• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی والوں کے لیے اٹّھائیس جون کا دن ایک بہت اچھی خبر لے کر آیا تھا۔اس روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہرِ قائد کے لیے پیپلز بس سروس منصوبے کا افتتاح کیا۔ یوں سندھ حکومت بالآخر چودہ برس بعد کراچی کے شہریوں کے لیے بسیں چلانے میں کام یاب ہوگئی۔ صوبائی حکومت کے منصوبے کے تحت کراچی میں سات مختلف روٹس پر کْل 240 بسیں چلائی جائیں گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ماڈل کالونی،ملیر، سے ٹاور کے لیے بس چلا کر منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے اس موقعے پر ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کا یہ سفر اب رکنے والا نہیں۔ منصوبے کا پہلا رُوٹ یعنی ماڈل کالونی،ملیر سے بہ راستہ، شارع فیصل، میٹروپول، آئی آئی چندریگر روڈ، ٹاور تک اُنتیس کلو میٹر پر مشتمل ہوگا اور اس پر صبح سات سے رات کے بارہ بجے تک تیس بسیں چلائی جائیں گی۔ پیپلز بس سروس کا کرایہ زیادہ سے زیادہ پچاس روپے تک ہوگا۔ 

شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے شمالی کراچی سے کورنگی تک کے لیے بس سروس شروع کردی جائے گی اور چودہ اگست سے قبل شہر کے تمام ساتوں روٹس پر کْل 240 بسیں سڑکوں پر رواں دواں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے مزید130بسیں کراچی کی بندر گاہ پر پہنچ جائیں گی۔تادمِ تحریر دوسرے روٹ پر بھی بسیں چل چکی ہیں۔

کراچی کے باسی طویل عرصے سے شہر میں پبلک ٹرا نسپورٹ کا نظام بہتر ہونے کی توقع پر جیے جارہے ہیں۔ جب بھی اس بارے میں کوئی خبر آتی ہے توان کی اُمّید بند ھتی ہے کہ شاید اب مشکلات کم یا ختم ہونے کے دن آنے والے ہیں۔ پاکستان کا یہ سب سے بڑا شہر دہائیوں سے مختلف مسائل کے ضمن میں دھائیاں دے رہا ہے، مگر کوئی انہیں سننے کو تیار نہیں۔ اس خانماں برباد شہر کو دہائیوں سے طرح طرح کے و عد وں اور نعروں کےلولی پوپ دے کر بہلایا اور ٹہلایا جارہا ہے۔ چناں چہ اب اس شہر کے بہت سے مسائل بہت گنجلک اور حساس ہوچکے ہیں جن میں سے ایک پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی ہے۔

بدتر ہوتی صورت حال

کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادی کے وقت اس شہر میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بہتر تھیں۔ مگر پھر عہد بہ عہد مختلف وجوہ کی بناء پر پبلک ٹرانسپورٹ سکڑنے لگی اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آبادی کی اکثریت چنگ چی رکشوں کو اپنے سفر کے دھکوں کا مداوا سمجھنے لگی۔

آزادی سے قبل برصغیر میں کراچی اور کلکتہ میں سب سے پہلے ٹرام وے سروس شروع ہوئی تھی۔ 1950کی د ہائی میں شہر کے ایک بڑے حصے میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرام وے سروس دستیاب تھی اور شہر کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھی۔ پھر جوں جوں شہر پھیلتا گیا اور اس کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، بہت کچھ تیزی سے بدلنے لگا اور دیگر مسائل کےساتھ ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی بڑھنے لگے۔

بسوں کی تعداد کم ہونے کی بناء پر مسافروں کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر حکومتوں نے شہر کی مستقبل کی ضروریات کا اندازہ نہیں لگایا۔ یوں وہ جامع منصوبہ بندی نہیں ہوسکی جو دنیا کے بڑے شہروں لندن، نیو یارک، ٹوکیو وغیرہ میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے کی گئی تھی ۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا۔ یہ شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے ریلوے استعمال کرنے کی پہلی کوشش تھی۔

