ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ بند ہوتےہی عالمی اور خِطّوں کی سطح پر بہت سےنئے سوالات نے جنم لیا ہے، حالات و واقعات نے نئی کروٹیں لی ہیں اور بہت سے مثبت اور منفی رجحانات اور امکانات سامنے آئے ہیں۔
آج دنیا بھر میں طاقت، ٹیکنالوجی اور دولت کے بل بوتے پر اپنی بات منوانے اور حکم سے سرتابی کرنے والوں کو کڑی سزا دینےکے اصول پر گھناونی سیاست کا کھیل جاری ہے۔لیکن کون جانے کہ یہ کھیل کب پلٹ جائے۔بس اسی اُمّید و بیم کی کیفیت میں مثبت اور منفی سوچ کے حامل افراد اپنی سی سعی کیے جارہے ہیں۔
اسرائیل کا ایران پر حملہ ایسی سوچی سمجھی ،سیاسی اور عسکری چال تھی جس میں بہت سے اہداف پوشیدہ تھے۔ لیکن اس ضمن میں یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، رہے گا اور سب سے زیادہ پوچھا گیا ہے کہ کیا اسرائیل نے یہ فیصلہ اکیلے کیا تھا اور کیا وہ اکیلے ایسا فیصلہ کرنے کی ہمت، طاقت اور صلاحیت رکھتاہے؟
دراصل اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی یہ جارحیت خود امریکی دانش کا بھی امتحان تھا اور ہے۔ کیوں کہ اسرائیل نے امریکا اور ایران کے جوہری مذاکرات کو کام یابی سے پٹری سے اتار دیا، امریکا کو اس جنگ میں گھسیٹا اوروہ ایران کی حکومت اور ریاست کو تباہ و برباد کرنا چاہتا تھا۔
ایسے میں امریکی مقتدرہ کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا امریکا کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر تھوپی جانے والی جنگ میں اسرائیل کی خواہش پر شامل ہو کر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور تباہی کی لا متناہی داستان رقم کرنے والوں میں شامل ہوجانا چاہیے، کیا امریکی عوام اس کی اجازت دیں گے، کیا وہ اپنے محاصل اس جنگ میں جھونکنے کی اجازت ٹرمپ کو دیں گے، کیا ٹرمپ جنگیں ختم کرانے کے اپنے بیانیے سے یو ٹرن لے لیں گے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو اس سے امریکی ریاست، عوام، امریکا کی سیاست اور ٹرمپ کی سیاسی جماعت کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
نظریات اور استقامت کی جنگ
ایران کے حیران کن رد عمل،جرات اور حکمت عملی اور عالمی حالات و واقعات نے اس تنازعے میں اسرائیل اور امریکاکا خوب امتحان لیا۔ ایران کا امتحان سب سے کڑا تھا، لیکن وہ اپنی جرات، استقامت اور حکمت عملی کے سبب خود کو بچانے میں کام یاب رہا۔
اگرچہ اس نے اپنی ’’جراتِ رندانہ ‘‘کی بھاری قیمت اداکی ،لیکن سر نہیں جھکایا اور اس سےجوبن پڑا اس نے کیا۔ ایران پر اسرائیلی جارحیت شروع ہونے اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا سنجیدگی سے اور جزئیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بعد کے دنوں میں صہیونی حملوں کی شدت اور افادیت وہ نہیں رہی تھی جوپہلے روز دیکھنے کو ملی تھی۔
ابتدائی حملے میں جب دوسوسے زائد جنگی طیاروںنےتہران سمیت ایران کےمختلف حساس مقامات کو نشانہ بنایا تو بہ ظاہریہ ایک طوفانی حملہ دکھائی دیا، لیکن جلد ہی دو اہم عوامل نے صورت حال کا رخ بدل دیا:
ایران کا فوری، مؤثر اور حیران کن جوابی حملہ۔
ایرانی فضائی دفاعی نظام کی فوری بحالی اور فعال کارکردگی۔
بتایا جاتا ہے کہ ایران کا فضائی دفاعی نظام سترہ مختلف تہوں پر مشتمل ہے، جو دنیا کے چند انتہائی پے چیدہ اور ہمہ جہت نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ یہی نظام چند ماہ قبل کے صہیونی حملے میں دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تھا اور حالیہ تصادم میں ایک بار پھر اس کی صلاحیت نے دشمن کو ششدر کر دیا ہے۔ خاص طور پر موبائل یونٹس، ریڈارز اورسیٹلائٹ معاونت نے اسے اور مؤثر بنا دیا ہے۔
پھر صہیونی حملے کے بعد ایرانی معاشرے میں جو یک جہتی پیدا ہوئی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی ، حتیٰ کہ ماضی کے سیاسی قیدیوں نے بھی حکومت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیل کا گمان یہ تھا کہ یہ حملہ داخلی خلفشار اور عوامی اضطراب کو جنم دے گا، لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی اور ایران میں رجیم چینج کا خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جو ابتدائی حملہ کیا وہ دراصل فیصلہ کن ضرب کے طور پر سوچا گیا تھا، جس کے بعد ایران کو شام کی طرح آہستہ آہستہ غیر مسلح کیا جانا تھا۔ لیکن ایران نے جوابی کارروائی میں ایسی حکمت، عزم، اور ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا کہ دنیا کے عسکری ماہرین حیرت زدہ رہ گئے۔
