پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما، سابق وزیرِداخلہ رحمٰن ملک نے اپنی کتاب ’محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت‘ میں محترمہ کی شہادت کے سانحے سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔
سابق وزیرِداخلہ رحمٰن ملک نے اپنی کتاب ’محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت‘ کی تقریبِ رونمائی منعقد کی، یہ کتاب محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے 28 ابواب پر مشتمل ہے، کتاب میں لیاقت باغ کے واقعے میں ملوث تمام کرداروں کی تفصیلات شامل ہیں۔
تقریبِ رونمائی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غلط تاثر ہے کہ پیپلز پارٹی 5 سالہ دورِحکومت میں بینظیر بھٹو شہید قتل کیس کی تحقیقات میں ناکام رہی، اس طرح کے تاثرات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں، اس کتاب کے بعد ان تمام جھوٹے اور بے بنیاد تاثرات کی نفی ہو جاتی ہے، محترمہ بینظیر بھٹو عرصے سے دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھیں، اسامہ بن لادن نے محترمہ شہید کو سیاست سے نکالنے کے لیے پیسے کا استعمال بھی کیا۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تمام مجرمان کی شناخت، گرفتاریاں اور ٹرائل کیا گیا، مجاز عدالت نے مجرموں کو سزا بھی سنائی، سوائے ان کے جو پراسرار طور پر مارے گئے یا مفرور ہیں، منصوبہ سازوں، ہینڈلرز اور سہولت کاروں کے پراسرار قتل کی تفصیلات کتاب میں دی گئی ہیں، قتل کے منصوبے کے مرکزی سرغنہ عباد الرحمٰن عرف چٹان کو خیبر ایجنسی میں ڈرون حملے میں مارا گیا، یہ خیبر ایجنسی میں واحد ڈرون حملہ تھا جو عبادالرحمٰن عرف چٹان کو مارنے کیلئے کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیس پنجاب پولیس سے ایف آئی اے کو منتقل کیا تھا، کیس کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، تمام مشکلات اور خفیہ قوتوں کی طرف سے خلل ڈالنے کے باوجود جے آئی ٹی ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہی، جے آئی ٹی نے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا، بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے 5 دہشت گردوں کی ضمانت منظور کی، ان 5 دہشت گردوں کو ای سی ایل میں شامل کرنے کیلئے اس وقت کے وزیرِداخلہ کو خط لکھا تھا۔
سابق وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد عبدالرشید، اعتزاز شاہ، رفاقت حسین، حسنین گل اور شیر زمان کے کردار کتاب میں ہیں، امریکا سے ڈی این اے کروایا گیا جس سے مجرمان کو شناخت کیا گیا، سازش کے سرغنہ مولوی نصیب اللّٰہ کو درۂ آدم خیل کے قریب مارا گیا، دوسرا خودکش حملہ آور اکرام اللّٰہ اس وقت ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی کے ساتھ افغانستان میں ہے، افغانستان میں اکرام اللّٰہ پر 2 قاتلانہ حملوں ہوئے جس میں وہ بچ گیا، اس نے بی بی سی کو انٹرویو دینے کا فیصلہ کیا تو انٹرویو سے 1 دن قبل اس پر حملہ کیا گیا، حملے میں اکرام اللّٰہ تو بچ گیا مگر وہ بی بی سی کو انٹرویو نہ دے سکا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے وزارتِ داخلہ کو 4 خطوط لکھے، خطوط میں لکھا کہ اکرام اللّٰہ کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے افغانستان و انٹر پول سے درخواست کی جائے، ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی نے اپنی کتاب میں بینظیر بھٹو کے قتل کا اعتراف کیا، قتل کی سازش مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے کمرہ نمبر 96 میں عبادالرحمٰن نے تیار کی تھی، بیت اللّٰہ محسود نے 2 خودکش بمبار مہیا کیے تھے جو رات کمرہ نمبر 96 میں رہے، نصر اللّٰہ 26 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں خودکش حملہ آور لایا تھا، نصر اللّٰہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن کے دوران مارا۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ کیس اب ہائی کورٹ میں فیصلے کے لیے زیرِ التواء ہے، امید ہے کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ایک دن انصاف ملے گا، اس وقت کی حکومت نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بلیو بک کے مطابق سیکیورٹی نہیں دی، جب نواز شریف پر حملہ ہوا تو سیکیورٹی ساری وہاں بھیجی گئی، واقعے کے فوری بعد کرائم سین کو دھویا گیا، پولیس افسران کی تفتیش کی گئی کہ کرائم سین کیوں دھویا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ محترمہ کی شہادت ایک بہت بڑی سازش ہے، اب حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جس کی میں مخالفت کرتا ہوں، تحریکِ طالبان نے ہمیں زخم دیے ہیں، وہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، افغان طالبان کی حکومت اکرام اللّٰہ کو ہمارے حوالے کرے، میں پاکستان آرمی کو سلام پیش کرتا ہوں، جس کے جوان ملک کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