پیپلز بس سروس اور حقایق

افتتاح کے موقعے پر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ بس میں چوّن نشستیں ہیں اور اس میں وائی فائی کی سہولت موجودہے۔ لیکن ان کے دعویٰ کے برعکس بس میں وائی فائی ڈیوائس تو موجود ہے لیکن وہ کام نہیں کرتا البتہ فون کو چارج کرنے کی سہولت سفر کے دوران دیکھی گئی۔ بس میں کُل اُنتیس نشستیں ہیں جس میں سے خواتین کےلیے دس اور خصوصی افراد کے لیے دو نسشتیں ہیں ۔ بس کو لوکل ٹرانسپورٹ بنا دیا گیا ہے، اسے جگہ جگہ روکا جاتا اور مسافروں کو اوور لوڈ کر لیا جاتا ہے۔

بعض مقامات پر دروازہ کھول کر روایتی انداز میں کنڈیکٹر کو آواز لگاتے بھی دیکھا گیا۔ ٹاور تا ماڈل کالونی سفر کا دورانیہ ایک تا سوا گھنٹے ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ ایک فرد کے مطابق ان بسوں کو چلانے کا ٹھیکہ ایک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کو دیا گیا ہے اور ایک طرف کے سفرکے لیے پانچ ہزار روپے کرایہ وصول کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ایئر کنڈیشنر اچھی طرح کام کررہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی کورونا پھیلنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

سرکاری بس ہونے کے باوجود بس میں لوگوں کو بری طرح بھر کر ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ڈرائیور مخصوص وردی میں ہوتا ہے، لیکن کنڈیکٹر کی صرف ٹی شرٹ مخصوص نظر آئی اور وہ روایتی انداز میں ہر مسافر کے پاس جاکر ٹکٹ وصول کرتا ہے اور عموما مسک کے جھنجھٹ سے آزاد نظر آتا ہے۔ کرایہ پچاس روپے وصول کیا جارہا ہے خواہ آپ کو ایک اسٹاپ کا فاصلہ ہی طے کرنا ہو۔ حالاں کہ وزیر ٹرانسپورٹ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کرایہ 25 سے 50روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 

بسوں کے لیے ماڈل کالونی میں بس ڈپو بنایا گیا ہے اور نہ ہی ٹاور پر بسوں اور مسافروں کے لیے کوئی بس اسٹینڈ بنایا گیا ہے۔ ٹاور پر کچرا کنڈی کے سامنے بسیں کھڑی ہوجاتی ہے جہاں شدید تعفن کی وجہ سے مسافروں،خصوصا خواتین کو بس کے انتظار میں کھڑے ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ابتدائی دوچار ایّام کے بعد اب بسوں کی دست یابی کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔

دروازہ کھولنے کے لیے بس میں مختلف مقامات پر نصب پُش بٹن بند کردیے گئے ہیں، پوچھنے پر کنڈیکٹر نے بتایا کہ ایسا لوگوں کی جانب سے بار بار بٹن دبانے اور گاڑی رکوانے کی کوشش کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ مخصوص بس اسٹا پ نہ ہونے کی وجہ سے بار بار بس رکنے کے سبب سفر سست روی کا شکار رہتا ہے۔ پیپلز بس سروس میں طلباکے لیے رعایتی ٹکٹ کی سہولت موجود نہیں۔

کیسے کیسے منصوبے برباد ہوئے

سرکلر ریلوے وزیر مینشن سے سٹی اسٹیشن کے ذر یعے ایک طرف پپری اسٹیشن تک جاتی تھی۔ دوسری طر ف یہ سائٹ ، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی اور ملیر اور لانڈھی تک پہنچتی تھی۔ پھر شہر میں بڑی بسیں چلتی تھی۔ اندرونِ شہر ٹرام وے سروس موجود تھی ، رکشے، ٹیکسیاں میٹر کے مطابق کرایہ وصول کرتی تھیں۔ 

یعنی اس وقت ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام موجود تھا جسے مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق زیادہ بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر ایک منصوبے کے تحت ٹرام سروس کو ختم کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے پولیس کی مدد سے انتظامیہ کو باور کرایا کہ ٹرام کی پٹری سے سڑک پر چلنے والا ٹریفک متاثر ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور یورپ کے مختلف علاقوں اور مشرقِ بعید کے ممالک میں ٹرام کو بجلی کےجدید نظام پر منتقل کیا جارہا تھا۔ جہاں شہروں میں ٹرام کے لیے سڑکوں پر جگہ نہیں تھی وہاں اسے بالائی گزرگاہوں پر منتقل کیا جارہا تھا۔