اگرچہ اسرائیل نےاعلیٰ ایرانی عسکری قیادت کو ابتدا میں نشانہ بنایا، لیکن ایرانی نظام کی فیصلہ سازی، تیزی اوریک جہتی نے اس خلاء کو فوراً پر کر دیا۔ پھر یہ کہ صہیونی دفاعی نظام دنیا کا منہگا ترین نظام ہے، لیکن ایرانی میزائل اسے مکمل طور پر نظرانداز کر کے اپنے اہداف کو کام یابی سے نشانہ بناتے رہے۔ یہاں تک کہ صہیونی حکام کو عوام کو خبردار کرنا پڑا کہ ہمارا دفاعی نظام ناقابل تسخیر نہیں، اپنی جان کی حفاظت خود کریں۔یہ بیان اس نظام کی عملی ناکامی کا اعتراف تھا۔
اسرائیل کے آپریشن رائزنگ لائن کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر میزائلوں کی بوچھاڑکی۔ ایران کے ہائی ٹیک جوابی حملے نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام میں شگاف ڈال دیے۔ تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں تباہی کے مناظر نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے دفاعی نظام، خاص طور پر آئرن ڈوم، پر سوالات اُٹھا دیے ہیں۔
ان حالات میں امریکا نے کہاکہ وہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گا، بعض دیگر اہم مغربی ممالک کی بھی اسے حمایت اور مدد حاصل رہی، لیکن اس سب کے باوجود، ایران کی اسٹریٹیجک حکمت عملی، قیادت کے اتحاد اور عوام کی مزاحمتی روح نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر الٹا دباؤ ڈالا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صرف میدانِ جنگ کی لڑائی نہیں تھی، بلکہ ارادوں، نظریات اور نظاموں کی جنگ بھی تھی۔
جنگ بندی یا نئی بساط؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روز تک جاری رہنے والی تباہ کن جنگ بالآخر غیر روایتی اور حیران کن انداز میں ختم ہوگئی۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا ایک بڑے علاقائی تصادم کے دہانے پر کھڑی تھی، جنگ بندی کا اعلان اقوام متحدہ یا کسی عالمی سفارتی تنظیم کی طرف سے نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے سامنے آیا۔ اس سے قبل امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات پر دنیا کے سب سے بڑے بموں اور ٹوماہاک میزائلز سے حملہ کرکے انہیں تباہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔
اس حملے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہ گزشتہ روز ایک شان دار فوجی کام یابی حاصل ہوئی۔ اس کام یابی میں بم کو ایران کے ہاتھ سے چھین لیا گیا۔ امریکی صدرنے سوشل میڈیا پر بیان میں مزید کہا کہ ایران میں ہر موقعے پر امریکا مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے ہزاروں امریکیوں کو قتل یا زخمی کیا ہے، کارٹر دورِ حکومت میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ بھی کیا گیا، گزشتہ روز ہم نے ایک شان دار فوجی کامیابی حاصل کی۔
ٹرمپ کا کہنا تھاکہ اس کام یابی میں بم کو ایران کے ہاتھ سے چھین لیا، اگر انہیں موقع ملتا تو وہ یہ بم ضرور استعمال کرتے۔ گزشتہ روز کے حملے میں امریکی فوج نے بہادری اور ذہانت کا استعمال کیا۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کے حملے میں امریکی فوج نے ایک مکمل اور فیصلہ کُن فتح حاصل کی، ہماری ناقابلِ یقین فوج کا شکریہ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے کل رات حیرت انگیز کام کیا، یہ واقعی خاص تھا، انہوں نے کہا کہ امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں۔
ایران پر دہائیوں سے نظر
ابھی اسرائیل اور ایران کی جنگ جاری تھی کہ سترہ جون کو برطانوی نژاد ایرانی صحافی اور سی این این کی میزبان کرسٹین امان پور نے کہا کہ دہائیوں سے نیتن یاہو ایران پر حملہ کرنا چاہتے تھے، انہیں ڈپلومیسی پر کبھی یقین نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے علاوہ کسی صدر نے اسرائیل کو ایران پر حملوں کی اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ان تمام بڑے خارجہ پالیسی معاملات میں ناکام ہوگئے ہیں جنہیں حل کرنے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔
