• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان سیاست اور جمہوریت کے درمیان مشقتی بنا ہوا ہے ۔2018ء کے انتخابات کے بعد ملی جلی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے عمران خان سرکار بنی تو اس وقت بھی ہارنے والی مشہور زمانہ سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے الزام لگایا تھا کہ انتخابات شفاف نہیں تھے اور نا معلوم اداروں کی من مانی سے ایسے نتائج سامنے آئے ۔ کوئی بھی جماعت نامعلوم ادارے کا نام بتانے پر تیار نہ تھی مگر اب کچھ اسرار کھلنے لگے ہیں، اس سے پہلے کئی ایسے موقع آئے جب عمران خان سرکارقومی اسمبلی میں قانون سازی اور بجٹ پر اپنی حیثیت کھو سکتی تھی مگر نامعلوم مہربان ہر موقع پر کام آئے ،جب بھی کوئی ایسا قانون یا قرارداد پیش ہوئی تو رائے شماری خفیہ تو تھی مگر عمران خان سرکار کا کام بن گیا۔

اب کی بار کیا ہوا ؟عمران خان کی سرکار مشکل حالات کے باوجود معاشی اور سماجی ترقی میں اپنے ہدف پورے کرتی رہی ،اس نے تیسرے سال آئی ایم ایف کو بتا دیا کہ وہ اس کے پروگرام کومن وعن نہیں چلا سکتی چنانچہ پٹرول کی قیمت میں دس روپے کی معمولی کمی بھی کی اور بجلی کےیونٹ میں بھی ایسا ہی کیا ۔ عمران خان نے کم سے کم رقم میں بیرون ملک سفر بھی کئے جن میں عسکری انتظامیہ کی مشاورت سے روس کاسفر بھی شامل تھا ۔ان ہی دنوں امریکی ،عمران خان کے اسی دورے پر امریکی ،پاکستانی دفتر خارجہ اور عسکری حلقوں کی توجہ بھی مبذول کرواتے رہے ۔بدقسمتی سے اِدھر وزیر اعظم نے روس میں قدم رکھا اور اُدھر یوکرین پر روس نے یلغار کردی ۔

عمران خان نے محسوس کیا کہ ہنگامی صورتحال کے باوجود روس نے پاکستان کو حیثیت اور اہمیت دی اور پیشکش کی کہ وہ روس سے رعایتی نرخوں پر پٹرول اور گندم خریدسکتا ہے اور طے پایا کہ جلد ہی سفارتی سطح پر معاہدے کے لئے ضروری کارروائی ہو گی ۔روس سے واپسی پر تحریک عدم اعتماد کا موسم شروع ہو چکا تھااور طاقتوروں کے تیور سے اندازہ ہو گیا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے ۔پاکستان کے مفاد میں کیا تھا اس پر سیاست اور جمہوریت خاموش رہی اس ساری صورتحال کا نقشہ بنانے والی شخصیت سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری تھے جو پہلے بھی امریکہ کی اشیرباد کےبعد ہی صدر پاکستان بنے تھے اور امریکہ نے ان کو مکمل تحفظ دے رکھا تھا۔

عمران خان نے مداخلت کے لئے رابطہ بھی کیا اور جن پر بہت اعتماد تھا ان کو بھی صورتحال بتائی مگر وہ سب امریکہ کی وجہ سے مجبور تھے اور عمران کی رخصتی امریکی مفادات کی وجہ سے ضروری تھی ۔آصف علی زرداری نےجو سیاسی کھیل ترتیب دیا تھا اس سے شروع میں نواز شریف متفق نہ تھے پھر ان پر واضح کیا گیا کہ آپ کے پاکستان سے باہر آنے کا معاملہ طاقتوروں اور امریکی دبائو کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔اس لئے اب آصف علی زرداری شریک سفر ہی نہیں بلکہ اس کھیل کےسرخیل بھی ہیں۔ دوسری طرف چوہدری نثار نے سابق وزیراعلیٰپنجاب شہباز سپیڈ کو خبردار کیا مگر وزیر اعظم بننے کا بھوت اتر نہ سکا ۔وہ وزیر اعظم بن گئےتو پتہ چلاکہ بھوت بے بسی کا تھا ملک میں معاشی بھونچال آگیا۔ تیل کی قیمت نے عوام کو ایسابدحال اور مایوس کیا کہ حکومت ناکام ہوتی نظر آئی ۔

اب صورتحال یہ ہےمخلوط اور مجبور سرکار نے 2023-2022کا خسارے کے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس سے عوام کو بہت ہی مایوسی ہو رہی ہے۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ اگلے سال تک حکومت چلانے کا بھاشن دے رہی ہے جبکہ حالات ایسے ہیں ملک کے مسائل کا واحد حل فوری انتخابات ہیںلیکن ان کی خواہش ہےکہ عمران خان کو کسی بھی قیمت پر قانون کی جکڑ میں لاکر بے بس کر دیا جائے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ سرگرم وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور مریم نواز ہیں ایک اور فریق ،جو بظاہر غیر جانبدار ہے، بھی عمران سے مطمئن نہیں اوراسے پابند سلاسل کرنے کا سوچ رہا ہے۔

مہنگائی کےعفریت نے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ہے لوگوں کی قوت خرید میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اس معاملہ میں افواج پاکستان کے افراد بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نوکر شاہی کے ملازموں نے’’ حق خدمت ‘‘ دوگنا کر دیا ہے ۔وکیل صاحبان نے کچھ ایسی روش اختیار کی ہے۔ مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہا ہے گھروں کے کرائے بڑھ گئے ہیں، نجی اسکولوں نے فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے،عام آدمی کے اخراجات میں اضافہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری طرف مالدار لوگوں کی تعداد میں اضافہ نظر آ رہا ہے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ بینکوں کے منافع میں اضافہ معاشی ترقی کے برعکس ہے۔

مجھے نہیں معلوم مخلوط اور مخدوش سرکار کس بنیاد پر اتنی مہنگائی کے باوجود عوام کوبہتری کی امید دلاتی ہے، ملکی قرضے پہاڑ بن کر معیشت کی راہ میں حائل ہیں اور عام حالات میں ممکن نظر نہیں آتا کہ قرضوں کو اتارا جا سکے اور سرکار کا ہی کہناہے کہ اس مشکل صورتحال میں پاکستان کا حال سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے۔ سرکار کی طرف سے البتہ شنید ہے چین اپنے قرضے واپس مانگ رہا ہے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ میں قرضوں کی رقم کو صرفِ نظر کیا ایسے میں اس سرکار پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت قومی سرکار کی ضرورت ہے اگر اس پر عمران خان تیار ہو جائے ورنہ عمران خان کو روکنا بہت بڑا امتحان بن جائے گا ۔سوال یہ ہے کہ انتظامیہ کس طرف دیکھ رہی ہے۔؟

تازہ ترین