ایک زمانے میں لانڈھی ، ملیر ، ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی )،گلشن اقبال، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا وغیرہ سے آنے والے ہزاروں افراد کے لیے صبح کے اوقات میں سرکلر ریلوے سفر کاسب سے موثر ذریعہ تھی۔ عام آدمی سرکلر ریلوے کے ذریعے ملیر سے 30 سے 45 منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتا تھا۔ مگر ریلوے کی بدعنوان مافیا اور کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیا کے گٹھ جوڑ سے ریل گاڑیاں تاخیر سے چلنے لگیں۔ ریلوے کی انتظامیہ نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے مسافروں کی کمی کا جواز بنا کر سرکلر ریلوے کو بند کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے پاس بسوں کا ایک بڑا فلیٹ موجود تھا۔ یہ فلیٹ جامعہ کراچی کے ہزاروں طلبا کی سفری ضروریات بھی پورا کرتا تھا۔ مگر کرپشن اور گڈ گورننس کے بحران نے کے ٹی سی کو تباہ کردیا۔ 

جنرل ضیاء کے دور میں بیورو کریسی نے کے ٹی سی کو خوب لوٹا۔ بھٹو دور میں سوئیڈن سے بڑی، ا یئر کنڈیشنڈ بسوں کا ایک فلیٹ تحفے میں ملا تھا۔ ڈبل ڈیکر بسیں بھی آئی تھیں۔ مگر یہ بسیں کے ٹی سی کے برے حالات کا شکار ہوگئیں اور پبلک ٹرا نسپورٹ کو پرائیوٹ سیکٹر کی مدد سے چلانے کی کوشش کی گئی ۔

پھر یہاں منی بسیں چلیں جن میں نسبتا زیادہ کرایہ لے کر مسافروں کو نشستوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ شوکت عزیز وزیر اعظم بنے تو بینکوں سے لیزنگ پر حاصل کی گئیں بڑ ی اور ایئرکنڈیشنڈ بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ ان بسو ں میں خود کار دروازے تھے اور ان کے رکنے کے لیے اسٹاپ مقرر تھے۔ مگر کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال، ڈیزل اور فاضل پرزہ جات کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پریہ بسیں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔ 

کراچی کے سابق ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے شہر میں بڑی سڑکوں، اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاسز کا جا ل تو بچھایا، مگر پبلک ٹرانسپورٹ ان کی ترجیح نہیں تھی۔ مصطفی کمال کے آخری دور میں شہر کے محدود علاقوں میں گرین بسیں چلی، مگر ان کے عہدے کی میعاد ختم ہونے پر یہ بسیں سٹی گورنمنٹ کی ورکشاپس میں بند ہوگئیں۔

پھر شہر میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہوگئی جنہوں نے شہر کی ٹریفک کا بہت برا حال کردیا تھا۔چناں چہ عدالت نے ان پر پابندی عاید کردی ۔ اب شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ ایساکیوں ہوا۔ لیکن حالیہ برسوں میں بھی اس شہر کے حوالے سے کئی طویل کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔

یہ کیسی خوش خبری تھی؟

ان حالات میں کراچی کے باسیوں کے لیے مالی سا ل 2015۔2016کا بجٹ ایک خوش خبری لے کر آیا تھا۔ اس وقت کےوفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا میزانیہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اب کراچی میں جدید انداز کی گرین لائن بسیں چلیں گی جس کے لیےبجٹ میں سولہ ارب روپے مختص کیےگئے ہیں۔ اس مقصد سے بائیس کلومیٹر طویل کوریڈور بنایا جائے گا اور یہ منصوبہ آئندہ برس کے آخر میں مکمل ہوجائے گا۔

لیکن اسے کیا کہیں کہ تین عشروں سے بد امنی کے شکار اس شہر کے باسی اب چھاچھ بھی پھو نک پھونک کر پیتے ہیں۔ چناں چہ انہیں یہ خوش خبری ہضم نہیں ہوئی تھی کیوں کہ یہاں کے باسیوں کو ہر دور میں طرح طرح کے خواب دکھائے گئے ،مگر ان خوابوں کی تعبیر دیکھنے کی آرزو دل میں لیے شہر کے بہت سے باسی قبر میں اتر گئے۔

ماضی کے کئی منصوبوں کی طرح گرین لائن بس کے منصوبے کے بارے میں بھی کئی برس قبل سےباتیں سنائی دے رہی تھیں۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بس کے منصوبے تیز رفتارسے مکمل نہ ہوتے تو کراچی میں’’ٹوٹل سیاپا‘‘ ہی رہتا۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے ایک جانب بہت بری کارکردگی کی تاریخ رکھنے والی سندھ کی حکومت پر کارکردگی دکھانے کے لیے دباو پڑا تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کو کراچی والوں کی ہم دردی حاصل کرنے اور وفاقی حکو مت کو صرف ایک صوبے کی حکومت ہونے کا الزام دھونے کا موقع ملا تھا۔