امان پور نے مزید کہاتھا کہ ایران پُراعتماد تھا کہ امریکا سے اتوار کو نیوکلیئر معاملے پر ڈیل ہوجائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ مذاکرات کے لیے ساٹھ دن دیں اور اکسٹھویں روز حملہ کردیا جائے۔ امان پور کا کہنا تھاکہ 2015 میں ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ایک کام یاب سفارت کاری تھی، مگر نیتن یاہو ہمیشہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
حالیہ مذاکرات کے دور میں ایران جوہری معاہدہ کرنا چاہتا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ تمام بڑے فارن پالیسی معاملات میں ناکام ہوچکے ہیں۔ کرسٹین امان پور کا کہنا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہیں ساٹھ دن دیتا ہوں اور اکسٹھویں روز آپ اس پر حملہ کردیتے ہیں، ہر کوئی جانتا ہے مذاکرات مہینوں اور سالوں چلتے ہیں۔
ایران پر بم برسانے کے بعد ٹرمپ کا سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان اور کرسٹین امان پورکا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران کے بارے میں دہائیوں سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ یعنی یہ جنگ اور امریکا کا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ بہت پرانے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ گریٹر اسرائیل کااور امریکاکےلیے مشرقِ وسطی کی تیل کی دولت اور سیاست کو اپنے قابو میں رکھنے کا منصوبہ ہے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ۔اب نیٹو کی بھی سن لیں۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے تیئس جون کوکہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بالکل نہیں بنانے چاہییں اور امریکی حملے عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں تھے۔ نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں پریس بریفنگ کے دوران نیٹو چیف کا کہنا تھاکہ اتحادی ممالک نے بارہا ایران پر جوہری عدم پھیلاؤ کی ذمے داریاں نبھانے پر زور دیا۔
مارک روٹے کے مطابق نیٹو کوبہ براہ راست اور سب سے اہم خطرہ روس سے ہے، یوکرین کے لیے ہماری حمایت مستقل اور غیرمتزلزل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال یوکرین کو35ارب یورو سے زائد کی فوجی امداد فراہم کریں گے، روس کی یوکرین سے جنگ میں ایران کی بہت زیادہ شمولیت ہے۔ یعنی ایران نیٹو کی بھی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔
رواں ماہ کی چوبیس تاریخ کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب ایران کے ساتھ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دفاع میں حمایت اور ایرانی جوہری خطرے کو ختم کرنے میں شرکت پر صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھاکہ ایران کے ساتھ جنگ کے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں۔انہوں نے یہ تک کہا کہ اسرائیل کو آج تک وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے بہتر کوئی دوست نہیں ملا۔
دوست، حمایت اور شرکت پر شکریہ ۔یہ کسی اور کے نہیں بلکہ امریکا کے بہت چہیتے ملک کے وزیر اعظم کے الفاظ ہیں اور خفیہ بھی نہیں بلکہ ان کے سرکاری دفتر سے جاری کردہ بیان کے الفاظ ہیں۔
اس کے بعد کہانی مزید آگے بڑھتی ہے اور شطرنج کی بساط پرمزیدنئی چالیں سامنے آتی ہیں۔پچیس جون کو ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران میں فردو جوہری سائٹ تباہ کردی اور فردو جوہری سائٹ پراب تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دی ہیگ میں جاری نیٹو سمٹ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اگر ایران یوریینم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کرے گا تو اس پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں اہم کام یابیاں حاصل کی ہیں جو سب کے لیے اہم ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کو کسی صورت یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب ایران طویل عرصے تک ایٹمی مواد نہیں بناسکے گا اور ایران کے لیے اب جوہری ہتھیار بنانا بہت مشکل ہے۔ صحافی کے سوال پر امریکی صدر نے کہا کہ امریکا نے ایران پر حملہ کرکے جنگ ختم کردی۔
