• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دولت کی دوڑ میں کوئی پاکستان کابھی سوچ رہا ہے۔ یہ سوال سب سے اہم ہے کیونکہ پچھلے چالیس برسوں میں اشرافیہ نے دولت کی اندھی پوجا ایسے شروع کی کہ پورا نظام اس کا حصہ بن گیا۔ حکمرانوں نے ایسا کھیل شروع کیا کہ رفتہ رفتہ تمام شعبے اس گھنائونے کھیل کا حصہ بن گئے۔ معاشرے کے ہرطبقے میں دولت کے حصول کو اولیت حاصل ہوگئی۔ حرام حلال کی تمیز کئے بغیر لوگوں نے پیسہ اکٹھا کرنا ہی پہلا فرض سمجھ لیا۔ اس تماشے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ سرکاری و نیم سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے عہدوں کا لحاظ کئے بغیر دولت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ اس کھیل میں وہ بھی اپنے فرائض بھول گئے۔

چالیس برسوں سے دھرتی یہ کھیل دیکھ رہی ہے کہ عوام کے نام پر ووٹ لے کر آنے والے کس طرح عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں چالیس برس پہلے ایک عام پاکستانی کی زندگی جتنی آسان تھی آج اس سے کئی درجے مشکل ہے بلکہ بعض نئے اقدامات سے تو بہت بڑا طبقہ موت کی جھولی میں جا گرا ہے۔ ہمارے اہل سیاست ایک تسلسل سے جھوٹ بول رہے ہیں جس معاشرے میں رہنما جھوٹ بولیں وہاں ان کے پیروکار کیا کریں گے؟جس دھرتی پر منشیات کا پورا نظام عوامی سیاست کرنے والے چلا رہے ہوں وہاں کی نسلیں کیا کریں گی؟ جس دھرتی پر قبضہ گروپوں کا راج ہو، اس دھرتی میں خوشحالی کا چھن جانا یقینی ہو جاتا ہے۔

چالیس پچاس برس پہلے رشوت لینا جرم تھا، معاشرہ اسے برا فعل سمجھتا تھا، کرپشن بری تھی، لوگ اسے برا سمجھتے تھے، مگر پھر پاکستانی اشرافیہ نے یہ زہر پورے معاشرے میں گھول دیا۔ اب یہ زہر معاشرے کے پورے جسم میں سرایت کر گیا ہے۔ پتہ نہیں اب بائیس کروڑ لوگوں میں سے کوئی بائیس سو افراد بھی دیانتدار بچے ہیں یا نہیں کیونکہ خیانت تو پھل فروشوں میں بھی آ چکی ہے۔ اگر احادیث کے آئینے میں دیکھوں تو پتہ نہیں کتنے لوگوں کا ایمان سلامت ہے بھی کہ نہیں کیونکہ ملاوٹ کرنے والا تو ہم سے نہیں، پھر دھرتی سے بے وفائی کرنے والوں کا ایمان بھی نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں جن لوگوں نے یہ ملک بنایا تھا، جنہوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا تھا وہ اپنی قبروں میں کیا سوچ رہے ہوں گے، پھر جن شہیدوں نے اس دھرتی کی حفاظت کے لئے جانیں دی تھیں وہ موجودہ مناظر دیکھ کر کیا سوچ رہے ہوں گے۔ ان کی روحیں پتہ نہیں اپنی دھرتی پر کتنا رو رہی ہوں گی اور جو لوگ اس وقت دھرتی کے حاکم یا رکھوالے ہیں موجودہ حالات میں ان کے ضمیر پتہ نہیں ان سے کیا کیا سوالات کر رہے ہوں گے، مجھے اس کی بالکل خبر نہیں مگر جو تخت بھوک، افلاس اور خود کشیوں کو جنم دے رہا ہو مجھے اس پر رونا آتا ہے، جب لوگ مر رہے ہیں تو میں خاموش کیسے رہ سکتا ہوں، دل میں مدینے کی تڑپ ہو تو کوفے کا لباس کیسے پہنا جا سکتا ہے۔ جب خدا کو جواب دینا ہے تو چپ کیسے رہا جا سکتا ہے۔ کوفے والوں کا یہی تو جرم تھا کہ وہ ظلم دیکھ کر بھی خاموش رہے تھے، سو میں ظالمانہ نظام کے تمام ترجمانوں کی کارستانیوں پر کیسے خاموش رہ سکتا ہوں کہ میری تو زیست ہی راہ حسینؓ کے ایک مسافر کی طرح ہے۔ اگر کوئی حاکم وقت محض اقتدار کی ہوس میں اپنے عوام کی اکثریت کو غربت کی جھولی میں ڈال دے تو اس پر کیسے خاموش رہا جا سکتا ہے۔

موجودہ حالات کے نوحے کی ابتدا ابھی تو صرف چالیس پچاس برسوں سے کی ہے کیونکہ ان ہی برسوں میں لوٹ مار کے زیادہ قصے سامنے آئے کچھ لوگ نظام کا حصہ بن کر غربت سے کھربوں تک کا سفر کرتے نظر آئے۔ ان چالیس پچاس برسوں میں پاکستان کے نام پر قرضے لئے گئے پھر بانٹے گئے، ہڑپ کئے گئے اور بہت سے قرضے حاکموں نے اپنے حواریوں کے معاف کر دیئے۔ بدقسمتی سے قرضے ہڑپ کرنے والوں کی جائیدادیں بیرونی دنیا میں بن گئیں، ان کی اولادیں وہاں کی شہری بن گئیں، آپ پاکستان کی قسمت پر حیران ہوں گے کہ یہاں کی اشرافیہ کے بچے باہر ہیں، یہاں کے سرکاری و نیم سرکاری افسران کی دوہری شہریتیں ہیں۔ کیا مذاق ہے کہ لوٹ مار یہاں کرو اور پھر مزے باہر کرو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لوگ دھرتی کے وفادار ہیں؟ عجیب اتفاق ہے کہ جن کے نام پر قرضے لئے گئے ان پر خرچ نہ ہوسکے ان کے بچوں پر قرض اتارنا واجب کر دیا گیا یعنی جنہوں نے لوٹا وہ قرضے نہیں اتاریں گے اور اس دھرتی کے غریب قرض ادا کریں گے۔

بے شمار مثالوں میں سے صرف دو مثالیں پیش کر رہا ہوں کہ انگریز یہاں چودہ ہزار کلومیٹر ریل کی پٹری چھوڑ کرگیا تھا، جو آج ہمارے پاس نو ہزار کلومیٹر ہے، پانچ ہزار کلو میٹر ریل کا لوہا پتہ نہیں کون کھا گیا؟ اسی طرح جی ٹی ایس ہوتی تھی، ہر شہر کے مرکز میں اس کے اڈے ہوتے تھے، پتہ نہیں وہ بسیں کون کھا گیا، وہ اڈے کون ہڑپ کرگیا۔ قصہ چالیس پچاس برس کا ہے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ پورے نظام کی اوورہالنگ کے بغیر چارہ نہیں اور چارہ گروں کی خدمت میں صرف یہ شعر پیش کر رہا ہوں کہ ؎

تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر

اتنے نہ در بنائو کہ دیوار گر پڑے

تازہ ترین