اس وقت اطلاعات تھیں کہ کرا چی گرین لائن منصوبے کا ٹریک 24.5کلومیٹر طویل ہو گا جو سرجانی سے کراچی سٹی سینٹر، ٹاورپر مشتمل ہوگا۔ یوں کراچی میں بھی ریپیڈ بس سروس ٹریک پر جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلنے لگیں گی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ گر ین لائن بس پروجیکٹ 18ماہ میں مکمل ہوجائے گا اور تقر یباََ 4 لاکھ افراد روزانہ ایک باوقار جدید ٹرانسپورٹ سے استفادہ کر سکیں گے۔ مگر یہ وعدہ بہت تاخیر سے کچھ عرصہ قبل ہی وفا ہوا ہے۔

منصوبے، وعدے اور دعوے

مئی2012 میں خبر آئی تھی کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی شہریوں کے لئے بہتر سفری سہولتوں کی فراہمی کی غرض سے جائیکا کے تعاون سے کراچی ٹرانسپورٹیشن امپروومنٹ پروجیکٹ کے تحت دو کو ریڈورز پر بس ریپڈ سسٹم کے منصوبے پر غور کررہی ہے اور اسے قابلِ عمل بنانے کے لئے جائیکا کی سروے رپورٹ پر اسٹڈی مکمل ہوچکی ہے۔ یہ بات سابق ڈائریکٹر جنرل ماس ٹرانزٹ سیل، رشید مغل نے مقامی ہوٹل میں منعقدہ کراچی ٹرانسپورٹیشن امپروومنٹ پروجیکٹ کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2030ء کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے شہرمیں آبادی کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوجائے گا۔

مسائل حل کرنے کرنے کے لیے بس ریپڈ سسٹم کراچی کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں دو کوریڈورزپر بس ریپڈ سسٹم بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس میں اکّیس کلو میٹر طویل گرین لائن کوریڈور سرجانی تا جامع کلاتھ بہ راستہ ناظم آباد، گولی مار، بزنس ریکارڈر روڈسے گرومندر تک اور دوسرا 24.4 کلومیٹر طویل ریڈ لائن کوریڈور ماڈل کالونی سے ریگل چوک بہ راستہ صفورہ گوٹھ، یونیورسٹی روڈ، مزار قائد، لائنز ایریا کار پارکنگ سے ریگل چوک پر ایلی ویٹیڈ کوریڈور تعمیر کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ 

جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے علاوہ دو عدد ریلوے بیس سسٹم اور چھ بس ریپڈ سسٹم کی اسٹڈی رپورٹ پیش کی ہے جس پر غور کیا جارہا ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی متعلقہ اداروں کے تعاون سے تیسرے کوریڈور پر، جو کورنگی سے صدر تک بنایا جائے گا، اپنی تیکنیکی رپورٹ مقامی طور پر بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ منصوبہ بندی وقت کی ضرورت ہے اور جائیکا کی رپورٹ بس ریپڈ سسٹم کے لئے بہت جامع ہے۔

اگست 2013کا اجلاس

یہ اگست 2013 کی بات ہے جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سیدکی صدارت میں بس ریپڈ سسٹم کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں محمد حسین سید کا کہنا تھا کہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کراچی کی اہم ترین ضرورت ہے جس پر جلد از جلد عمل درآمد کے ذریعے شہر میں ٹریفک کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے داؤد چورنگی، لانڈھی تا نمائش چورنگی اور لکی اسٹار’’یلو لائن‘‘ پر بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں روزانہ7 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ 