تاریخ کے طالب علم سوال کررہے ہیں کہ یہ کیسی جنگ بندی ہے جس میں پہلے دنیا کے سب سے بڑے بم برسائے گئے اور پھریہ عمل کرنے والے نے جنگ بندی کا سہرا اپنے ہی سر باندھ لیا۔ لیکن پھر تاریخ ہی اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ کیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو بھول گئے ہو؟
کیا تنازع ختم ہوگیا؟
مغرب کی نظریں اب بھی ایران پر مرکوز ہیں۔ لہذا ایرانی جوہری تنصیبات تباہ نہ ہونے کی رپورٹس پر ٹرمپ امریکی میڈیا پر برس پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران میں جن مقامات پر ہم نے حملہ کیا وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور سب کو اس کا علم ہے۔
لیکن امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ابتدائی امریکی انٹیلی جنس جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ہفتے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں سے بنیادی مواد تباہ نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق یہ ابتدائی جائزہ رپورٹ امریکی محکمہ دفاع کی انٹیلی جنس ایجنسی (DIA) نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ امریکی حملوں کے بعد سینٹرل کمان کی طرف سے کیے گئے جنگی نقصان کے تخمینے پر مبنی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ایران پر امریکی حملوں کے نتیجے میں مقامات کو پہنچنے والے نقصان اور ایران کے جوہری عزائم پر ان حملوں کے اثرات کا تجزیہ ابھی جاری ہے اور جیسے جیسے مزید انٹیلی جنس دست یاب ہوگی، نتائج میں تبدیلی ممکن ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ابتدائی نتائج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات سے متضاد ہیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حملوں سے ایران کی جوہری افزودگی کی تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق اس انٹیلی جنس رپورٹ سے واقف دو افرادکا کہنا ہے کہ ایران میں افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو تباہ نہیں کیا جاسکا۔ ان میں سے ایک فرد کے مطابق ایران کے پاس سینٹری فیوجز بڑی حد تک برقرار ہیں تو اندازہ ہے کہ امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام کو زیادہ سے زیادہ صرف چند مہینے پیچھے دھکیلا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی میڈیا پر چلنے والی خبروں کو فیک نیور قرار دیتے ہوئے میڈیا اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں جن مقامات پر ہم نے حملہ کیا، وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور سب کو اس کا علم ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ صرف جعلی خبریں ہی کچھ اور دعویٰ کرتی ہیں تاکہ ہماری کارکردگی کو کمزور ظاہر کر سکیں۔
ایران کا نیا امتحان
حال ہی میں امریکی مندوب برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان جامع امن معاہدہ ہو جائےگا، لیکن مستقبل میں ایران کو یورینیم افزودہ کرنےنہیں دیں گے۔ امریکی میڈیا کے مطابق اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کا مقصد ایران کو یورینیم کی افزودگی سے روکنا تھا۔
امریکی مندوب برائےمشرق وسطیٰ نے مزید کہا کہ مستقبل میں کسی بھی معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کاحق نہیں ملے گا اور ایران کو یورینیم افزودہ نہیں کرنے دیں گے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بیان میں اسٹیو وٹکوف کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ابراہم معاہدے کو وسعت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
اسٹیو وٹکوف کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وٹکوف نے کہا کہ اُمید ہے جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، یہ عمل مشرق وسطیٰ میں توازن لائے گا۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے سفارتی اقدامات کے ذریعے 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے۔
جنگ کی قیمت
اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کے نقصانات دونوں فریقوں کے لیے مختلف درجوں تک بھاری رہے ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل کو روزانہ سیکڑوں ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے کیوںکہ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹرسیپٹر میزائلوں کی لاگت بہت زیادہ ہے۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ لاگت یومیہ 200 ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک سینئر محقق یہوشوا کالسکی کے مطابق ڈیوڈز سلنگ سسٹم جو مختصر اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو مار گراتا ہے کو ایک مرتبہ ایکٹیویٹ کرنے کی لاگت تقریبا 7 لاکھ ڈالر ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق کالسکی نے کہا ہے کہ ایرو تھری سسٹم ایک اور نظام ہے جو محاذ آرائی کے دوران طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی لاگت تقریباً 4 ملین ڈالر فی مداخلت ہے۔ ’’ ایرو ٹو ‘‘ سسٹم کی لاگت تقریباً تین ملین ڈالر فی مداخلت ہے۔
اسرائیل میں خاص طور پر تل ابیب، حیفا اور بیر السبع میں تباہ شدہ عمارتوں کی مرمت پر لاگت کا تخمینہ 400 ملین ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ اگرچہ تصادم کے دوران تقریباً 30 اسرائیلی مارے گئے ہیں لیکن ایران میں جانی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ کئی فوجی اور جوہری مقامات اور دیگر مقامات کو زیادہ مادی نقصان پہنچا ہے۔ لاگت بلاشبہ زیادہ ہے اور اربوں ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کی صحیح حد ابھی تک معلوم نہیں ہے۔تاہم ان جوہری مقامات کے قیام کے لیے برسوں سے جاری کوششوں پر تہران کی اربوں کی لاگت آئی تھی اور ان کی تعمیر نو بلاشبہ بہت منہگی ہوگی۔ تاہم تہران کو سب سے زیادہ قیمت اس کے انسانی نقصانات کے ذریعے اٹھانی پڑی۔ ایران میں تقریباً 650 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی شامل ہیں جن میں چیف آف سٹاف محمد حسین باقری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی کے علاوہ خاتم الانبیا ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر علی شادمانی بھی شامل ہیں۔ علی شادمانی کو ان کی تقرری کے چند روز بعد ہی قتل کردیا گیا۔ ایک اسرائیلی ذریعے کے مطابق اسرائیل نے تقریباً 30 اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈروں کو قتل کیا ۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے سترہ سے زیادہ سائنس دانوں کو بھی قتل کیا۔
مذاکرات کی میز اور نئے راستے
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر امریکی پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران تعمیر نو کے لیے تیل برآمد کرسکے گا۔انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ معاہدہ زیرِ غور ہے، جلد روس اور یوکرین تنازع بھی حل کرادوں گا، ایران اور اسرائیل کے درمیان مزید لڑائی کا امکان نہیں ، دونوں جنگ سے تھک چکے تھے۔
دی ہیگ میں نیٹو سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ٹرمپ نے کہا کہ غزہ پر بھی بڑی پیش رفت ہورہی ہے، حماس نے بھی جنگ بندی کے معاملے پر پیش رفت کی تصدیق کردی ہے۔ ادہر ایرانی پارلیمنٹ نے عالمی جوہری نگرانی کے ادارے کے ساتھ ایٹمی عدم تعاون کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی بم باری کا رد عمل ہے۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایران کا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے دست بردار ہونا انتہائی افسوس ناک ہوگا، یہ ایران کی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے اور این پی ٹی کے ڈھانچے میں ایک سنگین دراڑ پیدا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب ماہر بین الاقوامی اُمور پروفیسر عادل نجم نے کہا ہے کہ اگر ایران کی معیشت سے پابندیاں ہٹائی جاتی ہیں تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی، اگر ایسا ہوگیا تو اس کا مطلب ہے کہ ایران جیت گیا اور نیتن یاہو کو شکست ہوگئی۔
’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ‘ کے ساتھ میں بات کرتے ہوئے پروفیسر عادل نجم نے کہا کہ ایران پرسے اقتصادی پابندیاں ہٹنے کی صورت میں پاکستان کے لیے ناممکن سمجھی جانے والی بہت سی چیزیں ممکن ہو جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو ایک ایسا ہم سایہ مل جائے گا جس کے ساتھ تجارت ہو سکے گی اور یہ تجارت صرف تیل اور گیس تک محدود نہیں رہے گی۔پروفیسر عادل نجم کا کہنا تھاکہ پاکستان کو ان تعلقات کی وجہ سے فائدہ ہوسکتا ہے مگر ہمیں پھرتی دکھانا ہوگی۔