہے کہ 27 دسمبر2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی کے وقت ہونے والے خود کش حملے کے نتیجے میں بینظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جبکہ اس سانحے کا مقدمہ تھانہ سٹی پولیس میں درج کیا گیا تھا۔

بینظر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا مرکزی ملزم اکرام محسود تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آپریشن کا انچارج تھا جبکہ بیت اللّٰہ محسود کو حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا۔

راؤ انوار نے اب انکشاف کیا ہے کہ طیب محسود کی قیادت میں ایک اور دہشت گرد گروپ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں بینظیر بھٹو کی وطن آمد کے موقع پر ان پر ہوئے خودکش حملے میں ملوث تھا، جس میں 180 افراد شہید ہوئے تھے۔

راؤ انوار کو سابق صدر آصف علی زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

حال ہی میں کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد انتقال کرنے والے رحمٰن ملک نے اپنا بیان وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس کبھی ریکارڈ نہیں کروایا۔

یاد رہے کہ اُس وقت کے صدرِ مملکت پرویز مشرف پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو مکمل سیکیورٹی فراہم نہیں کی تھی جبکہ عدالت اُنہیں مقدمے میں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی لیکن اس دوران بھی سابق وزیرِ اعظم بینظر بھٹو کے مقدمۂ قتل میں کوئی حوصلہ افزاء پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

قومی خبریں سے مزید