اس مجوزہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کی تکمیل پر فی گھنٹہ ایک سمت میں 13 ہزار مسافروں کو سفر کی سہولت میسر آئے گی۔ قبل ازیں سیکریٹری فنانس حکومت سندھ کی صدارت میں منعقدہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں داؤد چورنگی سے نمائش چورنگی اور لکی اسٹار بہ راستہ کورنگی 8000 روڈ اور ایف ٹی سی ”یلو لائن“ کے نام سے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد کے لئے اچھی شہرت کی حامل تجربہ کا ر فرمز اور کنسورشیم سے اظہار دل چسپی (EOI) طلب کرنے کے لئے اشتہار شایع کرانے کی منظوری دی گئی تھی جس کے ذریعے پراجیکٹ میں دل چسپی رکھنے والی فرمز سے’’یلو لائن‘‘ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے حوالے سے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی جانی تھی ۔اس رپورٹ میں تمام تیکنیکی، مالیاتی، قانونی اور ماحولیاتی پہلوؤں کے ساتھ بی آر ٹی ایس کے لیے ٹرانزیکشن ایڈوائزری سروسز کا بھی احاطہ کیا جانا تھا۔

اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ جائیکا نے کراچی شہر میں 2030ء تک کی ضروریات کے پیش نظر ایک ماس ٹرانزٹ نیٹ ورک تیار کیا ہے جس میں دو میٹرو سسٹم لائنز اور چھ بس ریپڈ ٹرانزٹ لائنز کی تجویز دی ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے پروگرام کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ جائیکا نے دو بس ریپڈٹرانزٹ سسٹم لائنز کے لئے فزیبلٹی اسٹڈی تیار کرلی ہے۔ 

سہراب گوٹھ تا ٹاور بلیو لائن کی پری فزیبلٹی کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔ اس موقعے پر بتایا گیا تھا کہ بی آر ٹی ایس’’یلو لائن‘‘بائیس کلو میٹر طویل ہے۔اجلاس کے دوران اس وقت کے ڈی جی ماس ٹرانزٹ سیل رشید مغل نے اپنی پریزنٹیشن میں کراچی میں سڑکوں کے انفرا اسٹرکچر اور سفری ضروریات کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا اور بس ٹرانزٹ سسٹم کے لئے جائیکا کی اسٹڈی میں دی گئیں تجاویز اور پراجیکٹ کی تخمینی لاگت کے متعلق بتایا تھا۔ 

انہوں نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کی نمایاں خصوصیات بہ شمول انفرااسٹرکچر کے حوالے سے سگنل ترجیحات، خودکار ٹکٹنگ سسٹم، بس انفارمیشن اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے متعلق تفصیلات سے بھی آگاہ کیا تھا۔ اس موقعے پر اسٹینڈنگ کمیٹی نے آر ایف کیو دستاویز کے جائزے کے لیے ڈی جی کراچی ماس ٹرانزٹ سیل کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

دو سو بسیں چلانے کا حکم

یہ11 اکتوبر2013 کی بات ہے جب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بورڈ کے اراکین کو کراچی کے شہریوں کو سستی، معیاری اور پرآسائش ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی غرض سے شہر کے مختلف راستوں پر 200 بسیں چلانے کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ اس روز چیف منسٹر ہاؤس میں پی پی پی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔

اجلاس میں تفصیلی بحث مباحثے کے بعد ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں چار منصوبے شروع کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گرین سی این جی بس اور ڈیزل بس پروجیکٹ شامل تھے۔ دونوں منصوبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت شروع کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منصوبے کے تحت کراچی کے مختلف روٹس پر 73سی این جی بسیں اور 55ڈیزل بسیں چلائی جانی تھیں۔

اس منصوبے کے تحت کے ایم سی کے پاس موجود 73بسوں کی مرمت پر 40ملین روپے خرچ کیے جانے تھے جس کے بعد یہ بسیں ٹینڈر کے ذریعے پرائیویٹ پارٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز حکومتی سبسڈی کے بغیر کم سے کم کرایہ وصول کریں گے۔ یہ بسیں ضلع وسطی اور شارع فیصل کے دو روٹس پر چلائی جانی تھیں۔ اجلاس میں کہا گیا تھا کہ ان بسوں کو 6دن سی این جی مہیا کرنے کے لیے اوگرا کی اجازت سے علیحدہ سی این جی اسٹیشن قائم کیا جائے گا۔

اجلاس میں 50نئی ڈیزل بسیں خریدنے کا بھی فیصلہ بھی کیا گیا تھا جنہیں کینٹ سے ٹاور تک چلنا تھا۔ وزیراعلیٰ نے ان منصوبوں کو جاری مالی سال کے اختتام تک مکمل کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ لوگوں کو سہولتیں دی جاسکیں۔ اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ یلو لائن منصوبہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی بہتری کےلیے بس ریپڈٹرانسپورٹ کوریڈور کے منصوبوں کا حصہ ہے جس کی اسٹڈی جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا)اور کراچی ماس ٹرانزٹ سیل اور کے ایم سی کے اشتراک سے 2010-12میں کی گئی تھی۔

جولائی 2014کا اعلان

اس کے بعد جولائی 2014کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم کراچی کے دورے پر آئے تو ان کاکہنا تھا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا بہ خوبی اندازہ ہے۔ وفاقی حکومت خود پندرہ ارب روپے کی لاگت سے گرین لائن بس پراجیکٹ مکمل کرے گی۔ گورنر ہاوس کراچی میں وزیراعظم کی سربراہی میں سیاسی رہنماوں، تاجروں اور صنعت کاروں کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں شرکاء کو بتایا گیا تھاکہ گرین لائن بس سروس منصوبہ وفاقی حکومت خود بناکر دے گی اور منصوبے کی مانیٹرنگ بھی کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے لاہور میٹرو بس پر کام ہوا ،اسی تیزی سے کراچی میں ہوگا۔ منصوبہ فوری طور پر شروع کرنے کیلئے وفاق پندرہ ارب روپے دے گا۔ سندھ اور شہری حکومت کی جانب سے حصہ نہ ڈالا گیا تو باقی رقم بھی وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔

اس کے چند یوم بعد سندھ کے وزیرِ اعلی قائم علی شاہ بھی جاگ اٹھے اور اعلان کیا کہ وفاق نے کراچی میں گرین لائن بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، ہم شہر میں یلو لائن بس چلائیں گے۔ سندھ اسمبلی میں دیے جانے والے افطار ڈنر کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت فراہم کرنا ہے۔

یہ مراحل طے ہونے کے بعد نومبر 2014 میں وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیرصدارت سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں کراچی کے لیے گرین لائن بس سروس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ 

اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے پر 15 ارب 38 کروڑ روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ مکمل ہونے سے یومیہ چار لاکھ مسافروں کو فائدہ ہوگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس منصوبے کے لیے اکّیس کلومیٹر دو رویہ سگنل فری سڑک تعمیر کی جائے گی۔

جون 2015کا فیصلہ

پھر پانچ جون 2015 کو حکومت سندھ نے کراچی کے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اگست سےگرین لائن بس منصوبے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ وفاقی حکومت کی مالی معاونت سے مکمل کیا جائے گا۔ 20 کلومیٹر طویل گرین لائن بس روٹ پر100 جدید بسیں چلائی جائیں گی۔ منصوبے کے لیے سرجانی بس ڈپو کی زمین حاصل کی جائے گی۔ 

گرین لائن بس منصوبہ گرومندر پر اورنج لائن پراجیکٹ سے منسلک ہوگا۔ گرین لائن منصوبے کے لیے بجلی کی ہائی ٹیشن لائنزکی منتقلی اور دیگر رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ اسی دوران وفاقی حکومت نےبس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم منصوبے کے لیے صالح فاروقی کو پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

یہ بسیں 2016 میں چلنا شروع ہوئیں اور گزشتہ برس بند ہوگئیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کراچی میں وفاق کی جانب سے کوئی بڑا منصوبہ شروع ہوا اور نہ پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر فنڈ جاری کیے گئے۔

جائیکا کی رپورٹ

اب آئیے دوسری طرف۔ جائیکا نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان 2030 مکمل کرکے اس بارے میں حتمی رپورٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں مئی 2013 میں جمع کرادی تھی۔ جاپان کے ماہرین نے کے ایم سی کے کراچی ماس ٹرانزٹ سیل کے اشتراک سے 2سال میں یہ کام مکمل کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے370.81 ملین روپے مختص کیے تھےجس میں سے 356.1 ملین روپے جاپان کی حکومت نے گرانٹ کی شکل میں دی تھی۔ باقی 14.7 ملین روپے سندھ حکومت اور کے ایم سی نے مساوی طور پر فراہم کیے تھے۔ لیکن یہ ضخیم رپورٹ آج تک بس فائلز میں محفوظ ہے۔

یہاں یہ تحقیق پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین نہ صرف سرکاری منصوبوں کی حقیقت سے سے آگاہ ہوسکیں بلکہ یہ بھی سمجھ سکیں کہ پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص سرکاری منصوبے کس طرح بنتے اور کتنی سست روی سے آگے بڑھتے یا پھر کاغذوں ہی میں دفن ہوجاتے ہیں۔